تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     01-03-2018

آخری نشانی

علم و عمل کی تیغ اڑا لی گئی۔ مسلمان کے ہاتھ میں اب خالی نیام ہے۔ فرقہ واریت کے مارے ملّا کی کوشش کیا یہ ہے کہ ایمان کی آخری نشانی بھی رخصت ہو جائے ؟ دلوں اور روحوں کا گداز ! 
بموں کی بارش میں تین سالہ بچی پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ معصوم چہرے پر بہتے آنسوئوں کے درمیان بلکتے ہوئے اس نے کہا '' میں اللہ کو سب کچھ بتا دوں گی‘‘۔ 
اذیت اور ایسی اذیت۔ 56 اسلامی ممالک کے حکمران اور جنرل۔ ان کی بے حسی اور خاموشی پر اب کوئی تعجب نہیں ہوتا لیکن ملّا ؟ آدمی حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ وہ بے حس ہی نہیں اور پتھر دل ہی نہیں ، ان میں ایسے ہیں ، جن کا ارشاد یہ ہے کہ کم سنوں کے قتلِ عام پہ آزردہ ہونے سے پہلے خاندان کے فقہی مسلک کا تعین چاہئے۔ پھر ملحد ہیں ، امت کے تصور سے نا آشنا۔ رونے والوں کا وہ تمسخر اڑاتے ہیں۔ ٹھٹھاکرتے ہوئے، وہ یہ کہتے ہیں: یمن یا افغانستان کے لیے تم کیوں گریہ نہیں کرتے ؟ عجیب بات ہے ، عجیب بات ہے۔ کیا ایک دکھ یا مرگ پر رونے کا حق اس لیے نہ دیا جائے گا کہ کسی اور بستی میں کوئی اور دکھی ہے۔ کسی اور دیار میں کوئی اور جان ہار گیا ہے۔ 
غوطہ بلادِ شام کا ایک شہر ہے۔ امام حمویؒ نے اپنی کتاب ''معجم البلدان‘‘ میں اسے، روئے زمین کے چار خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک کہا تھا ، جنت ارضی۔ کبھی اس بستی میں پھول کھلتے تھے اور آنگنوں میں بچّے ہنستے تھے۔ خوفناک بمباریوں نے اسے کھنڈر بنا ڈالا ہے۔ اب وہاں صرف موت بٹتی ہے۔ وہ ہمیں تلقین کرتے ہیں کہ ہمیں اس پر رونا بھی نہیں چاہئے۔ 
اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا '' جب اہلِ شام خراب ہوں گے تو پھر تمہارے اندر کوئی بھلائی باقی نہ رہے گی‘‘۔ شام سے مراد بلادِ شام ہے ، جس میں بشار الاسد کی موجودہ سلطنت کے علاوہ ، اردن ، فلسطین اور لبنان شامل ہیں۔ مسند احمد کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں : رسول اللہؐ نے فرمایا ''اس دوران کہ میں سویا ہوا تھا ، میں نے دیکھا کہ کتاب کا عمود میرے سر کے نیچے سے کھینچ لیا گیا۔ پس مجھے یقین ہو گیا کہ اب یہ جانے والا ہے ، تو میری نگاہ نے اس کا پیچھا کیا اور وہ شام تک پہنچ گئی۔ خبردار، فتنوں کے وقت ایمان شام کی سرزمین میں ہو گا ‘‘۔ 
امام ابنِ تیمیہ ؒ کا کہنا یہ ہے : خلق و امر مبدا اور معاد(Alpha and Omega) مکّہ اور شام ہیں۔ اس دین اور دنیا کی ابتدا مکّہ سے ہوئی اور انتہا شام میں ہو گی کہ اسی سرزمین میں حضرت عیسیٰؑ کا نزول ہونے والا ہے۔ سنن ابی دائود کی ایک صحیح روایت میں ہے : رسول اللہ ؐ نے فرمایا ''تمہارے دینِ اسلام کا معاملہ یہ ہو گا کہ تم لشکروں کی صورت بٹ جائو گے۔ ایک لشکر شام میں ہو گا ، ایک عراق اور ایک یمن میں ہو گا۔ راوی ابنِ حوالہ نے کہا : اے اللہ کے رسولؐ اگر میں اس زمانے کو پا لوں تو مجھے اس بارے میں کوئی وصیت فرما دیں۔ آپؐ نے فرمایا ''شام کو پکڑ لے کیونکہ وہ اللہ کی زمینوں میں سے بہترین سرزمین ہے۔ اللہ کے بہترین بندے اس کی طرف کھنچے چلے جائیں گے۔ پس اگر تمہارا ذہن شامی لشکر کا ساتھ دینے پر مطمئن نہ ہو تو یمن کی طرف چلے جانا اور صرف اپنے گھاٹ سے پانی پینا۔ اللہ تعالیٰ نے میرا اکرام کرتے ہوئے اہلِ شام کی ذمہ داری لے لی ہے۔ ‘‘
سنن النسائی کی ایک صحیح روایت میں ہے '' میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ مجھے اٹھا لیا جائے گا اور تم میری اتباع کرو گے اور مختلف فرقوں میں تقسیم ہو کر کرو گے اور ایک دوسرے کی گردنیں مارو گے اور ان حالات میں اہلِ ایمان کا گھر شام ہو گا ‘‘
صحیح مسلم کی ایک روایت یہ ہے '' دجال میری امت میں چالیس تک رہے گا (راوی کہتے ہیں ، مجھے نہیں معلوم کہ چالیس سے مراد چالیس دن، چالیس مہینے یا چالیس سال ہیں) پھر اللہ عیسیٰ ابن مریمؑ کو بھیجیں گے اور وہ عروہ بن مسعودؓ سے مشابہ ہوں گے۔ پس وہ دجّال کو تلاش کریں گے اور اسے قتل کر دیں گے۔ پھر لوگ سات سال تک اس حال میں رہیں گے کہ دو آدمیوں کے درمیان دشمنی نہ ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف ایک ٹھنڈی ہوا بھیجیں گے اور دنیا میں کوئی بھی ایسا شخص باقی نہ رہے گا ، جس کے دل میں ذرّہ برابر بھی ایمان یا خیر ہو ، چاہے وہ پہاڑ کی کھوہ میں ہی داخل کیوں نہ ہو جائے، وہاں بھی ہوا گھس کر اس کی روح قبض کر لے گی۔ ‘‘
اس بچّی کی درد ناک چیخ پر ملّا ہمیں رونے کیوں نہیں دیتے ؟ شاید اس سوال کا جواب، لاہور میں سرخ رنگ کی ایک وسیع و عریض عمارت کی سیڑھیوں کے بائیں پہلو بنے ہوئے ایک مزار کی دیوار پہ لکھا ہے۔ 
بیا تا کارِ ایں امت بازیم 
قمارِ زندگی مردانہ بازیم 
چناں نالیم اندر مسجدِ شہر 
کہ دل درِ سینۂ ملّا گدازیم
آئو کہ اس امّت کے کام کو استوار کرنے کی کوشش کریں۔ زندگی کی بازی مردانہ وار کھیلیں۔ مسجدِ شہر میں اس طرح آہ و فغاں کریں کہ ملّا کے سینے میں دل گداز ہو جائے۔ 
ملّا کے بارے میں اقبالؔاس قدر مایوس تھے۔ کہا: 
وقت است کہ بکشایم میخانہ ٔرومی باز 
پیرانِ حرم دیدم در صحنِ کلیسا مست 
اب وہ وقت ہے کہ مولانا روم کے مے خانے کا دروازہ کھول دیا جائے۔ پیرانِ حرم کو میں نے صحنِ کلیسا میں مست دیکھا ہے۔ کوئی دن کی بات ہے کہ ایک محفل میں ایک ملّا کی آمد کا اعلان کیا گیا مگر اس طرح کہ جیسے کسی ظلِّ سبحانی کی آمد آمد ہو : با ادب ، با ملاحظہ، ہوشیار ، عالم پناہ تشریف لاتے ہیں۔ حیرت زدہ، مسافر نے اس کی طرف دیکھا اور دیکھتا رہ گیا۔ اس آدمی کے بارے میں تو یہ کہا گیا تھا کہ ایک صوبائی حکومت سے وہ ایک وزیر کے برابر مراعات لیتا رہا۔ اس کے بارے میں تو یہ کہا گیا تھا کہ برطانیہ کی خفیہ ایجنسی سے اس کے مراسم ہیں۔ یہ بتایا گیا تھا کہ ہر سال امریکہ کے دورے پر وہ جاتا ہے۔ دوسری مراعات کے علاوہ، انکل سام اس کی طبی ضرورتوں کا ذمہ دار بھی ہے۔ ممکن ہے ، اس میں کچھ مبالغہ ہو۔ ممکن ہے ، اہلِ حسد نے کوئی کہانی گھڑ لی ہو مگر وہ اتنا معتبر اور مقدس کیسے ہو گیا؟ اس کے کچھ جرائم تو اس کے پیکر ہی میں آشکار ہیں۔ کیا وہ ان میں سے نہیں ، جن کے بارے میں کہا گیا ۔
ز من بر صوفی و ملّا سلامی
کہ پیغامِ خدا گفتند ما را 
ولے تاویل شانِ در حیرت انداخت
خدا و جبرئیل و مصطفیؐ را
صوفی و ملّا کو میرا سلام پہنچے کہ اللہ کا پیغام انہوں نے مجھے کہہ سنایا۔ مگر ایسی اس کی تاویل کی کہ خدا، جبریل اور مصطفیﷺ بھی حیرت زدہ ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے : دل سخت ہو جاتے ہیں ، پتھروں سے بھی زیادہ سخت۔ پتھروں میں تو ایسے ہیں کہ ان میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں۔ اور فرمایا: آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں۔
علم و عمل کی تیغ اڑا لی گئی۔ مسلمان کے ہاتھ میں اب خالی نیام ہے۔ فرقہ واریت کے مارے ملّا کی کوشش کیا یہ ہے کہ ایمان کی آخری نشانی بھی رخصت ہو جائے ؟ دلوں اور روحوں کا گداز ! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved