تحریر : حسن نثار تاریخ اشاعت     17-03-2013

ہسٹری آف بلنڈرز، سرنڈرزاینڈ پلنڈرز

حسب وعدہ ایک بار پھر تقریباً پندرہ (15) سال پرانا کالم جو ایک بار پھر یہ ثابت کرتا ہے کہ اس ملک میں کسی بامعنی تبدیلی نے جنم نہیں لیا۔ کیا آئندہ بھی عوام انہی جونکوں ، مگرمچھوں اور سانپوں کو خود پر سوار کرلیں گے کہ اب تو سنپولیے بھی تیار ہیں۔ ’’پچاس سال سے لاوارث قوم شدید اذیت میں مبتلا ’’المدد المدد‘‘ پکاررہی ہے ، لیکن کوئی اس کی مددکو نہیں آرہا کیونکہ خدا بھی ان لوگوں کی مدد نہیں کرتا جو خود اپنی مدد آپ پر آمادہ نہ ہوں، سو ہمارے ساتھ جوکچھ ہورہا ہے …ٹھیک ہورہا ہے…آٹے کے توڑے، گھی کے ڈبے، چینی کے چند کلوز اور شاید چند ہزارروپے کے عوض اپنا ووٹ کسی ’’ہمایوں‘‘ کے پاس بیچ دینے والوں کا مستقبل بک جائے تو اسے بک ہی جانا چاہیے۔ جن کے گھوڑے ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں قیام پذیر ہوں، سیب کے مربے اور دودھ سے ان کی تواضع ہوتی ہو… بھوکے، ننگے اور صاف پانی تک سے محروم لوگ بھی جب ان جیسوں کو ووٹ دیں تو ان کے ساتھ جتنی بھی ہو، جیسی بھی ہو… کم ہے۔ بے نظیر دوبارہ اقتدار میں آئے تو اسے حق پہنچتا ہے کہ ان کے چولہے ہی نہیں، آنکھیں بھی بُجھا دے، ان کے پیٹ سے انتڑیاں نکال کر بھوک بھردے۔ مجھے کسی ایسے شخص کے ساتھ قطعاً کوئی ہمدردی یا دلچسپی نہیں، جس کے اپنے سرپر تو چھت نہیں لیکن وہ اس کے نعرے لگاتا پھرتا ہے، جس نے بینک لُوٹ لُوٹ کر ملک بھر میں اپنی صنعتوں کا جال پھیلا دیا۔ ’’خودکشی‘‘ پر تُلے ہوئے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا ہی بہتر ہے، جسے اپنی عزت کا احساس نہیں اس کی بے عزتی پر کُڑھنا بدترین حماقت ہے۔ ہماری تاریخ …’’بلنڈرز‘‘ …’’سرنڈرز‘‘ اور ’’ پلنڈرز‘‘ کی تاریخ ہے اور اس جرم بلکہ جرائم میں ’’حکام بالا‘‘ ہی نہیں ’’عوام پست‘‘ بھی برابر کے شریک ہیں۔ سوائے بھیانک غلطیوں، ہر محاذ پر شکستوں اور لُوٹ مار کے ہماری ’’داستانِ ہو شربا‘‘ میں رکھا ہی کیا ہے؟ اب بھی وقت ہے …عوام سنبھل جائیں کہ سیاسی و انتظامی حکام کو تو سمجھ نہیں آئے گی کیونکہ ان کے منہ کو ’’استحصال ‘‘ اور ’’ظلم ‘‘ کا خون لگ چکا ہے اور شاید انہیں اس ملک کے مستقبل سے بھی کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہے کیونکہ ان کا سب کچھ ’’بیرونِ ملک‘‘ ہے۔ جب تک گنگا بہتی رہے گی، احمد صادق جیسے کذّاب اور قزّاق، سلمان فاروقی جیسے فتنے اس میں ’’اشنان‘‘ کرتے رہیں گے… پھر یہ ایسے نکل جائیں گے جیسے کبھی آئے ہی نہ تھے۔ نگران برادران نے تو صرف چند شیطان پیش کیے ہیں جبکہ یہاں شیاطین کا ہجوم ہے، درندوں کا ایک غول ہے جو پُراسرار اور پُرہول طریقے سے پاکستان کا لہو نچوڑ رہا ہے۔ خدانخواستہ کچھ ہوگیا تو انہیں کچھ بھی نہیں ہوگا، لیکن ہم کہاں جائیں گے۔ لوگو! سوچو!!! ’’لانگ مارچ‘‘ کے جوکروں سے لے کر ’’تحریکِ نجات‘‘ کے پوکروں تک ایک سے بڑھ کر ایک بہروپیا اور سوانگیا تم نے کندھوں پر سوار کررکھا ہے، جو سوانگ رچا کر، مال بناکر چلتا بناتا کہ اسے ٹھکانے لگاکر واپس آسکے۔ پلنڈر سا پلنڈر!!! بانیِ پاکستان کی رحلت کے بعد ایک سے ایک ڈرامہ ہوا۔ کسی نے انتہائی طاقتور پڑوسی چھوڑ کر ہزاروں میل دور ’’بے وفادوست‘‘ ڈھونڈا اور اپنا معاشی نرخرہ اس کے ناخنوں کے سپرد کردیا۔ ایک ’’ڈپٹی سپیکر ‘‘ کی اتنی ’’خدمت‘‘ کی گئی کہ وہ دو کے بجائے چارکندھوں پر سوار ہوکر پار لگا۔ بلنڈر سا بلنڈر!!! اقتدار کا ہما اُڑتے اُڑتے تھک کر ایک سپہ سالار کے سر پر جابیٹھا جو اس ملک وقوم کے صدقے صدر اور فیلڈمارشل کہلایا مگر فیلڈ میں جیتی جنگ ٹیبل پر ہار گیا ۔ کوئی اسلام آباد میں براجمان انگور کے رس سے پیاس اور اقلیم اختر رانی سے بھوک مٹاتا رہا۔ مشرقی پاکستان میں دنیا کی ایک بہترین فوج سرنڈر کررہی تھی اور اندرا اتراتی پھرتی تھی کہ اس نے ’’دوقومی نظریہ‘‘ بحرِہند میں غرق کردیا، لیکن بے غیرتوں کو شرم نہ آئی ۔ تاشقند سے راز چرانے کے دعویدار سیاسی جیب کترے نے ’’ادھر ہم ادھر تم ‘‘ کے بعد ایسا وار کیا کہ ایک بازو ہی کاٹ ڈالا …سرنڈر سا سرنڈر !!! پھر یونیفارم اور اس کے اوپر شیروانی پہن کر ایک شخص ’’قومی اتحاد‘‘ کو دوام بخشنے آیا اور نوّے (90) دن کا نعرہ لگاکر صرف چارہزار ساٹھ دنوں تک مسلّط رہا۔ ریفرنڈم ’’جیت‘‘ کر امیرالمومنین بننے کا خواب دیکھا اور جاتے جاتے ایک عددلسانی تنظیم، ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کا عذاب دے گیا۔ بھارتی فوجیں ’’براس ٹاسک‘‘ کی آڑ میں ہماری سرحدوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے آرہی تھیں، جب وہ ’’جذبۂ خیرسگالی‘‘ کی تھالی اور منہ اُٹھا کر کرکٹ میچ دیکھنے بھارت یاترا پر روانہ ہوگیا، جسے بعد میں ’’کرکٹ ڈپلومیسی ‘‘ کا فریبی نام دیا گیا۔ اتنا عدیم الفرصت تھا کہ ٹی وی پروگرام مس نہ کرتا لیکن مزارِ قائد کے لیے کبھی وقت نہ نکال سکا۔ ’’لولی وڈ‘‘ کے ہیروز اس کی قربت کو ترستے جبکہ ’’ہالی وڈ‘‘ کاشتروگن سنہا ایوانِ صدر میں سرکاری مہمان ہوتا۔ ٹی وی انائونسرز کو تو دوپٹہ اوڑھنے کی سخت ہدایات تھیں لیکن عالمگیری مسجد کے سائے میں وہ منڈی آباد رہی جسے ہیرامنڈی کہتے ہیں۔ 79ء سے 85ء تک روزانہ پونے دو کی اوسط سے پھانسیاں دی گئیں۔ ضیا اس قدر پھیلی کہ لوگوں کی آنکھیں چُندھیا گئیں۔ قوم منتظر رہی کہ نفاذِ نظامِ مصطفی کا تحفہ کب ملتا ہے ؟ لیکن وہ قوم کو آدھا تیتر آدھا بٹیر تھما کر راکھ کا ڈھیر ہوگیا۔ پاکستان کی داستان کیا کہیں کہ خاندانوں کے خاندان اس کی ’’خدمت ‘‘ میں لگے اس کی گت بناتے رہے، کوئی پختونستان کا نعرہ لگاکر میدان میں کودا۔ روس، بھارت کو آقا مانتا رہا، بھارتی ایوارڈ سے نوازا اور ’’تھیلی‘‘ سے سجایا گیا، مرنے کے بعد ایک ’’محکوم ملک‘‘ میں مدفون ہونا پسند نہ کیا۔ کسی نے بغاوت کی اور پہاڑوں پر جاچڑھا ، کسی نے کنفیڈریشن قائم کرکے ’’ممتاز ‘‘ ہونا چاہا، کوئی ’’رتن ایوارڈ‘‘ یافتہ کہلاتا ہے اور کوئی اپنے ’’شہید پاپا‘‘ کا بدلہ لینے میدان میں یوں نکلا کہ لوگ توبہ استغفار کی جگہ ’’الذوالفقار ، الذوالفقار‘‘ کرنے لگے۔ کوئی قوم کے غم میں ’’جام ‘‘ چھلکاتا رہا۔ کسی کو ’’کنگری ہائوس‘‘ پر لگی دوربینوں کے ذریعہ ستاروں کی چال دیکھنے سے فرصت نہیں، ہر مارچ میں ڈبل مارچ کی پیش گوئیاں مارتا ہے، کبھی جھاڑو پھرتے دیکھتا ہے اور کبھی بڑے بوٹوں کی دھمک سے ڈراتا ہے، بلی چوہے کے درمیان ہونے والے کھیل کی نیوٹرل امپائرنگ کرتا ہے۔ کوئی دختر منافقت ، دختر مشرق بن کر بڑھتی ہے، 10نومبر 88ء لیاقت باغ میں وعدہ کرتی ہے ’’اقتدار میں آکر ہر مزدور اور چھوٹے سے چھوٹے ملازم کی تنخواہ کم ازکم ایک تولہ سونا کے برابر کردوں گی‘‘ اور وہ سونا…سونا یوریا نکلتا ہے۔ اسے چاند پر پاپا کی پی کیپ والی شبیہہ نظرآتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھے مہنگائی چاند تک پہنچ جاتی ہے۔ اسلام آباد میں سارک سربراہ کانفرنس ہوتی ہے، معزز مہمانوں کا استقبال کشمیریوں کی گرفتاری اور کشمیر ہائوس کے بورڈ ہٹا کر کیا جاتا ہے۔ پھر کوئی چوزہ، شیر کی وردی پہن کر پنجاب کی پگ کے داغ دھونے آتا ہے اور اس کا پھندا بنا کر قوم کے گلے میں فٹ کرنے کے بعد اپنا دھندا پھیلانے لگتا ہے۔ ’’اصلی شیرِ پنجاب‘‘ کے بعد قائداعظم ثانی کے خطاب پر مصر ہے، نام کی مناسبت سے حواریوں کو یوں نوازتا ہے، جیسے ذاتی فونڈری لوہا نہیں، سونا چاندی ڈھال رہی ہو۔ کوئی کروڑوں اربوں کے قرضے لے کر دادِ شجاعت دیتا ہے اور کوئی ایسا فرزندِ پاکستان نکلتا ہے کہ اپنی بھینس تو پالتا نہیں، کسی دوسرے کی نامحرم بھینس کو سوئٹزرلینڈ تک لے جاتا ہے۔ ایسا ’’گند زبان‘‘ جس کے بولنے پر دخترانِ پاکستان کئی بار بطور احتجاج جلسوں سے ’’واک آئوٹ ‘‘ بلکہ ’’رن آئوٹ‘‘ کرچکی ہیں۔ کوئی مجاہدوں کی فہرست اٹھا کر دکھاتا ہے کہ میرا نام سب سے اوپر ہے، ثبوت کے طورپر وہ تاریخی پتلون پیش کرتا ہے، جس میں سوراخ ہے (گولی کا) وہ بندوق جس سے ’’پہلی گولی‘‘ چلائی گئی تھی، کم وبیش درجن بھر شخصیات کو پیش کی جاچکی ہے۔ کیا کیا سنائوں ؟ کس کس کی سنو گے ؟؟؟ گزشتہ گیارہ سال سے اسلام آباد مرکز اور چاروں دوسرے سنٹروں سے بیک وقت سسپنس اور ایکشن سے بھرپور ’’ڈرامہ سیریل‘‘ چل رہی ہے، جس میں کئی بار اپنے ولن کا مسکن پریذیڈنٹ ہائوس اور پی ایم ہائوس ہوتا ہے۔ 8ویں ترمیم کی اوٹ سے سپر 58بی ٹو کا برسٹ مارا جاتا ہے تو کبھی ’’ہیرو‘‘ اور کبھی ’’ہیروئین‘‘ ڈھیر۔ اس بار صدر نے ’’راگ بلاول‘‘ چھیڑا اور محفل ہی لوٹ لی۔ قوم وقتی طورپر ’’بخت آور‘‘ نظر آتی ہے …لیکن افسوس اپنے ساتھ ہونے والی وارداتوں کو آن واحد میں بھول جاتی ہے ۔ بلنڈرز، پلنڈرز اور سرنڈرز کی ماری قوم سن لے …ایسا نہ ہو کہ ’’چیتا چالباز‘‘ اس مرتبہ ہڈیوں سے گودا تک کھرچ لے یا کوئی ’’چالاک لومڑی‘‘ بھٹ سے نکل کر جھٹ سے بے وقوف بناتے ہوئے ’’ہرن‘‘ کا دماغ چاٹ جائے اور پھر پوچھنے پر جواب دے، اگر ’’ہرن‘‘ کا دماغ ہوتا تو مجھے ووٹ دینے کے لیے پولنگ سٹیشن کا رخ ہی کیوں کرتا؟ وقت کم ہے …بلکہ ہے ہی نہیں۔ تاریخ سخاوت پر تلی ہے جو ہم جیسوں کو موقع پہ موقع دیئے جارہی ہے …اسے غنیمت جانو اور ملک کو مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹنے والوں سے جان چھڑالو کہ میں تو نہ باخبر، نہ دانشور نہ کالم گر… اس ملک کا منشی ، محررہوں اور پوری دیانتداری وغیرجانبداری سے اس کی ایف آئی آر لکھ رہا ہوں !!! بلنڈرز…سرنڈرز پلنڈرزکے بعد ایک آدھ ’’ونڈر‘‘بھی دکھا دو پاکستانیو!!!‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved