تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     03-03-2018

ریکارڈ کی درستی‘ زبان و بیاں اور ضمیر غالب

یادش بخیر‘ رفیع الدین راز صاحب کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب کے حوالے سے لکھے گئے میرے کالم پر سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے اور ناشر کی سرزنش کی ہے کہ اس نے کتاب مجھے بھیجی ہی کیوں تھی‘ یعنی نیکی برباد‘ گناہ لازم۔ غلطیاں ہم سب کرتے ہیں اور اگر کوئی نشاندہی کرے تو اس کے شکرگزار ہوتے ہیں۔ میں یہ کام اس لیے بھی کرتا ہوں کہ ایک تو زبان کو برباد ہونے سے بچایا جائے اور دوسرے نئے اور نوعمر شعرا اس سے کچھ استفادہ کر لیں۔ ظاہر ہے کہ میں یہ کام نیکی کے طور پر کرتا ہوں‘ اور اگر اُنہیں میری یہ نیکی پسند نہیں آئی تو لیجئے‘ میں اسے دریا میں ڈال رہا ہوں۔ فکرمندی کی بات یہ ہے کہ ایک 80 سالہ سینئر شاعر اگر زبان‘ عروض اور املا کی غلطیوں کے انبار لگا دے تو شاعر کو بیشک نہ ہو‘ پڑھنے والوں کو فکرمندی ضرورہو گی۔ یاد رہے کہ میں نے موصوف کی شاعری کے بارے میں کوئی رائے نہیں دی‘ اور اگر ایسا کرتا تو وہ مزید ناراض ہوتے!
اِدھر آج برادرم ہارون الرشید نے اپنے کالم میں جو دو شعر نقل کئے ہیں‘ ان میں بھی کچھ اونچ نیچ ہے۔ ایک مصرعہ ہے ع
بیاتا کارِ ایں امت بازیم
اس میں آخری لفظ صحیح طور پر نہیں لایا گیا‘ کیونکہ موجودہ صورت میں مصرعہ بے وزن بھی ہے اور بے معنی بھی۔ اس کی صورت یوں ہو سکتی تھی ع
بیاتا کارِ ایں اُمت بسازیم
اس سے مصرعہ وزن میں بھی آ گیا اور معنی بھی دینے لگا ہے۔ جو دوسرا شعر نقل کیا ہے اس کا دوسرا مصرعہ اس طرح سے ہے ع
ولے تاویل شانِ در حیرت انداخت
یہاں گڑبڑ یہ ہوئی کہ ''شانِ‘‘ کے نیچے زیر آنے سے مصرعہ بے وزن بھی ہو گیا اور بے معنی بھی‘ چنانچہ اگر ''شان‘‘ کے نیچے سے زیر اور ن ہٹا کر پڑھا جائے تو مصرعہ رواں بھی ہو جائے گا اور با معنی بھی اور شانِ کا مطلب ہے اس کی شان اور اگر زیر اور ن کا نقطہ ہٹا کر پڑھا جائے تو مطلب ہو گا اُن کی تاویل جیسے میرا اور مجھے کے لیے مرا اور تیرا اور تجھے کے لیے ترا‘ اور اسی طرح ''اُن کا‘‘ کے لیے شاں۔
یہ بات اپنے طور پر باعث تشویش ہے کہ ملک عزیز میں فارسی کا چلن رفتہ رفتہ ختم ہوتا جا رہا ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم غالبؔ اور اقبالؔ سمیت فارسی گو اساتذہ کے کلام سے بے بہرہ رہ جائیں گے۔ فارسی کی گنجائش ہمارے ہاں اس لیے پیدا ہوئی کہ مغل بادشاہوں ہی کے زمانے سے یہ سرکاری زبان چلی آ رہی ہے‘ حتیٰ کہ رنجیت سنگھ کے زمانے تک بھی سرکاری زبان فارسی ہی تھی۔ لیکن فارسی کا کیا رونا۔ یہاں اُردو تک معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے کہ سرکاری زبان ہونے کے باوجود اس کا عملاً نفاذ تاحال تشنہ تکمیل ہے۔ بھارت میں بھی اُردو وہاں کی فلم انڈسٹری نے زندہ رکھی ہوئی ہے‘ اگرچہ اس کا نام بدل کر ہندی رکھ دیا گیا ہے اور سنسکرت کے الفاظ روز بروز اس میں شامل ہوتے جا رہے ہیں‘ اگرچہ بعض حلقوں کی طرف سے اسے مسلمانوں کی زبان کہہ کر رد کرنے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے۔
اور تو اور ہماری مادری زبان پنجابی بُرے حالات میں ہے‘ خاص طور پر اس کے اپنے صوبے میں یہ نہایت افسوسناک صورتحال سے دوچار ہے۔ دوسرے تینوں صوبوں میں پرائمری تک وہاں مادری زبان میں پڑھایا جاتا ہے لیکن یہاں حکومتیں تو اس کی ذمہ دار ہیں ہی‘ ہم خود اس کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں۔
اور‘ اب کچھ شاعری ہو جائے‘ شاعر ہیں ضمیرؔ طالب :
سڑک یہ دُور اک گائوں سے ہو کر
مرے دل تک چلی جاتی ہے آگے
مرے دُکھ میں رونے والوں نے ابھی
کرنی ہے شرکت کسی کی شادی میں
آپ ہیں تو نظر آتے بھی ہیں
ہم بھی ہوتے تو دکھائی دیتے
عجیب لوگ ہیں جس کو ہُنر جو آتا نہیں
یہاں وہ کام اُسی سے کرایا جاتا ہے
اُنہیں یہ غم نہیں بیمار کتنا ہوں
اُنہیں یہ فکر ہے میں ٹھیک کتنا ہوں
کرنا ہو جو گزارہ‘ سو راستے ہیں صاحب
کچھ ٹھیک ہوتا ہوں میں‘ کچھ تُو خراب ہو جا
بادشہ کی ہوس بتاتی ہے
اِس میں کوئی غریب رہتا ہے
بارش کے ساتھ آندھی بھی چلتی رہی ہے رات
کچھ اُڑ گیا ہوں میں‘ کہیں کچھ بہہ گیا ہوں میں
کھُل کے ہنس بھی نہیں سکتا‘ خوشی ایسی ہے کوئی
غم بھی ایسا ہے کہ رونے نہیں دیتا مجھ کو
نظر قریب کی کرتی نہیں ہے کام ضمیرؔ
دماغ دُور تلک سوچنے سے عاری ہے
میں وہ سُکوت ہوں جو تیرے کام کا نہیں 
تُو ایسا شور ہے جو میں مچا نہیں سکتا
جسے رکھّا نہیں میں نے بچا کر
وہی دولت مرے کام آ رہی ہے
وہ آنکھ جھپکے تو آرام کر لوں میں بھی ضمیرؔ 
کہ تھک چُکا ہوں اُسے میں دکھائی دیتے ہوئے
مزے کی بات ہے یہ‘ میں کسی طرف بھی نہیں
دل و دماغ میں جو ایک جنگ جاری ہے
وہ جو نفرت سے میرا حال کیا کرتا تھا
اب وہی کام کیا کرتا ہے وہ پیار کے ساتھ
...............
آج کا مطلع
دل کے اندر جی سکتی ہے‘ مر سکتی ہے
خواہش خود مختار ہے ‘ کچھ بھی کر سکتی ہے

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved