تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     28-02-2018

ایک سبق آموز واقعہ

تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے لوگ مختلف طرح کے تاریخی واقعات کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں۔ ان واقعات میں انسانوں کے لیے بہت سے سبق آموز پہلو موجود ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں پر قرآن مجید میں احکامات کا نزول فرمایا‘ وہیں بنی نوع انسان کو عبرت اور نصیحت دلانے کے لیے بہت سے سبق آموز واقعات کو بھی بیان کیا۔ ان میں سے ایک واقعہ جسے قرآن مجید نے احسن القصص قرار دیا ہے‘ وہ حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ ہے ۔جو اپنے اندر بہت سے اسباق کو لیے ہوئے ہے۔ 
حضرت یوسف ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے حضرت اسحاق علیہ السلام کے پوتے اور جناب یعقوب علیہ السلام کے لخت جگر تھے۔ آپ نے بچپن میں ایک خواب دیکھاکہ آپ کو گیارہ ستارے ، سورج اور چاند سجدہ کر رہے ہیں۔ آپ ؑ نے اپنے والد گرامی سے اس خواب کو بیان کیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے جناب یوسف علیہ السلام کو اس بات کی نصیحت کی کہ آپؑ نے اپنے ا س خواب کو اپنے بھائیوں کے سامنے بیان نہیں کرنا۔اللہ تبارک وتعالیٰ آپؑ پر اور آل یعقوب پر آپ کے آباؤ اجداد کی طرح نعمت کو پورا کرے گا۔ دوسری طرف حضرت یوسف علیہ السلام کے سوتیلے برادران حضرت یعقوب علیہ السلام کی محبت کے حصول کے لیے حضرت یوسف علیہ السلام کو بابا کی آنکھوں سے دور کرنے کی تدبیر کر رہے تھے تاکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی محبتوں کو حاصل کر لیا جائے۔انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے سامنے ایک پلان کے تحت اس بات کا اظہار کیا کہ آپؑ حضرت یوسف علیہ السلام کے معاملے میں ہم پر بھروسہ کیوں نہیں کرتے ‘آپ ان کو ہمارے ساتھ روانہ کریں تاکہ وہ ہمارے ساتھ کھیلیں اور کھائیں پئیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اس خدشے کااظہار کیا کہ کہیں تم حضرت یوسف علیہ السلام سے غافل نہ ہو جاؤ اور انہیں کوئی بھیڑیا کھا جائے۔ انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو مطمئن کیا اور حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے ساتھ لے گئے اور ان کو ایک گہرے کنوئیں میں اتار دیا۔ بابا یعقوب کے پاس آ کر کہا کہ آپ کا خدشہ درست ثابت ہوا اور یوسف علیہ السلام کو ایک بھیڑیا کھا گیا۔حضرت یعقوب علیہ السلام نے اس بات پر صبر کیا اور خاموش ہو گئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام جس کنوئیں میں موجود تھے تو اس کے پاس سے مصر کو جانے والا ایک قافلہ گزارا ۔ اور انہوں نے پانی کے حصول کے لیے ڈول کو ڈالا تو حضرت یوسف علیہ السلام ڈول کے ذریعے باہر آ گئے۔ انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے ہمراہ لیا اور ان کو گنتی کے چند درہموں کے عوض مصر کے ایک بڑے گھرانے یعنی عزیر مصر کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا۔ 
حضرت یوسف علیہ السلام وہاں پرورش پاتے رہے اور اپنی زندگی کے ماہ وسال کو طے کرتے رہے۔ جب آپ ؑ جوان ہوئے تو عزیز مصر کی بیوی آپؑ کے حسن پر فریفتہ ہو گئی اور اس نے آپؑ کو برائی کی دعوت دی جس کو حضر ت یوسف علیہ السلام نے ٹھکرا دیا۔ عزیز مصر کی بیوی نے حضرت یوسف علیہ السلام کا تعاقب کرنے کی کوشش کی اسی اثناء میں عزیز مصر اپنے محل میں داخل ہو رہا تھا جب اس نے سارے منظر کو دیکھا تو اس کو بڑی تشویش ہوئی لیکن اس موقع پر ا س کی بیوی نے اپنے رویے کو بدل کر حضرت یوسف ؑ پر الزام لگادیا۔حضرت یوسف علیہ السلام کی بیگناہی کو ثابت کرنے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے محل کے ایک بچے کو قوت گویائی عطا کی جس نے یہ بات کہی کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض اگر آگے سے پھٹی ہوئی ہے تو عزیز مصر کی بیوی کا الزام سچا ہے اگر قمیض پیچھے سے پھٹی ہوئی ہے تو الزام جھوٹا ہے۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض کو دیکھا گیا تو وہ پیچھے سے پھٹی ہوئی تھی چنانچہ یہ بات ثابت ہو گئی کہ حضرت یوسف علیہ السلام پاک دامن ہیں۔اس واقعے کی اطلاع جب مصر میں پھیلی تو طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی عورتوں نے عزیز کی بیوی کے کردار پر تشویش کا اظہار کیا کہ وہ کس طرح اپنے ہی پالے ہوئی نوجوان پر فریفتہ ہو گئیں۔ جب عزیز مصر کی بیوی نے ان کی باتوں کو سنا تو اس نے ان عورتوں کو اپنے گھر مدعو کیا اور ان کے لیے مسند کو تیار کیا اور ان ہاتھوں میں پھلوں اور چھری کو تھما دیا۔ 
ان عورتوں نے اپنے ہاتھوں کوکاٹ لیا۔ یوسف علیہ السلام اس سارے منظر کو دیکھ اللہ سے دعا کی کہ مجھے ان عورتوں کے مکر سے نجات دلا کر جیل خانے پہنچا دے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کو قبول فرما کر آپ سے ان کے مکر کو رفع کر دیا۔جب آپؑ جیل خانے میں داخل ہوئے تو آپؑ کی دو قیدیوں سے ملاقا ت ہوئی جنہوں نے اپنے خوابوں کو آپ کے سامنے رکھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کے خوابوں کو سن کر انہیں یہ بات بتلائی کہ تم میں سے ایک شخص سولی پر چڑھ جائے گا اور ایک بادشاہ کا ساقی بن جائے گا۔ساقی بننے والے قیدی سے آپ نے کہا کہ بادشاہِ وقت سے میری بابت ذکر کرنا۔ قیدی آزاد ہونے کے بعد بادشاہِ وقت کا ساقی بن گیا لیکن وہ بادشاہِ وقت کے سامنے حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر کرنا بھول گیا۔ کئی برس گزرنے کے بعد بادشاہِ مصر کو خواب آیا کہ سات کمزور گائیں سات موٹی تازی گائیوں کو کھا رہی ہیں جب کہ سات سرسبز بالیاں جب کہ باقی خشک بالیاں ہیں۔ بادشاہِ وقت کے ساتھی کو فی الفور حضرت یوسف علیہ السلام کی یاد آئی۔ وہ یوسف ؑ کے پاس پہنچا تو انہوں نے یہ بات کہی کہ سات سال خوشحالی کے بعد سات سال عالمگیر قحط پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ خوشحالی کے سالوں میں اگر غلے کی تدوین کر لی جائے تو اس سے لوگوں کی غذائی ضروریات پوری ہو جائیں گی اور قحط سالی کے اثرات سے بچ جائیں گے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی تعبیر کو سننے کے بعد بادشاہِ مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے قریب کر لیا۔اس موقع پر حضرت یوسف علیہ السلام نے وزیر خزانہ کی ذمہ داریوں کو اختیار کرلیا۔ بعد ازاں آپؑ عزیز مصر بن گئے اور مصر کے انتظامی امور آپؑ کے ہاتھ میں آگئے۔ جب خوشحالی کے سالوں کے بعد عالمگیر قحط نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ تو جہاں پر دنیا کے دیگر مقامات کے لوگ اس کے زیر اثر آئے وہیں پر حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی بھی اس قحط کے اثرات کی زد میں آئے تو جب انہیں اس بات کی اطلاع ملی کہ مصر سے غلہ مل سکتا تو وہ بھی آپؑ سے غلے کے حصول کے لیے پہنچ گئے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائی ان کے پاس آئے تو انہوں نے ان کو پہچان لیا۔ ان کو باتوں باتوں میں ان کے خاندان کے بارے میں معلومات لی اور یہ بات کہی کہ اگلی مرتبہ جب تم آؤ تو اپنی چھوٹے بھائی کو بھی لے کر آنا۔جب حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی جانے لگے تو ان کی پونجی کو بھی ان کے سامان میں ڈال دیا گیا۔ جب وہ واپس پہنچے تو انہوں نے جناب یعقوب علیہ السلام کے سامنے عزیز مصر کی خواہش پر بھائی بنیامین کو بھی ساتھ لے جانے کا کہا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اس بات پر آمادہ نہ تھے لیکن جب سامان سے پونجی بھی برآمد ہو گئی تو حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت بنیامین کو ساتھ روانہ کرنے پر آمادہ وتیار ہو گئے۔حضرت بنیامین کو لے کر جب بھائی پہنچے اور غلے کو تولہ گیا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک تدبیر کے ذریعے بنیامین کو اپنے پاس روک لیا۔حضرت بنیامین کی بازیابی کے لیے بھائیوں نے التجائیں کیں لیکن حضرت یوسف علیہ السلام حضرت بنیامین کو ساتھ روانہ کرنے پر آمادہ نہ ہوئے ۔ جب قافلے والے حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس پہنچے اور ان کو اس بات کی اطلاع دی گئی کہ آپ کے بیٹے بنیامین کو چوری کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا تو حضرت یعقوب علیہ السلام اس بات پر انتہائی دل گرفتہ ہوئے اور آپ کی بینائی بھی آپ کے آنسوؤں کے ساتھ گل ہو گئی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے ایسے عالم میں اپنے بیٹوں کو اس بات کی نصیحت کی کہ جاؤ کہ جا کر بنیامین اور یوسف کو تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہونا۔ 
اب کی مرتبہ جب بعض بھائی گئے تو اس مرتبہ خریداری کے لیے ان کے پاس جمع پونجی موجود نہ تھی۔ انہوں نے بڑی دل گرفتگی سے عزیز مصر کے سامنے اس بات کا اظہار کیا کہ آپ سے ہم صدقہ لینے آئے ہیں اور آپ ہمیں صدقہ دیں ۔حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے لبوں سے جب الفاظ سنے تو آپ ؑ نے کہا میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر کرم کیا اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کو معاف بھی کردیا۔ آپؑ نے اپنی قمیض کو اتارا اورفرمایا کہ اس کو حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈال دیا جائے تو ان کی بینائی واپس آ جائے گی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے گھر میں موجود تھے۔ انہوں نے اپنے گھر موجود بیٹوں سے کہا کہ مجھے یوسف کی خوشبو آ رہی ہے تو بیٹوں نے بعض بے ادبی کے الفاظ کہے ۔ اسی اثناء میں جب باہر سے آنے والے بھائی جب گھر پہنچے اور قمیض پر آپ کو ڈالا گیا تو آپ کی بینائی واپس آ گئی۔ بیٹے شرمسار ہو ئے ۔ آپ نے ان کی خطا کو معاف کر دیا اور تمام اہل خانہ مصر روانہ ہوئے جہاں حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور آپ کے والدین اور بھائی آپ کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے۔ یوں حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب کی تعبیر مکمل ہو گئی ۔
اس واقعے سے سبق ملتا ہے کہ عروج وزوال اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور انسان کو ہر حال میں اسی کی ذات پر توکل اور بھروسہ کرنا چاہیے۔ اور کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved