اگلے روز کراچی سے برادرم شاعر علی شاعر کا فون آیا کہ آپ کو رفیع الدین راز کا مجموعہ کلام بھیجا تھا‘ خیال تھا‘ آپ اس پر کچھ لکھیں گے۔ میں نے کہا راز صاحب کی شاعری نے مجھے کبھی متاثر نہیں کیا‘ اس لیے کتاب ایک طرف رکھ دی ہے‘ کبھی کتابوں کی باری آئی تو اسے بھی بھگتا دوں گا‘ تو وہ بولے‘ امریکہ میں تو انہوں نے مشاعروں میں دھوم مچا رکھی ہے۔ آپ اسے پڑھیے تو سہی۔ اگرچہ مشاعروں میں دھوم مچانا میرے نزدیک کوئی خاص کریڈٹ کی بات نہیں ہے‘ تاہم میں نے کتاب کھولی۔ سب سے پہلے فراست رضوی کے مقدمے میں سے ان کے چنیدہ اشعار دیکھے۔ لیکن مایوسی ہوئی۔ غزلیں شروع کیں تو قدم قدم پر فنی کوتاہیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سو اُنہی کا تذکرہ ہو گا‘ عیب جوئی کے لیے نہیں بلکہ اس لیے کہ موصوف میری ہی عمر کے بزرگ شاعر ہیں‘کم از کم آئندہ ہی ان باتوں کا خیال رکھیں گے۔
سب سے پہلے تو اُن مصرعوں کا ذکر کروں گا جو باقاعدہ خارج از وزن ہیں :
مجھ پر کرمِ خاص غمِ لا دوا کا تھا (صفحہ 80 مصرعہ نمبر 4 )
اس میں لفظ ''کرم‘‘ کو کرام پڑھا جائے تو وزن پورا ہوتا ہے۔
یہ معتقدِ عشق اسی در کے لوگ ہیں (صفحہ 126 مصرعہ نمبر 8 )
اس مصرعے میں لفظ ''معتقد‘‘ کو معتقاد پڑھیں تو وزن پورا ہوتا ہے۔
اُجڑا سا ایک گائوں جس کی راجدھانی ہے (صفحہ 159 مصرعہ نمبر 6 )
فقط گائوں کے بعد ''جس‘‘ نہیں آسکتا جس نے مصرعہ خارج از وزن کر دیا ہے۔
باتوں سے تیرگی کا ازالہ نہیں ہوتا (صفحہ 168 مصرعہ نمبر ایک)
دراصل یہ ساری غزل ہی بے وزنی کا شکار ہے کیونکہ آخری لفظ ''ہوتا‘‘خارج از وزن ہے کیونکہ مصرعے کا وزن ''ہوت‘‘ کے بعد ختم ہو جاتا ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ ہتا ہی پڑھا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ غزل 11 اشعار پر مشتمل ہے۔
پہلی غزل کے مطلع کا مصرع اوّل ہے ع
کوئی بھی سفر طے نہیں ہوتا بنا ٹھوکر
اس میں لفظ ''بنا‘‘ کی الف بُری طرح گرتی ہے
صفحہ نمبر 30 پر درج غزل کا آخری مصرع ہے ع
اشکِ خوں کیوں دیدۂ حیران میں موجود ہے
ترکیب بناتے وقت فارسی میں کلیہ یہ ہے کہ دوسرے لفظ کا آخری حرف اگر ''نون‘‘ ہو تو وہ ن غنہ میں تبدیل ہو جائے گا‘ یعنی دیدۂ حیراں ہونا چاہیے تھا۔
صفحہ 33 پر غزل کا تیسرا مصرع ہے ع
اُس کی نظر میں میںسدا دریوزہ گر رہا
اس میں بھی ''سدا‘‘ کی الف گرتی ہے یا گرتا ہے۔
صفحہ 52 کا دسواں مصرع ہے۔
خلائے بے کراں جیسے کسی مکاں میں ہے‘ بیکراں صحیح وزن میں نہیں آیا۔
صفحہ 59 کا پانچواں مصرع ہے ع
سانس در سانس رہے اس کی رفاقت میں ہم
یہاں ''سانس‘‘ جیسے ہندی لفظ سے فارسی ترکیب بنانا درست نہیں۔
صفحہ 69 کا پہلا مصرعہ ہے ع
اک گروہِ محتسب کی زد پہ تھا میرا وجود
یہاں لفظ ''محتسباں‘‘ ہی ہو سکتا تھا کیونکہ گروہ پر مشتمل افراد کیلئے صیغہ واحد غائب استعمال نہیں ہو سکتا۔ البتہ اکیلے گروہ کیلئے جائز ہے۔
صفحہ نمبر 80 پر تیسرا مصرع ہے ع
مجھ پر کرم ِخاص غمِ لادوا کا تھا
یہاں بھی لفظ کرم کو ''کرام‘‘ ہی پڑھیں تو وزن صحیح رہتا ہے
صفحہ 94 پر چھٹا مصرع ہے ع
ہزاروں قوم کو گمراہ کر چکا ہے وہ
یہاں ''قوم‘‘ کی بجائے ''قوموں‘‘ ہی درست ہوتا لیکن مصرعہ خارج از وزن ہو جاتا۔
صفحہ 103 کا تیسرا مصرع ہے ع
نہ خال و خد سے پژمردہ نہ حسنِ قد ہے کم میرا
یہاں خال وخد کے بعد ''ہیں‘‘ آنا چاہیے تھا کہ خال و خد صیغہ جمع میں ہے۔
صفحہ 104 کا تیسرا مصرع ہے ع
تعلق عقل اور دل دونوں سے ہیں خوشگوار اب تک
اس میں لفظ ''ہیں‘‘ کی بجائے ''ہے‘‘ آنا چاہیے تھا کہ تعلق صیغہ واحد میں ہے‘ جمع نہیں۔
صفحہ 106 پر 11 واں مصرع ہے ع
آنکھ در آنکھ فروزاں ہیں چراغ اشکوں کے
یہاں بھی ''آنکھ در آنکھ‘‘ غلط ہے‘ اس کی بجائے چشم در چشم بھی ہو سکتا تھا۔
صفحہ 120 کا تیسرا مصرع ہے ع
بہت ہی سہل و سادہ ہے زیست کی تفہیم
سہل و سادہ کا صحیح وزن ''سہلو سادہ‘‘ ہے‘ یہ نہیں۔
صفحہ 121 کا گیارہواں مصرع ہے ع
فریب کھانے پہ حیرانگی ہے کیوں اتنی
''حیرانگی‘‘ غلط ہے‘ حیرانی صحیح ہے۔
صفحہ 127 کا چھٹا مصرع ہے ع
بات سچ تھی یا محض وہ دعویٰ ٔآداب تھا
یہاں بھی لفظ ''محض‘‘ کو ''فقط‘‘ کے وزن پر باندھا گیا ہے جو درست نہیں۔صفحہ نمبر 135 کا چھٹا مصرع ہے ع
ہر دن نیا ہے چرخ‘ نئی خاک دان ہے
''خاکدان‘‘ صیغہ مذکر ہے‘ مونث نہیں
صفحہ 161 پر دوسرا مصرع ہے ع
دکھائیں کیا کسی کو دامنِ صدداغدار اپنا
یہاں ''دامنِ صداغدار‘‘ درست نہیں ہے کہ دامنِ صد داغ ہی کافی تھا
صفحہ 183 کا مصرعہ : ایک دن ہم کو شرفِ ہم کلامی کیا ملا‘ خارج از وزن ہے۔صفحہ نمبر 186 پر لفظ ''ہراساں‘‘ کو ''حراساں‘‘ باندھا گیا ہے جو درست نہیں ؎
خطا نمودہ ام و چشمِ آفریں دارم
آج کا مقطع
اس پر بکھیر دی ہے کوئی دھند بھی ‘ ظفر
تصویر میں عجیب جو منظر بنایا ہے