لوگ بھی عجیب ہیں۔ ہمت اور جرأت کی مثالیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ اِس میں ڈھونڈنے والی کیا بات ہے۔ آج کا ہر پاکستانی ہمت اور جرأت کی اعلیٰ مثال ہے۔ جن حالات میں وہ جی رہا ہے وہ بجائے خود ہمت کی ایک اعلیٰ اور امتیازی نشانی ہے! دنیا بھر میں لوگ ذاتی ہمت اور جرأت کے مظاہرے کرتے پھرتے ہیں اور پھر سوشل میڈیا پر وڈیوز اپ لوڈ کرکے داد بٹورتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ وہ کرتے ہیں وہ بس کہنے کی حد تک ہی ہمت کا نمونہ ہوتا ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ہم روز موت کے سامنے آکر اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہیں اور دوبارہ اپنی پوزیشن پر آجاتے ہیں۔ مگر افسوس کہ ہمیں کوئی داد دینے والا نہیں، کوئی ہماری ہمت اور جرأت کو سراہنے کے لیے تیار اور متوجہ ہی نہیں۔ پتا نہیں ہمارا نمبر کب آئے گا!
اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس بات پر ہمارا ایمان ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ کراچی میں تعمیر و ترقی سے متعلق اداروں نے اللہ کے اس فرمان کو ہماری حقیقی آزمائش میں تبدیل کرنے اور ہماری قوتِ برداشت کا گراف بلند کرنے کے طریق میں تبدیل کرنے کی قسم کھالی ہے۔ اہلِ کراچی کا صبر جس طور آزمایا جارہا ہے اُس کی مثال نہیں ملتی۔ قدم قدم پر آزمائش ہے، گام گام امتحان ہے۔ ہر طرف شکست و ریخت اور خستہ حالی کا جہان ہے جس کے آگے ہر جاندار یکسر بے جان ہے!
اہل کراچی جب کبھی تعمیر و ترقی کا مطالبہ کرتے ہیں اُن کی شامت ہی آجاتی ہے۔ شامت یوں کہ متعلقہ ادارے بار بار کے مطالبے سے تنگ آکر جب کام کرنے پر تُلتے ہیں تو ایسے تُلتے ہیں کہ ترازو ہی کا وجود خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ اس وقت بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے جس سے کراچی دوچار ہے۔
ترقیاتی کاموں کے نام پر شہر کو ایک بار پھر ادھیڑ دیا گیا ہے۔ جگہ جگہ گڑھے ہیں۔ ایک زمانے سے سنتے آئے ہیں کہ جو دوسروں کے لیے گڑھے کھودتے ہیں وہ خود اُس میں گرتے ہیں۔ کراچی میں ترقیاتی کاموں پر مامور اداروں نے اہلِ شہر کے لیے جو گڑھے کھودے تھے اُس میں وہ خود نہیں گرے، ہاں شہری گرتے رہتے ہیں۔ جن گڑھوں کو بھر دیا گیا ہے وہ بھی اب تک شہریوں کو لڑکھڑانے اور گرانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں کیونکہ اِن گڑھوں کو اِس طور بھرا گیا ہے کہ جگہ جگہ پہاڑیاں سی بن گئی ہیں۔ ان پہاڑیوں سے ٹکراکر موٹر سائیکل والے بھی گرتے ہیں اور بڑی گاڑیوں والے بھی جھٹکا کھا جاتے ہیں۔
جب سے گرین بس منصوبے کے لیے کھدائی شروع ہوئی ہے، جگہ جگہ مٹی کے ڈھیر پڑے ہیں۔ مٹی کے اِن ڈھیروں سے گرد اُڑ اُڑ کر شہریوں کا ناک میں دم کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ کہیں کم تو کہیں زیادہ، بہرحال محروم کسی کو نہیں رکھا گیا۔ اچھی خاصی مقدار میں گرد پورے تمام شہریوں پر تقسیم کردی گئی ہے۔ اور اِس تقسیم نے ضرب لگانے کا فریضہ خوب انجام دیا ہے یعنی شہری، کہ جو پہلے ہی سانس لینے میں تکلیف محسوس کرتے رہے ہیں، اب مزید پیچیدگیوں سے دوچار ہیں۔ بے چارے ساری جمع تفریق بھول گئے ہیں! ''سائِنس‘‘ کی شکایت والوں کے لیے الجھن بڑھ گئی ہے۔ فضاء میں گرد کا تناسب ہے کہ دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا ہے۔ لوگ بلغم تھوک تھوک کر عاجز آچکے ہیں۔ گرد اِتنی ہے کہ گھر سے کام پر جانا اور واپس آنا ایک بڑی آزمائش میں تبدیل ہوچکا ہے۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ شاید اِس یومیہ آزمائش کا اجر آخرت میں رکھا گیا ہے! اور اگر یہ آزمائش نہیں بلکہ سزا ہے تو اچھا ہے کہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت گناہوں کی پوٹلی میں برائے نام مال رہ جائے!
دیگر اہلِ وطن کی طرح کراچی کے باشندے بھی چاہتے ہیں کہ ترقیاتی کام ہوں اور زندگی میں آسانی پیدا ہو۔ مگر جب کبھی ترقیاتی کاموں کا مطالبہ تسلیم کیا جاتا ہے، شہرِ قائد کے مکینوں کی بس شامت آجاتی ہے۔ کچھ کچھ ویسی ہی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس کے استاد قمرؔ جلالوی نے کہا تھا ؎
دعا بہار کی مانگی تو اِتنے پھول کِھلے
کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو!
اس وقت بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ترقیاتی کاموں کے نام پر کئی سڑکیں ایک ساتھ ادھیڑ دی گئی ہیں۔ اب کے کچھ انوکھا یوں ہوا ہے کہ بعض سڑکوں کو تعمیر کے مرحلے سے گزارنے کی خاطر عجیب انداز سے موٹی موٹی لکیروں کی شکل میں چیرا گیا ہے۔ ان سڑکوں پر موٹر سائیکل چلانے والوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔ ایسی حالت والی سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے محترم رئیسؔ امروہوی کا یہ شعر یاد آئے بغیر نہیں رہتا جو تھا جو کسی اور سیاق و سباق میں مگر اب بھی بہت سے معاملات پر منطبق ہو رہتا ہے ؎
کوئی گناہ تھا اے دل حصولِ آزادی
یہ کس عذاب میں ہم ہیں، یہ کس عذاب میں تُو!
جب سے کراچی میں ترقیاتی کاموں کا نیا سلسلہ شروع ہوا ہے، ساتھ ساتھ پریشانیوں کا بھی نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ اِس دوسرے سلسلے کی رفتار ہی نہیں، پھیلاوا بھی زیادہ ہے! شہر بھر میں جہاں جہاں گرد کا نام و نشان نہ ہوا کرتا تھا وہاں سے بھی سلامت گزرنا اب جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔ ناک پر ماسک لگانے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ ناک کو تو گرد سے بچایا جاسکتا ہے۔ آنکھوں، بھنووں، پلکوں، ماتھے، اور بالوں کو کیسے بچایا جائے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کپڑے بھی گرد میں اٹ جاتے ہیں۔ اچھی طرح تیار ہوکر کام پر جانے والا شخص شام کو واپسی پر اچھا خاصے بھوت میں تبدیل ہوچکا ہوتا ہے! کبھی کبھی تو گھر والے بھی ایک نظر میں پہچان نہیں پاتے! ع
... پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی!
گرد میں اٹ جانے کے بعد بعض کم نصیبوں کی حالت تو ایسی ہو جاتی ہے کہ گھر میں داخل ہونے پر گا گاکر اہلیہ کو یقین دلانا پڑتا ہے ع
میں وہی ہوں مومنؔ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو!
جن لوگوں کے کام کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ دن بھر موٹر سائیکل پر سفر کرنا پڑتا ہے اُن کے لیے تو یہ سب کچھ قیامت سے کم نہیں۔ ایک طرف تو شہر بھر میں گڑھے۔ سڑکوں پر جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے پیچز جن سے گزرتے ہوئے موٹر سائیکل کا لڑکھڑانا ہے۔ یا پھر موٹر سائیکل کی رفتار کم کرکے گزریے جس کے نتیجے میں ٹیمپو ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ عذاب وہی سمجھ سکتے ہیں جنہیں کہیں پہنچنا ہو اور ٹیمپو بار بار ٹوٹے یا توڑنا پڑے۔
شہرِ قائد گرد میں ایسا اٹا ہوا ہے کہ اِس کے مکین زبانِ بے زبانی سے ایک دوسرے کو یومیہ بنیاد پر کہتے رہتے ہیں
HAPPY "DUST-DAYS" TO US!
بعض علاقوں کے مکین ترقیاتی منصوبوں کے اجراء پر ہاتھ جوڑ کر کہتے پائے گئے ہیں کہ
مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احسان ہوتا!
سبب اس کا یہ ہے کہ کسی ایک ترقیاتی منصوبے کی تکمیل کے نام پر بہت کچھ ادھیڑ اور بگاڑ کر رکھ دیا جاتا ہے۔ نئے منصوبے سے مستفید ہونے کے ساتھ ساتھ پرانے منصوبوں میں پیدا ہونے والے بگاڑ کی تلافی کے لیے اگر متعلقہ اداروں کو چراغِ رخِ زیبا لے کر بھی ڈھونڈیے تو اُن کا سراغ نہیں ملتا۔ ہاں، گرد رہ جاتی ہے جو ہاتھ آئے بغیر نہیں رہتی!