جنوب مغربی ایشیا میںجو انقلابی تبدیلیاں برپا ہو رہی ہیں‘ اس میں پاکستان کی جغرافیائی حیثیت انتہائی اہم کردار ادا کرے گی۔ یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اگر ہم امریکی دبائو میں آکر دو درجن کے قریب‘ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کی باہمی شراکت داری میں شامل نہ ہوئے تو پھر اپنے ہاتھوں سے شاندار موقع گنوا بیٹھیں گے۔ اس گروپ میں چین انتہائی اہم اور بنیادی رکن ہو گا۔ امریکہ اور اس کے حواری جو شرائط ہم پر عائد کر رہے ہیں‘ اگر ہمارے پالیسی ساز بروقت فائدہ نہیں اٹھا پائے تو ایک تاریک دنیا ہمارے سامنے ہو گی۔ بھارت پہلے سے سرمایہ داروں کے اس گروپ میں شامل ہو چکا ہے۔ سائنسی ترقی کے ''معجزوں‘‘ سے جو مواقع ہمیں دستیاب ہو سکتے ہیں‘ نہ صرف ان سے محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ آنے والے دنوں میں بھارت‘ عالمی تجارت کے اس بہت بڑے گروپ کا رکن بن جائے گا۔ چین ہمارا ساجھے دار ہو گا اور ہمارے مفادات کا تحفظ بھی کر سکے گا۔ ان دنوں پاکستان جس قیادت کے رحم و کرم پر ہے‘ اگر یہی کچھ جاری رہا تو آج کا پسماندہ افغانستان‘ ترقی کی دوڑ میں ہم سے آگے نکل سکتا ہے۔ قدرت نے جو عظیم الشان مواقع فراہم کر رکھے ہیں‘ ہم ان سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ مجھے ڈر ہے کہ نااہل قیادت نے پسماندگی کی طرف جو سفر شروع کر رکھا ہے‘ وہ ہمیں مزید پسماندگی کی طرف دھکیلتا جائے گا۔ زیر نظر مضمون میں دنیا کے جس عظیم الشان مستقبل کی راہیں ہمیں دکھائی دے رہی ہیں‘ پاکستان انہیں اختیار کر کے ترقی و خوشحالی کی طرف گامزن ہو سکتا ہے ۔
''چین‘ افغانستان کے جنگ زدہ علاقے میں تعمیر و ترقی کے جس طوفانی سفر کا آغاز کرنے جا رہا ہے‘ بلکہ کر چکا ہے، اس کی رفتار اور وسعتوں کا ہماری موجودہ سیاسی قیادت تصور بھی نہیں کر سکتی۔ ابھی تک ہم نے چین کی عملی دوستی کی محض ایک جھلک دیکھی ہے۔ اسے پہلے مرحلے میں جو نقصان اٹھانا پڑا‘ چین کے پالیسی سازوں کے لئے اچھا تجربہ نہیں۔ آنے والے دور میں چین جنگ زدہ افغانستان کے انفراسٹرکچر‘ جس کی تعمیر کا آغاز وہ کر چکا ہے‘ پر توجہ دے گا تاکہ وہ علاقائی معیشت کو توسیع دے سکے۔ چین کے پاکستان کے ساتھ معاشی تعلقات ایک ایسا ٹیکسٹ بک ماڈل پیش کرتے ہیں‘ جو چین دیگر ممالک سے چاہتا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان کل 523 کلو میٹر طویل سرحد ہے۔ یہ دشوار گزار پہاڑی علاقے میں سے گزرتی ہے۔ بعض مقامات سے سرحد غیر واضح تھی لیکن 1963ء میں دونوں ممالک نے مفاہمت کے ساتھ ''کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کے اصول کے تحت اس مسئلے کو حل کر لیا۔ اس کے بعد سے پاک چین دوستی سیاسی تبدیلیوں اور معروضی حالات سے ماورا رہی ہے۔ چین‘ پاکستان میں اقتصادی راہداری (سی پیک) میں 62 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ راہداری کا مطلب ٹریفک کی گزر گاہ ہے۔ چین اس کے ذریعے افغانستان کے ساتھ معاشی روابط قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ افغانستان ایک غریب اور جنگ زدہ ملک ہے‘ جسے سمندر کی سہولت حاصل نہیں۔ یہ سدا بہار خانہ جنگی کے لیے جانا جاتا ہے۔ درحقیقت اسے 1970ء کی دہائی سے اب تک امن نصیب نہیں ہوا۔ اسی سرزمین پر ماسکو اور واشنگٹن نے ایک دوسرے سے پنجہ آزمائی کی۔ افغانستان کبھی ایسا ملک نہیں رہا جہاں سرمایہ کار‘ اپنا روپے لگانا چاہیں۔ یہاں سرمایہ کاری جنوبی ایشیا میں سب سے غیر محفوظ ہے۔ چین کوئی معمولی سرمایہ کار نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین افغانستان کو نئی ہائی ویز اور ریل روڈ کی اہم گزر گاہ کے طور پر دیکھ رہا ہے جن کا دو طرفہ سلسلہ بہت دور تک پھیلا ہو گا۔ چینی کنٹریکٹرز سرحدوں کے آر پار سرمایہ کاری کا تجربہ اور مہارت رکھتے ہیں۔ وہ ''ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کے عظیم منصوبے کے تحت کئی افریقی ممالک میں تعمیرات کر رہے ہیں۔ ''ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کے حجم کا تخمینہ 900 بلین ڈالر ہے۔آسٹریلیا کی ڈیکن یونیورسٹی کے سٹریٹیجک سٹیڈیز کے پروفیسر سٹیورٹ کا کہنا ہے ''زیادہ تر ممالک کے برعکس چین‘ افغانستان میں عدم استحکام کو ایک سنہری موقع سمجھے گا‘‘۔
افغانستان میں فوری طور پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ بیجنگ کے خطے میں بھارت بھی افغانستان میں ہسپتال‘ ڈیم اور سڑکیں تعمیر کرنے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ ایشیا پیسفک سنٹر کے پروفیسر‘ موہن ملک کا کہنا ہے کہ افغانستان میں بھارت کی امداد کو تحسین کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ ایشیا کے دونوں ممالک‘ افغانستان میں اثر و رسوخ قائم کرنے کی دوڑ میں شریک ہیں۔ سائوتھ ایشیا پروگرام کے کو آرڈینیٹر‘ سمیر للوانی کا کہناہے کہ افغانستان میں اصل مسئلہ غربت یا پسماندگی نہیں بلکہ غیر ریاستی عناصر ہیں۔ وہ چین کے صوبے سنکیانگ میں حکومت مخالف انتہا پسندوں کی مدد کرتے ہوئے‘ چین کے لیے
پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ للوانی کا کہنا ہے ''چین جانتا ہے کہ افغانستان میں کان کنی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں۔ چین کو افغانستان میں مکمل امن سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی یہ اس کا ہدف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کی صورت میں اس کے ہاتھ زیادہ مواقع آئیں گے‘‘۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو وہ چاہے گا کہ افغانستان میں بھارت کے بجائے چین انفراسٹرکچر تعمیر کرے۔ چین کی افغانستان کے ساتھ دشوار گزار سرحدکی لمبائی صرف 76 کلو میٹر ہے لیکن پاک افغان بارڈر 4,250 کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ ایک طویل بارڈ ر کے آر پار ریلوے یا سڑک کی تعمیر ایک آسان معاملہ ہونا چاہیے۔ افغان سرزمین پر کھلنے والی تجارتی کھڑکی تیل سے لبریز‘ ایران اور وسطی ایشیا ئی ریاستوں کو جنوبی ایشیا سے متصل کر سکتی ہے۔ ترکی بھی اس گزر گاہ میں شامل ہو سکتا ہے۔ پروفیسرسٹیورٹ کا کہنا ہے ''طویل المدت منصوبہ بندی کے نقطۂ نظر سے‘ پاکستان اور افغانستان میں تجارتی گزرگاہ تعمیر کرنا‘ ایران کے ساتھ بھی تجارتی سہولت پیدا کر دے گا۔ اس کے بعد چین‘ ترکی کے ساتھ روابط قائم کرنے جا رہا ہے‘‘۔
پاک چین کوریڈور کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق‘ افغانستان بھی اس چینی انفراسٹرکچر پر مبنی وسیع علاقائی نیٹ ورک میں شامل ہو جائے گا۔ یہ کاریڈور ''نہ صرف چین اور پاکستان بلکہ ایران‘ افغانستان‘ بھارت‘ وسطی ایشیا اور پورے خطے کے لیے سود مند ہو گا‘‘۔ چین گزشتہ سال کے آخر میں‘ افغانستان اور پاکستان کو دوستانہ پیغام بھیج کر‘ ان کے مابین امن کے قیام کی کوشش میں مصروف تھا۔ فرم فائونڈیشن چائنہ پہلے ہی افغانستان میں ایک بڑا سرمایہ کار ہے۔ 2007ء میں چینی فرم نے افغانستان میں تانبے کی کان پر تین بلین ڈالر سرمایہ کاری کی۔ 2016ء میںدونوں ممالک نے ایک ریلوے لنک قائم کیا جس کے ذریعے مشرقی چین سے افغانستان کا سفر ممکن ہوا۔ اس کی وجہ سے چھ ماہ کا فاصلہ دو ہفتوں تک محدود ہو چکا ہے۔ یہ ریلوے لنک افغانی برآمدات کی چین میں ترسیل کو فروغ دے گا اور چین سے مزید سرمایہ کاری کو یہاں لانے میں مدد گار ہوگا۔ چینی کمپنیوں نے اس کے علاوہ ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ اور افغانستان میں ریلوے پراجیکٹ کی تعمیر میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ تجارت کی مشاورتی کمپنی کے کنسلٹنٹ مورس اینڈرسن کا کہنا ہے کہ چین تعمیراتی کاموں‘ بھاری امدادی پیکیجز اور فراخ دل سرمایہ کاری افغانستان میں فراہم کر رہا ہے تاکہ جنگ سے تباہ حال ملک میں استحکام آ سکے۔