تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     28-02-2018

سُرخیاں‘ متن اور جواد شیخ کی شاعری

عام انتخابات میں عوامی عدالت ووٹ کی
حُرمت کیلئے تاریخی فیصلہ دے گی : نوازشریف
سابق اور نااہل وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''عام انتخابات میں عوامی عدالت ووٹ کی حرمت کیلئے تاریخی فیصلہ دے گی‘‘ کیونکہ ہم نے ووٹ کی حرمت کے جو معیارات طے کر دیئے ہیں اسی سے عوام کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور ان کے ووٹ سے جو بادشاہت قائم کی گئی تھی وہ رعایا نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی کہ بڑے بڑے فیصلے اور تعیناتیاں زبانی حکم پر بھی ہو جایا کرتی تھیں کیونکہ بادشاہ سلامت کے پاس تحریری حکم کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ عوام کی خدمت میں ہی گوڈے گوڈے دھنسے ہوتے تھے کیونکہ اس خدمت کو آخر کہیں ٹھکانے بھی لگانا تھا کہ اسے محفوظ کرنے کے لیے ملکی بینک محفوظ نہیں سمجھے گئے کہ یہاں بینک ڈکیتیاں شکیتیاں عام ہی ہوتی رہتی ہے اس لیے یہ رسک کیسے لیا جا سکتا تھا۔ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''غربت کا خاتمہ ہمارا مشن ہے‘‘ کیونکہ ان چار ساڑھے چار برسوں میں خدمت کے ساتھ ساتھ غربت میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ترقی اور خوشحالی کا راستہ روکنے والوں کی قسمت میں مایوسی لکھی جا چکی ہے‘‘ جبکہ دیوار پر لکھا تو اور بھی بہت کچھ جا چکا ہے جو سب کو نظر آ بھی رہا ہے اس لیے اس کا ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ''پارٹی کارکن قیمتی اثاثہ ہیں‘‘ اور ہمیں قیمتی اثاثوں ہی کی حفاظت کرتے کرتے یہ دن آ گئے ہیں جنہیں ہر وقت کوئی نہ کوئی خطرہ لاحق رہتا ہے‘ حتیٰ کہ پارٹی کارکنوں جیسے اثاثوں کا بھی ریفرنسز کا فیصلہ آنے کے بعد ادھر ادھر ہو جانے کا شدید خطرہ ہے کیونکہ یہ کام اوپر سے شروع ہو کر نیچے تک جائے گا جیسے کہ ہماری جملہ برکات بھی اوپر سے نیچے آنے والی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہمیں کارکنوں پر فخر ہے‘‘ اگرچہ دوسرے اثاثوں جتنا تو نہیں تاہم کافی فخر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''تاریخ گواہ ہے ہم نے ملکی مفاد پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا‘‘ اور چونکہ میں سارے ملک کا وزیراعظم تھا‘ اس لیے میرا ذاتی مفاد بھی ملکی مفاد ہی تھا جس پر کبھی سمجھوتہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا جبکہ سوچنے سمجھنے سے ویسے ہی فراغت حاصل تھی۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام سے پیار کا رشتہ برقرار رہے گا‘‘ کیونکہ اس میں ہمدردی کا رشتہ بھی شامل ہونے والا ہے۔ آپ اگلے روز فیصل آباد میں کارکنوں اور میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پیارے منصفو اور محتسبو‘ اب بس 
کرو اور پاکستان کو چلنے دو: سعد رفیق
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''پیارے منصفو اور محتسبو‘ اب بس کرو اور پاکستان کو چلنے دو‘‘ کیونکہ پاکستان ایک ہی طریقے سے چل سکتا ہے اور چل بھی رہا تھا جس کی وضاحت ہمارے قائد نے یہ کہہ کر کر دی تھی کہ رشوت کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی‘ سو‘ آپ نے دیکھا کہ جب سے ہماری حکومت ختم ہوئی ہے ترقی بھی رُک گئی ہے اور چلتا ہوا پاکستان وہیں ٹھہر گیا ہے جہاں ہمارے قائد کی نااہلی کے وقت تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''سیاسی جماعتوں میں موجود منفی عناصر جمہوری نظام تباہ کرنا چاہتے ہیں‘‘ چنانچہ سب سے پہلے ہم نے اپنی جماعت سے ایسے عناصر کا قلع قمع کرنا چاہا تھا لیکن وہ اس قدر جڑ پکڑ چکے ہیں کہ ساری پارٹی ہی اسی رنگ میں رنگی نظر آتی ہے‘ اس لیے ہم نے یہ خیال ہی ترک کر دیا کیونکہ ویسے بھی لگ رہا ہے کہ جب جھاڑو پھرے گی تو سارا کاٹھ کباڑ خود ہی صاف ہو جائے گا اس لیے ہمیں اس سلسلے میں زیادہ تردد اور فکرمندی کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ آپ اگلے دن لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
جب تک جان میں جان ہے‘ عوامی 
خدمت کرتے رہیں گے : شہبازشریف 
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''جب تک جان میں جان ہے عوامی خدمت کرتے رہیں گے‘‘ تاہم جن لوگوں کے ذریعے یہ خدمت کی جاتی تھی‘ ان کے پیچھے نیب پڑ گئی ہے‘ اس لیے عوامی خدمت کا سلسلہ رُکتا ہوا لگتا ہے اور جُوں جُوں مزید لوگ پکڑے جائیں گے توں توں یہ خدمت خواب و خیال ہوتی جائے گی۔ البتہ اس طرف سے تسلی ضرور ہوئی ہے کہ پولیس نے کہہ دیا ہے کہ عابد باکسر ان کی تحویل میں نہیں ہے‘ لیکن دوسری طرف یہ مزید فکرمندی کی بات بھی ہے کہ اگر وہ دیگر قوتوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے تو ہماری نئی مشینوں کی طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر کے دکھا دے گا‘ اگرچہ ان قوتوں کی توپوں میں بھائی صاحب کافی عرصے سے کیڑے ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہماری حکومت نے عوام کی خون پسینے کی کمائی کو دیانت داری کے ساتھ فلاح عامہ کے منصوبوں پر خرچ کیا‘‘ اگرچہ بعد میں ہماری خون پسینے کی کمائی ہو کر ہی رہ گئی تھی۔ آپ اگلے روز لاہور میں مختلف وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں جواد شیخ کے کچھ اشعار :
چلو ہوتے کوئی دو چار یہاں
شہر کا شہر ہے فنکار یہاں
برف سی لگ گئی حیرانی پر
حرف کو لگ گیا زنگار یہاں
کوئی سوتا نہیں ڈر کے مارے
کوئی ہوتا نہیں بیدار یہاں
کس نے یہ گرد اُڑائی ہوئی ہے
کون ہے قافلہ سالار یہاں
تم بھی ہو جائو گے اچھے جوادؔ
کون ہوتا نہیں بیمار یہاں
آج کا مطلع
چُھپا ہُوا ہے‘ نمُودار ہو بھی سکتا ہے
یہ شہر خواب سے بیدار ہو بھی سکتا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved