برادرم فاروق عادل سے ہماری آشنائی کے ماہ و سال ربع صدی سے زائد پر محیط ہیں۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایک عرصہ تک ہم صحافت کے ریگزار میں ایک ہی سرچشمہ سے فیضیاب ہوتے رہے۔ ہفت روزہ صحافت میں جناب الطاف حسن قریشی اور شامی صاحب کی رہنمائی اور رفاقت میں کچھ سیکھنے کے بعد ہم نے روزنامہ صحافت کا (بطور پولیٹیکل رپورٹر) آغاز کیا تو صلاح الدین شہید ہمارے پہلے ایڈیٹر تھے۔ ''جسارت‘‘ کے بعد جناب مجید نظامی جیسے شجرسایہ دار کی شفقت حاصل رہی۔ فاروق عادل کو بھی کراچی کے شہید ایڈیٹر کی ''شاگردی‘‘ کا اعزاز حاصل رہا۔ اس لحاظ سے ہم ''پیر بھائی‘‘ بھی ہوئے۔ پرنٹ میڈیا سے فاروق عادل نے الیکٹرانک میڈیا کا رُخ کیا لیکن دل مائیک اور کیمرے سے زیادہ کاغذ اور قلم ہی میں سکون پاتا۔ ان کی صحافتی تحریریں بھی خاص ادبی چٹخارہ رکھتی ہیں‘ چنانچہ ادبی نقادوں میں بھی تحسین کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں۔ برسوں پہلے امریکہ کے مطالعاتی دورے سے واپس آئے تو ''ایک آنکھ میں امریکہ‘‘ جیسا منفرد سفرنامہ لکھ کر اہلِ ذوق سے داد پائی۔ جناب ممنون حسین صدر بنے تو فاروق عادل کو بھی اپنے میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر ساتھ لے آئے۔ایوانِ صدر میں فرصت کے لمحات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فاروق عادل نے اپنے لکھے ہوئے خاکوں کی نوک پلک سنواری اور اس کی پہلی جلد مارکیٹ میں لے آئے ۔ ''صورت جو نظر آئی‘‘ پینتیس خاکوں پر مشتمل ہے۔ حضرت قائداعظم سے شروع ہونے والا سلسلہ مشرقی پاکستان کے عبدالصمد پر اختتام کو پہنچا۔ خاکوں کے عنوانات بھی خوب ہیں۔ مثلاً قاضی حسین احمد ''مہم جو‘‘ میاں طفیل محمد ''درویش‘‘ بیگم نصرت بھٹو ''دکھیاری‘‘ بے نظیر بھٹو ''عملیت پسند‘‘ جاوید ہاشمی ''پروانہ‘‘ شیخ رشید ''کاریگر‘‘ جنرل حمید گل ''حمید رومانی‘‘ الطاف حسین ''عزیز آباد کا پیر‘‘ حسین حقانی ''اسٹریٹ اسمارٹ‘‘ مشاہد اللہ خاں ''بھائی جی‘‘ اجمل خٹک ''مارکسی صوفی‘‘ جاوید احمد غامدی ''راہرو‘‘ غلام مصطفی جتوئی ''بارہواں کھلاڑی‘‘ پیر صاحب پگاڑا (مرحوم) ''ستارہ شناس‘‘ ائرمارشل اصغر خاں ''عمر اصغر کے والد‘‘ رجب طیب اردوان ''صورت گر‘‘ سردار فاروق لغاری ''نرم گرم وڈیرا‘‘ اہل قلم میں صلاح الدین شہید کو ''جانباز‘‘ الطاف حسن قریشی کو ''جادوگر‘‘ اور عطاء الحق قاسمی کو ''جامع الکمالات‘‘ لکھا۔
خود فاروق عادل کے بقول ''یہ خاکے محض دنیاداری میں نہیں لکھے گئے بلکہ ان کا سبب وہ یادیں ہیں جنہوں نے میرے دل کی دنیا تادیر متلاطم رکھی۔ ان خاکوں کی بنیاد اگرچہ ٹھوس حقائق پر رکھی گئی ہے لیکن دورانِ تحریر دل کی کھڑکی بند کرنے کی ضرورت میں نے محسوس نہیں کی‘ اس لیے یہ خاکے میرے تعصبات سے مکمل طور پر پاک نہ ہو سکے لہٰذا کچھ آبگینوں کو ٹھیس لگ جانے کا اندیشہ موجود ہے‘‘
اور اب قارئین کے لیے کچھ انتخاب :
''دکھیاری‘‘ (بیگم نصرت بھٹو):وہ ایک خوش باش عورت تھی۔ دکھوں نے جس کے گھر کا راستہ دیکھا اور واپسی کا راستہ بھول گئے۔ انہیں ایک بہادر عورت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس نے مارشل لاء کے دوران پولیس کی لاٹھیاں کھائیں اور لہولہان ہو کر بھی سر اٹھا کر کھڑی رہیں۔ لیکن میں نے جب انہیں پہلی بار دیکھا تو اس وقت بھی وہ دشمن کے نرغے میں تھیں لیکن اس کی خبر نہ تھی...رضویہ سوسائٹی (کراچی) کے اجتماع میں ہونے والی گڑبڑ کو بھی وہ اپنے جیالوں کا جھگڑا سمجھتی رہیں‘ ان کی سمجھ میں نہ آ سکا کہ رضویہ سوسائٹی کی زمین پیپلز پارٹی کے پائوں تلے سے نکل چکی اور ہنگامہ کرنے والے جیالے نہیں بلکہ نئی ابھرنے والی جماعت (ایم کیو ایم) کے کارکن ہیں جو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اپنا بوریا بستر اب اس علاقے سے گول کرو۔ بیگم صاحبہ کو ایک بار میں نے ننگے سر اور ننگے پائوں بھی دیکھا۔ مرتضیٰ بھٹو اپنا راستہ بہن سے علیحدہ کر کے سیاست میں بھرپور طریقے سے متحرک ہو چکے تھے۔ 1993ء میں انتخابات کا موقع آیا تو وہ بے نظیر بھٹو کے امیدوار کے مقابلے پر تھے۔ توقع یہی تھی کہ کامیاب نہ ہو سکیں گے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے پانسہ پلٹ گیا۔ مرتضیٰ بھٹو نے لاڑکانہ میں جلسے کا اہتمام کیا تو بیگم نصرت بھٹو ننگے سر اور ننگے پائوں اس میں موجود تھیں۔ جلسے کی کارروائی اور رکھ رکھائو کو نظرانداز کرتے ہوئے وہ ایک دم کھڑی ہو گئیں اور کہا ‘میں بھٹو کی بیوہ تمہارے سامنے دستِ سوال دراز کرتی ہوں‘ چاہے تو اسے بھر دو اور چاہے تو مجھے خالی ہاتھ لوٹا دو‘‘ میں نے اپنی رائے میں تھوڑی ترمیم کر لی کہ یہ خاتون صرف سادہ لوح اور سادہ مزاج ہی نہیں‘ سیاست کے رنگ ڈھنگ بھی خوب جانتی ہے... دوستوں اور دشمنوں کے درمیان شبنم اور شعلہ بن جانے والی یہ خاتون کھیلنے‘ کھانے کے لیے پیدا ہوئی تھی۔ بھٹو صاحب بیرونی دوروں پر جاتے تو وہ پروٹوکول اور سیکورٹی کو جُل دے کر بازاروں میں نکل جاتیں۔ آئس کریم سے لطف اندوز ہوتیں‘ مہنگی خوشبوئیں خریدتیں اور دنیا کے رنگ دیکھتیں لیکن جس روز ان کے سر کے سائیں کا جنازہ اٹھا‘ دکھوں نے ان کے گھر کا راستہ دیکھ لیا۔ اس کے بعد سکون کی کوئی ایک سانس بھی انہیں میسر نہ آ سکی۔
''مہم جو‘‘ (قاضی حسین احمد): صبح روانگی تھی۔ ہم سردار اکبراجن کے اوطاق سے نکلے تو آگے چوک تھا جس کی تمام تر رونق آٹا پیسنے والی چکی کے دم سے تھی۔ یہاں ہماری نظر ایک ہاری پر پڑی جس کے سینے پر لگا قاضی حسین کی تصویر والا بیج نمایاں تھا۔ قاضی صاحب مسکراتے ہوئے ویسے ہی اچھے لگتے تھے۔ اس شخص کو دیکھ کر تو وہ کھل اٹھے۔ ان کے کتابی چہرے کی سفیدی پر سرخی غالب آ گئی‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا : لوگ لٹریچر کی باتیں بہت کرتے ہیں۔ اس ان پڑھ آدمی کا لٹریچر اس تصویر کے سوا کیا ہے؟‘ کیا قاضی صاحب جماعت کے لٹریچر کے بارے میں کچھ تحفظات رکھتے تھے؟ اس حوالے سے بہت سی کہانیاں سننے میں آیا کرتی تھیں۔ اس واقعہ کی شکل میں اس روز ایک کہانی میں نے بھی دیکھی اور کڑی سے کڑی ملانے کی کوشش کی۔ اس حقیقت میں تو کوئی شبہ ہی نہیں کہ قاضی صاحب نے اپنے دور ِامارت میں جماعت اسلامی کو پیپلز پارٹی جیسی مقبول عام جماعت بنانے کے لیے جان کی بازی لگا دی۔ عمومی تاثر یہ تھا کہ تاریخ اسلام کے تعلق سے مولانا مودودی ؒکی آراء جماعت کی مقبولیت کے آڑے آتی ہیں‘ وہ مولانا کے لٹریچر کے بارے میں لچک پیدا کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ کسی نے کہا کہ جماعت کی قیادت کا رنگ ڈھنگ عوامی نہیں انہوں نے عوامی انداز اختیار کر لیا اور جلسے جلوسوں میں موسیقی کے لیے بھی گنجائش پیدا کی۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب انہیں محسوس ہوا کہ فصل خوب پک چکی اب اسے سنبھالنے کا موقع آ پہنچا ہے چنانچہ انہوں نے کچھوے کی رفتار سے چلنے والی جماعت اسلامی کو منصورہ میں آرام کرنے کی اجازت دے دی اور اپنی قیادت میں پاکستان اسلامک فرنٹ قائم کر کے طاقت کے کھیل میں شریک ہونے کی کوشش کی...اس تجربے سے قبل جماعت کسی نہ کسی 6 فیصد ووٹ تو لے ہی جاتی تھی‘ لیکن اس بار ان میں 4 فیصد کی کمی ہو گئی۔
''عملیت پسند‘‘ (بے نظیر بھٹو): بے نظیر ایک بڑی سیاستدان ہونے کے باوجود ایک حساس‘ باتونی اور زندہ دل خاتون تھیں‘ جن میں آزمائش کے وقت ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے رہنے کی بھرپور صلاحیت تھی۔ مشکل وقت گزر جانے کے بعد ان کیفیات سے لطف اندوز ہونا بھی انہیں آتا تھا...بے نظیر اپنا دکھ قوم کے سامنے تخلیقی انداز میں پیش کیا کرتیں۔ وہ اسیر شوہر کو ملنے کے لیے جیل جاتیں تو کبھی جیل حکام ان کی گاڑی کو عمارت کے قریب نہ آنے دیتے اور کبھی وہ خود ہی گاڑی کو دور رکھ کر اتر پڑتیں‘ جب تک دو بچے تھے‘ وہ ایک کو گود میں اٹھا لیتیں‘ دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر چل پڑتیں...بے نظیر جیسے اپنے بچوں کو مشرقی مائوں کی طرح ڈانٹتیں‘ عین اسی طرح اپنے شوہر کے لیے بھی وارفتگی کا مظاہرہ کیا کرتیں۔
بے نظیر کے چہلم کے روز میں گڑھی خدا بخش میں بھٹو خاندان کے آبائی قبرستان میں تھا۔ صفدر عباسی‘ محمد علی بھٹو اور کئی دیگر رہنما اور لاتعداد کارکنان قرآن خوانی میں مصروف تھے۔ دوسری طرف خواتین کی بڑی تعداد بے نظیر کی لحد کے گرد گھیرا ڈالے بیٹھی تھی۔ میں خاموشی سے اٹھ کر ان کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔ ایک مفلوک الحال نوجوان لڑکی قبر کی پائنتی پر ہاتھ رکھے بڑبڑا رہی تھی‘ ''ہن مکھے پُٹ کھپے‘ آئوں کجھ نتھی جانڑاں‘‘ (اب کے مجھے بیٹا چاہیے۔ میں اور کچھ نہیں جانتی) بی بی اس دنیا سے گزر جانے کے بعد بھی لوگوں کی امیدوں کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔