ہمارے درویش منش اور دولت سے بے نیاز‘ سابق وزیراعظم نے اپنی گدی یونہی نہیں چھوڑ دی۔ اس کے پیچھے بہت سی وجوہ اور عالمی طاقتوںکے بدلتے ہوئے تیور ہیں۔ پاک چین دوستی دو چار برس کی بات نہیں‘ یہ نصف صدی سے زیادہ عرصے کو پھیلی ہوئی ہے۔ انقلابی چین کی بانی قیادت کے عالمی اور علاقائی تصورات بہت دور رس ہیں۔ بدقسمتی سے ہمیں زیادہ تر ایسی حکومتیں میسر آئیں جو صرف اپنے مفادات عزیز رکھتی ہیں۔ بیشتر حکمران انٹرنیشنل اکنامک کلب کے حاشیہ بردار رہے۔ چین کی قوم پرست اور عوام دوست حکومت‘ پڑوسیوں خصوصاً پاکستان کے ساتھ‘ بے لوث تعلقات کی خواہش مند تھی۔ چینی قیادت نے ہر نازک موڑ پر ہمارا خیال رکھا۔ انتہائی مشکل وقت میں بغیر کسی لالچ کے آگے بڑھ کر ہماری مخلصانہ مدد بھی کی۔ خصوصاً دو مواقع پر تو چینی قیادت نے ثابت کر دیا کہ وہ ہمارا ہمدرد اور مخلص دوست ہے ۔ 1965ء میں جب ہمارے حکمرانوں نے احمقانہ تصورات کے تحت‘ اچانک بھارت کے ساتھ جنگ چھیڑ دی اور ہمیں لینے کے دینے پڑ گئے۔ یہ چین ہی تھا کہ جب بھارت نے آگے بڑھ کر ہماری سرزمین پر قدم رکھے تو اس نے خود جنگ میں کودنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس دور میں پاکستان کے جن افراد کو حالات حاضرہ کا احساس تھا‘ انہیں اچھی طرح یاد ہو گا کہ اچانک مقبوضہ کشمیر میں واقع‘ دریائے توی پار کر کے ہم نے آگے بڑھنا شروع ہی کیا تھا کہ بھارت نے بلا تاخیر پاکستان کی مغربی سرحدوں پر حملے شروع کر دیئے۔ یہ تھر پارکر سے لے کر پنجاب کے میدانوں تک جا بجا پھیلے ہوئے تھے۔ دوسری طرف مشرقی پاکستان میں گھرے ہوئے پاکستانی فوجیوں پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا۔
میں تفصیلی واقعات نہیں لکھ رہا۔ ہمارے حکمرانوں نے چین کو ایسے ایسے فریب دیئے ہیں‘ وہ صرف ہماری وزارتِ داخلہ اور وزارتِ دفاع کے علم میں ہیں۔ امریکہ نے جب پاکستان کو خیر سگالی کے طور پر اپنا ایک جدید ترین مسافر جیٹ طیارہ‘ پروازوں کے لئے استعمال کرنا شروع کیا تو ہمارے حکمرانوں کی ''چالاکی‘‘ ملاحظہ فرمائیے۔ چند ہفتوں کے بعد ہی‘ امریکی طیاروں میں خفیہ کیمرے نصب کر دئیے گئے جو چین کے شہروں اور اس کی سرزمین کے حساس علاقوں کی جاسوسی کرنے لگے۔ چین ہمیں اپنے دفاع کے لئے جو جدید ترین اسلحہ دیتا‘ ہم چینی انجینئرزکو خفیہ طور پر پاکستان میں بلا کر طیاروں کی چھان بین شروع کرا دیتے۔ چینی اتنے بھی بھولے نہیں تھے۔ انہوں نے جدید ترین جنگی جہازوں کی ٹیکنالوجی ہمیں مہیا کرنا شروع کر دی اور اس کے لئے بہت بڑے ورکشاپس قائم کر دئیے‘ جہاں چینی ہنر مندوں کے لئے رہائش گاہیں بھی قائم کر دی گئیں۔ جب میں ان ورکشاپس کو دیکھنے گیا تو وہاں متعدد جنگی طیارے بنتے ہوئے دیکھے۔ ہمارے انجینئر بھی اپنے چینی مہمانوں کے ساتھ مل کر کام کرتے اور پھر طیاروں کی جدید ترین ٹیکنالوجی کا ہنر بھی سیکھتے رہے۔ ابھی چند سال پہلے کی بات ہے کہ پاکستان نے چین کے تعاون سے‘ امریکیF-16 کی ٹکر کا ایک مشترکہ جہاز تیار کر لیا۔ آج یہ لڑاکا طیارہ عالمی مارکیٹ میں اپنا لوہا منوا چکا ہے۔ کئی ممالک نے اپنی ایئر فورسز کے لئے یہ طیارے خرید بھی لئے ہیں۔
میں جب ماضی کے تجربات کو یاد کرتا ہوں تو بہت دکھ ہوتا ہے۔ ہم نے مشرقی پاکستان پر فوج کشی کر کے اپنے ہم وطنوں کو خون میں نہلا دیا۔ ڈھاکہ کی گلیوں میں ٹینک چلا دیئے۔ جہاں تک ممکن ہوا چین نے پاکستانی فوجی کو قوت پہنچائی مگر چین کو پتا چل گیا کہ پاکستان ہزار میل کے فاصلے سے جنگ نہیں لڑ سکتا۔ اگر پاکستان میں چینیوں کے ساتھ تلخ تجربات کا جائزہ لیا جائے تو ان کے آج کے طرز عمل کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اس نے انتہائی نرم شرائط پر ہمیں اسلحہ اور مواصلاتی سامان نہ صرف مہیا کیا بلکہ عملی طور پر دنیا کا حیرت انگیز تعمیراتی سلسلہ شروع کر دیا‘ جس میں چین کا فائدہ برائے نام ہو گا جبکہ ہماری معیشت کہیں سے کہیں پہنچ رہی ہے۔ چین نے سنکیانگ سے لے کر گوادر تک‘ انٹرنیشنل معیار کی نہ صرف سڑک بنائی بلکہ اس کے انجینئرز نے خود پاکستان میں آکر‘ رگوں میں خون جمانے والی سردی اور جسم کا رنگ سیاہ کرنے والی دھوپ میں‘ ایک ایسی سڑک بنا دی‘ جس پر گوادر کی بندرگاہ تیار کر کے‘ ہمارے لئے مغرب کا دروازہ کھول دیا۔ وہ پاکستان میں ہمارے لئے بنیادی صنعتیں بھی قائم کرنے پر تیار تھا کہ پہلا ہی تجربہ چینیوں کے لئے تکلیف دہ ثابت ہوا۔
چین نے ملتان میں پاکستان کے درمیانے درجے کے شہروں اور ارد گرد کی دیہی آبادی کے رابطوں کے لئے‘ میٹرو بس سروس کا ڈھانچہ بنانا شروع کر دیا۔ جو مکمل ہو چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عوام کے خدمت گزار حکمرانوں نے چینیوں کو بھی‘ اپنی مہارت اور ہنر مندی سے محروم نہیں رکھا۔ ملتان میٹرو سروس کے لئے چین نے جو مشینری اور مالی اعانت کی‘ اسے دیکھ کر چینیوں سمیت ‘ساری دنیا کے ترقی یافتہ ملک ہمیں کیسی نظروں سے دیکھیں گے؟ اس کی خبریں تو ہم سن چکے ہیں مگر جو واقعات منظر عام پر آئیں گے‘ اس پر آپ دنگ رہ جائیں گے۔ چند ہفتے پہلے جب مختلف ٹی وی مراکزسے یہ خبر نشر ہوئی کہ چینی اس شہری ٹرانسپورٹ میں اپنی سرمایہ کاری کے انداز پر فکرمند ہوئے تو فیصل سبحان نامی ایک شخص نے چینیوں پر یہ راز کھول دیا کہ آپ جو رقوم شہری ٹرانسپورٹ کے لئے مہیا کر رہے ہیں‘ اس کا ایک بڑا حصہ تو خورد برد ہو رہا ہے۔ جس شخص نے چینیوں پر یہ راز کھولا‘ اسے پاکستان آتے ہی غائب کر دیا گیا۔ ابھی تک کسی کو پتا نہیں‘ وہ کہاں ہے؟ موقع ملا تو یہ بھی عرض کروں گا کہ حکمران برادران نہ تو اقتدار سے بیزار ہوئے ہیں اور نہ ہی ان کے مخالفین نے‘ ان کا کچھ بگاڑا ہے۔ جیسے ہی پاکستان میں وطن پرست حکمران آئیں گے تو ایک لمحے کی تاخیر کئے بغیر آنے والی تباہی سے وطن کو بچا لیں گے ورنہ دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹنے والے‘ ہمیں تباہ کاری کی گہرائیوں میں دھکیل رہے ہیں۔