تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     02-03-2018

کہانی اگلے پچاس برس کی!

اگلے دن میں اور عامر متین یہ سوچ کر ڈپریس ہو رہے تھے کہ جس جمہوریت کے لیے ہم سب نے کچھ نہ کچھ کردار ادا کیا وہ کہاں جا پھنسی ہے کہ اب بدنامِ زمانہ جرائم پیشہ لوگ سینیٹرز بن رہے ہیں۔ کیا دنیا بھر میں معیاری لیڈرشپ ختم ہو رہی ہے؟ چلیں پاکستان کو چھوڑیں‘ امریکہ کو ہی دیکھ لیں۔ اگر امریکی ٹرمپ جیسے بندے کو کئی سو سال کی جمہوریت کے بعد اپنا صدر بنا سکتے ہیں تو پھر ہم تو کسی قطار میں ہی شمار نہیں ہوتے۔
تو کیا جمہوریت ناکام ہو رہی ہے؟ جعلی قسم کے لوگ اور لیڈر اب جمہوریت کے نام پر ہم پر مسلط ہوتے جا رہے ہیں؟ باقی چھوڑیں‘ اگر ہم آج جنرل مشرف کے دور کی اسمبلی اور آج کی اسمبلی میں موازنہ کریں تو یقین کریں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جنرل مشرف کی اسمبلی میں اپوزیشن‘ جس میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ بھی شامل تھیں‘ میں وہ پارلیمنٹیرینز شامل تھے جن کی تقریریں سننے کے لیے ہم سب جاتے تھے۔ چوہدری نثار علی خان، طاہرالقادری، بابر اعوان، محمود خان اچکزئی، رئوف مینگل، ثناء اللہ بلوچ، اعتزاز احسن، حافظ حسین احمد، لیاقت بلوچ اور خواجہ آصف بھی ان مقررین میں شمار ہوتے‘ جن کی تقریریں سنی جاتی تھیں۔ آج جب میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کا زوال دیکھتا ہوں تو پتا نہیں کیوں وہ پرانے دن یاد آتے ہیں‘ جب ہمارے دلوں میں ان سیاستدانوں کا ایک رومانس موجود تھا۔ ہمیں لگتا تھا ملک ایک فوجی آمر کے خلاف جدوجہد کر رہا ہے اور یہ سب لیڈرز ہمیں ایک اصلی اور نسلی جمہوریت کی طرف لے کر جائیں گے‘ ہماری زندگیاں بدل دیں گے۔ 
پتا نہیں مجھے کیوں محسوس ہو رہا ہے کہ ایسے لیڈرز صرف ایک فوجی آمر کے دور میں ہی اچھی تقریریں اور اچھی سیاست کر سکتے ہیں‘ جب خود ان کے ہاتھ اقتدار لگ جائے تو پھر یہ گر پڑتے ہیں۔ اپوزیشن کے دنوں میں ہم کتنے سیاستدانوں کی عزت کرتے تھے۔ اب اگر ایسا نہیں تو کیا اس میں ہمارا قصور ہے؟ کیا ٹی وی پر شو کرکے ہمارے دماغ کو مشہوری چڑھ گئی ہے کہ اب ہم بندے کو بندہ نہیں سمجھتے یا پھر ان سیاستدانوں کے ساتھ کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ ہم ان کی عزت کرنا چھوڑ چکے ہیں؟ سوچتا ہوں‘ جب ہم ان کی جنرل مشرف دور میں عزت کرتے تھے تو کیوں کرتے تھے؟ کیا ہمیں ان کی عزت کرنے کے پیسے ملتے تھے یا پھر کوئی فائدہ لینا ہوتا تھا؟ اگر اس وقت عزت کرتے تھے تو اب کیوں نہیں کرتے؟ میرے خیال میں عزت کا ایک ہی اصول ہے کہ یہ کمانا پڑتی ہے۔ کوئی بھیک میں عزت نہیں دیتا۔ اب ایسا کیا ہوگیا ہے کہ ہماری رائے ان کے بارے میں بدل گئی ہے؟ 
تو خرابی کس کے ساتھ ہے؟ ہمارے ساتھ یا پھر ان سیاستدانوں کے ساتھ جو اپنی عزت کھو بیٹھے ہیں؟ ان سیاستدانوں نے پیسے اور مال کو عزت پر ترجیح دی ہے؟ شاید سیاستدان یہ فرق نہ سمجھ سکیں کہ انہوں نے لوگوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ فوجی آمر کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو‘ وہ جمہوری حکمرانوں سے بہتر نہیں ہو سکتا۔ یہ وہ رومانس تھا جس کی وجہ سے ہم سب نے اپوزیشن کا ساتھ دیا اور ان سے محبت پیار کی پینگیں بڑھائیں‘ لیکن کیا ہوا؟ جونہی جنرل مشرف ہٹے اور سیاسی ادوار شروع ہوئے تو پھر ہر طرف لوٹ مچ گئی۔ وزیر اعظم تک نے بھی لوٹ مار میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ ایسی ایسی تقرریاں ہونے لگیں کہ بندہ منہ میں انگلیاں داب کر بیٹھ گیا۔ پارلیمنٹ میں ایک نیا کلچر شروع ہوا کہ آپ ہمیں کچھ نہیں کہیں گے‘ ہم آپ کو کچھ نہیں کہیں گے۔ ایک دوسرے کے سکینڈلز کو دبانے کا کام ہوا۔ اگر کسی نے کھڑے ہو کر حکومت پر تنقید کی تو انہوں نے جواباً طعنہ مارا کہ ہم نے غلط کیا تو تم نے کون سا اچھا کیا۔ پی پی پی دور میں گیلانی اور راجہ پرویز اشرف نے ایم این ایز کو کرپٹ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہر ایم این اے کو کروڑوں روپے دیے گئے۔ کچھ سمجھدار نکلے۔ انہوں نے ٹھیکے آگے ٹھیکیداروں کو بیچ کر ایک کروڑ پر بیس لاکھ کمیشن نقد لے لیا۔ پنجاب اور سندھ کے ایم این ایز اور سینیٹرز نے خیبر پختونخوا کے ٹھیکیداروں کو اپنے کروڑوں روپے کے فنڈز بیچے۔ ایسے ایسے نام سامنے آئے جن کی میں بہت عزت کرتا تھا‘ لیکن وہ بیس بیس لاکھ روپے میں اپنی عزت فروخت کرکے چلتے بنے۔ وہی‘ جو پہلے بڑی خوشی سے گھر بلاتے تھے، کھانے کھلاتے تھے‘ توقع رکھنے لگے کہ ان کی کرپشن کا دفاع کیا جائے۔ وہ جو لوٹ مار کر رہے ہیں‘ اس کا جواز پیش کیا جائے‘ ورنہ خاموش رہا جائے اور یوں دھیرے دھیرے سب سے رومانس ٹوٹنا شروع ہوا۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ سب دھوکا تھا‘ جمہوریت کی جدوجہد نہیں تھی۔ گیلانی اور راجہ پرویز کے دور میں تو چھٹی والے دن بھی بینک کھول کر اربوں روپے ایم این ایز کو دیے گئے۔ نواز شریف وزیراعظم بنے تو اپنے داماد کیپٹن صفدر کو بیس ارب روپے فنڈ کی رکھوالی پر بٹھا دیا کہ بانٹو ایم این ایز کو اور خود بھی اپنا حصہ لو۔ میں منہ کھولے سب کچھ دیکھتا رہا۔ وہی محمود اچکزئی‘ جس کی جنرل مشرف دور کی اسمبلی میں ہم سب سانس روک کر تقریریں سنتے تھے‘ اب اقتدار میں سب سے بڑا حصہ اپنے خاندان کے لیے لے کر نواز شریف کے قصیدے پڑھتے ہیں۔ یہ انجام ہوا ہے اس جمہوریت کا‘ جسے دس برس قبل جنرل مشرف کے نرغے سے نکالا گیا تھا۔ 
یہ زوال پیپلز پارٹی دور سے شروع ہوا جب کئی ریاستی ادارے ایک ایک کرکے کرپٹ اور تباہ ہونا شروع ہوئے۔ مجھے یاد ہے جب احمد مختار کے پاس پی آئی اے کا چارج تھا تو اس وقت نقصان تیس چالیس ارب تھا اور اب ان دس برسوں میں یہ نقصان پانچ سو ارب تک پہنچ گیا ہے۔ یہی کچھ ریلوے کے ساتھ ہو رہا تھا۔ غلام احمد بلور صاحب کو ریلوے دی گئی تو وہ اسے تباہ حالت میں چھوڑ کر گئے۔ سٹیل ملز‘ جو جنرل مشرف کے دور میں بارہ ارب پرافٹ پر چل رہی تھی‘ اب بند ہو چکی ہے۔ جمہوریت کا انتقام جاری تھا۔
ہمیں کہا گیا کہ اگر بینظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو شاید ملک کی تقدیر کچھ اور ہوتی۔ ہم نے اپنی امیدیں نواز شریف سے لگا لیں کہ شاید وہ کچھ سیکھ کر آئے ہوں گے۔ انہوں نے جو انتقام پارلیمنٹ سے لیا‘ شاید کسی نے لیا ہو گا۔ وہ ایک سال سینیٹ نہ گئے اور آٹھ ماہ تک پارلیمنٹ‘ اور چھ ماہ انہوں نے کابینہ کا اجلاس تک نہ بلایا‘ جبکہ بیرونِ ملک کے سو سے زائد دورے کر ڈالے۔ تیس سے زائد دورے لندن کے تھے‘ جہاں اپنے بچے اور کاروبار ہے۔ تین سو سے زائد دن وہ پاکستان سے باہر عوام کے خرچے پر رہے۔ رائے ونڈ کو وزیر اعظم کیمپ بنا دیا اور سب خرچے عوام کی جیب سے ہوئے۔ مری میں گورنر ہائوس کی آرائش پر پچاس کروڑ لگا دیے جہاں وہ خود خاندان کے ساتھ جا کر ٹھہرتے ہیں۔ اسی طرح وزیراعظم ہائوس میں ڈھائی کروڑ روپے کا باتھ روم بنوایا‘ چالیس چالیس گاڑیوں کے قافلے الگ۔ جو وزیر اعظم آٹھ آٹھ ماہ تک پارلیمنٹ نہ گیا‘ وہ اب کہتا ہے 'مجھے کیوں نکالا؟‘ اربوں کی بیرونِ ملک جائیدادیں نکل آئیں تو فرمایا: تمہیں کیا؟ اب سینیٹ میں ان چند لوگوں کو نواز شریف نے ٹکٹ دیا‘ جن کا بیک گرائونڈ مجرمانہ ہے۔ یہ تھا ہمارے ملک کا تیسری دفعہ بننے والا وزیراعظم جس سے ہم نے توقعات باندھ لی تھیں کہ چلیں بینظیر بھٹو نہیں رہیں‘ وہی کچھ کر گزریں گے۔ 
پھر ہم سب کی نظر عمران خان پر پڑی۔ ان کی سن لیں۔ اب جہاں سپریم کورٹ نواز لیگ کے لیڈروں کو کرپشن اور دیگر الزامات پر برطرف کرتی ہے تو وہیں عمران خان کی پارٹی کے جہانگیر ترین بھی برطرف ہوتے ہیں۔ جہاں نیب شہباز شریف کو بلاتی ہے تو وہیں علیم خان بھی پیش ہوتے ہیں۔ عمران خان سے زیادہ نان سیریس سیاست شاید ہی پاکستان میں کسی نے کی ہو۔ ہر اہم موقع پر ایسے ایسے بلنڈرز مارے کہ ان کے تمام سیاسی مخالفیں دوبارہ پائوں پر کھڑے ہوگئے۔ ان سے بھی امیدیں نہیں رہیں کہ تحریک انصاف اور دیگر میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔ 
میں نے عامر متین سے کہا: دکھ اس بات کا نہیں کہ یہ سب سیاسی ڈرامے نکلے اور ہماری نسلیں ان مداریوں کے ہاتھوں ماری گئی ہیں۔ دکھ یہ ہے کہ ہمیں اگلے پچاس سال تک بھی ایک ایسا سیاسی ایماندار اور قابل لیڈر نظر نہیں آرہا جسے دیکھ کر ہم سکون سے مر سکیں کہ وہ ہماری آئندہ نسلوں کا دھیان رکھے گا اور ان کے اعتماد کو دھوکا نہیں دے گا‘ اور نہ ہی ان کو لوٹے گا جیسے ہماری جیسی غلام روحوں اور اداس نسلوں کے خواب لوٹے گئے تھے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved