تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     02-03-2018

محکمہ اغوا برائے تاوان سے احتساب تک

ہم بچپن سے سن رہے ہیں کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند ہے تاہم اس دوستی کے نام پر ہماری حکومتیں چین کے ساتھ جس قسم کا کاروبار کرنے میں مصروف ہیں اس میں فی الحال تو کچھ پتا نہیں چل رہا کہ کیا ہو رہا ہے‘ کہ سب کچھ پوشیدہ ہے اور اس تمام کاروبار میں‘ جس میں خاص طور پر سی پیک والا معاملہ ہے‘ اس کے ٹی او آرز بارے صرف افواہیں ہیں‘ کنفرم طور پر کسی کو بھی معلوم نہیں کہ سارے معاملات میں قرض، اس پر واجب الادا سود، چین کو دی جانے والی رعایتیں اور دیگر مالی سہولتوں میں ہم نے کتنا نقصان کیا ہے۔ جو بھی سنی سنائی ہے اس سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کوہ ہمالیہ سے بلند دوستی کے ساتھ ساتھ ہم مستقبل میں جس گڑھے میں گرنے والے ہیں اس کی گہرائی دنیا کے سب سے گہرے مقام ''میریانا ٹرنچ‘‘ کے برابر ہے۔ کوہ ہمالیہ یعنی مائونٹ ایورسٹ کی اونچائی 8848 میٹر یعنی 29029 فٹ ہے جبکہ میریانا ٹرنچ کی گہرائی 10994 میٹر یعنی 36070 فٹ ہے۔ اس گہرائی میں مائونٹ ایورسٹ آسانی سے ڈوب سکتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ میری بات سچ ثابت ہو مگر آثار کچھ اچھے نہیں۔
بقول شاہ جی اگر سی پیک مکمل ہو گیا اور جو سنتے ہیں‘ چین کو اتنی کاروباری رعایتیں اور آسانیاں مل گئیں تو ہمارا سارا کاروبار اور صنعت ٹھپ ہو جائے گی۔ بازاروں میں فالودے سے لے کر دھنیا تک چین سے آئے گا۔ پاکستان کی ساری ٹیکسٹائل اور اس سے جڑی ہوئی انڈسٹری‘ جو پاکستان کے لئے زر مبادلہ کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے‘ بند ہو جائے گی۔ سبزی، پھل، کپڑا، مشینری، بجلی کا سامان، ٹائلیں‘ کنسٹرکشن میں استعمال ہونے والا اسی فیصد سامان، کراکری حتیٰ کہ آلات جراحی اور کھیلوں کا سامان تک چین سے آئے گا کہ ''بلک پروڈکشن‘‘ کے باعث ہماری انڈسٹری چین کا مقابلہ ہی نہیں کر پائے گی۔ میں نے پوچھا: شاہ جی! کیا ہم بالکل فارغ ہو جائیں گے؟ شاہ جی کہنے لگے: نہیں ہم سی پیک روٹ کے ساتھ پنکچروں کی دکانیں اور چائے کے کھوکھے چلائیں گے؛ تاہم ممکن ہے وہاں بھی ہم مالک نہ ہوں بلکہ ''چھوٹے‘‘ ہوں کہ شنید ہے‘ سی پیک روٹ کے ساتھ ساتھ چین کو انڈسٹریل زونز کیلئے زمینیں کوڑیوں کے بھائو دی جا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ شنید ہے اور سارے شکوک و شبہات اس لئے سینہ بہ سینہ چل رہے ہیں کہ حکومت نے کسی کو کچھ بتایا ہی نہیں کہ اس نے معاہدے کرتے ہوئے کیا کیا، خاص رعایتیں دے کر یہ ''عظیم کارنامہ‘‘ سرانجام دیا ہے۔
آج کل نیب کو بڑی ہوشیاری آئی ہوئی ہے۔ اس ہوشیاری سے سب سے زیادہ پریشان خود حکومت ہے‘ حالانکہ موجودہ چیئرمین نیب کا نام حکومت نے خاصی سوچ بچار اور مشورہ جات کے بعد فائنل کیا تھا۔ ان مشورہ جات میں ان کے معاون خصوصی جناب خورشید شاہ صاحب بھی تھے کہ چیئرمین نیب کا نام حکومت اور اپوزیشن لیڈر نے مل کر طے کرنا تھا‘ سو انہوں نے اپنی طرف سے بڑا سوچ کر فیصلہ کیا لیکن ''ہونی کو کون روک سکتا ہے؟‘‘ سو اب میاں صاحبان پریشان ہیں؛ تاہم خورشید شاہ صاحب اور ان کے آقائے ولی نعمت جناب آصف علی زرداری فی الحال صرف چسکے لے رہے ہیں‘ لیکن بقول شاہ جی یہ چسکے بھی زیادہ دیر چلنے کے نہیں۔
میاں صاحب نے جسٹس (ر) جاوید اقبال صاحب کی بطور چیئرمین ''کمیشن آف انکوائری آف انفورسڈ ڈس اپیئرنس‘‘ کارکردگی دیکھ کر انہیں نیب کا چیئرمین لگایا۔
وہ یہ قطعاً بھول گئے کہ اس کمیشن میں حالات اور ہیں اور وہاں ان کا دائرہ اختیار نہ صرف محدود بلکہ مجبورِ محض جیسا تھا‘ اور یہاں دائرۂ کار اتنا ہی ہے جتنا وہ استعمال کر رہے ہیں۔ حکومت کو گمان تھا کہ سارے چیئرمین قمر زمان جیسے چیئرمین ثابت ہوں گے اور نیب محض ایک ایسے ادارے کے طور پر کام کرتا رہے گا‘ جس کا کام صرف اور صرف پلی بارگین کرنا ہے۔ تب لطیفہ مشہور ہوا کہ تین لوگوں نے مل کر سرکاری محکمے میں غبن کیا اور جب رقم کی تقسیم کا وقت آیا تو اس گینگ کے سربراہ نے غبن شدہ رقم کے چار حصے کئے۔ باقی دو نے پوچھا کہ ہم تو تین لوگ ہیں‘ یہ چوتھا حصہ کس کا ہے؟ جہاندیدہ سربراہ کہنے لگا: نیب کو حصہ تمہارا باپ دے گا؟ حال یہ تھا کہ لوگ رشوت لیتے ہوئے، غبن کرتے ہوئے اور مالِ سرکار ہڑپ کرتے ہوئے یہ حساب لگانے لگ گئے تھے کہ اس سارے مال میں سے پلی بارگین کتنے فیصد بنے گا اور انہیں صافی آمدنی یعنی Net Income کتنی ہو گی۔
اب صورتحال مختلف ہو چکی ہے۔ اتنی مختلف کہ جو جو پکڑ میں آ رہا ہے‘ اس کی چیخیں اور کڑاکے نکلتے سب کو سنائی دے رہے ہیں۔ دوسری طرف شنید ہے کہ حکومت اپوزیشن کے ساتھ مل کر نیب کے ہاتھ باندھنے اور پر کاٹنے کی تیاری کر رہی ہے۔ فی الحال تو شاید یہ ممکن نہ ہو کہ ابھی ان سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے‘ لیکن 2018ء کے الیکشن کے بعد اگر موجودہ حکمرانوں کو یعنی ادھر پنجاب میں میاں صاحبان کو اور سندھ میں زرداری اینڈ کمپنی کو اقتدار مل گیا‘ تو وہ مرکز میں بھی مخلوط حکومت بنانے کی کوششں کریں گے۔ الیکشن کے بعد میاں شہباز شریف بھول جائیں گے کہ زرداری کرپٹ ہے اور زرداری بھی بھول جائیں گے کہ میاں نواز شریف اینڈ کمپنی لٹیروں کا ٹولہ ہے۔ انہیں ایک بار پھر میثاقِ جمہوریت یاد آ جائے گا اور یہ دونوں مل کر اپنی اپنی کرپشن پر پردہ ڈالنے کیلئے ایک دوسرے کے دست و بازو بن جائیں گے۔ ویسے ہی جیسے 2008ء کے الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی نے حکومت بناتے وقت مسلم لیگ ن کے چند لوگوں کو وزارت دے کر ''سیاسی وسیع القلبی‘‘ کا ثبوت دیا تھا۔ اس تھوڑے عرصے کی مخلوط حکومت میں مسلم لیگ ن کے ناراض رہنما چوہدری نثار علی خان سینئر وزیر تھے۔ ان کی اسی سینئر وزارت سے دلبرداشتہ ہو کر جاوید ہاشمی نے کوئی وزارت قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا؛ تاہم اس وقت ان کا موقف تھا کہ وہ جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں حلف نہیں اٹھانا چاہتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حقیقت کچھ اور تھی۔
اس کابینہ میں موجود وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی تجارت کے وزیر تھے۔ خواجہ سعد رفیق ثقافت اور امورِ نوجوانان کے وزیر تھے۔ احسن اقبال تعلیم اور اقلیتوں کی وزارتوں پر براجمان تھے اور چندے آفتاب چندے ماہتاب اسحاق ڈار صاحب فنانس، ریونیو، اکنامک افیئرز اور شماریات کے وزیر تھے۔ یعنی سارے کے سارے نورتن اس مخلوط حکومت میں شامل تھے۔ یہ معجزہ ایک بار پھر بھی رونما ہو سکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو ملکی عدلیہ اور احتساب کے ادارے پارلیمنٹ کے ذریعے ایسے نچوڑ دیئے جائیں گے کہ کسی قابل نہ رہیں گے۔ اس عدلیہ اور نیب کی خود مختاری نے پارلیمنٹ کی ''رٹ‘‘ کو چیلنج کر رکھا ہے۔ اگر عدلیہ کسی دبائو کے بغیر بلا تخصیص سب کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے پر آ جائے اور نیب کسی چھوٹے بڑے کی تمیز کئے بغیر سب کو احتساب کے دائرے میں لے آئے تو یہ پارلیمنٹ کے استحقاق کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے، سو پارلیمنٹ اس عدلیہ اور احتساب کے ادارے کو اس کی ''اوقات‘‘ میں لانے کیلئے بے چین ہے کہ ماضی میں ادارے صرف میرے جیسے لاوارث اور بے اوقات لوگوں کو سبق سکھانے پر مامور تھے‘ اب وہ اپنی اوقات سے باہر ہو رہے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ حکمرانوں نے جب جب خود کو محفوظ کرنے کیلئے اداروں کے پر کاٹنے کی کوششیں کی ہے وہ پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہوتے گئے ہیں۔ جب بھی حکمرانوں نے عوام کے بجائے خود کو بچانے کیلئے قانون سازی کی ہے وہ وقت سے پہلے قصۂ ماضی بن گئے ہیں۔ یہی حال اس وقت ہے۔ ملک کے سپریم ادارے کی دعویداری کرنے والا ادارہ، عوام کیلئے قانون سازی کرنے کے بجائے عدل و انصاف کے دروازے کا سائز اپنی مرضی کے مطابق کرنے میں مصروف ہے۔ کبھی وہ نااہل وزیر اعظم کو پارٹی صدارت کی اہلیت کا سرٹیفکیٹ عطا کرتا ہے اور کبھی اپنی مرضی کا احتساب اور عدل چاہتا ہے۔ ایسا احتساب جو پٹواریوں کی گردن پکڑے اور ایسا عدل جو شاہ رخ جتوئی جیسے طاقتور اور بااختیار لوگوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔
اس وقت حکمرانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی احتساب اور عدل ہے۔ احتساب کا محکمہ ''اغوا برائے تاوان‘‘ سے ہٹ کر احتساب پر اور عدلیہ سب کے ساتھ یکساں انصاف پر اتر آئی ہے۔ پاکستان میں لوگ کیا اس لئے اقتدار میں آتے ہیں کہ ان کا احتساب ہو اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے؟ ممکن ہے اس میں کچھ فیصلے ہماری مرضی کے مطابق نہ ہوئے ہوں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved