تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     03-03-2018

تبدیلی کو نعمت جانیے

ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہ ہر آن تبدیل ہو رہی ہے اور ہم خود بھی پل پل بدلتے جارہے ہیں۔ کہنے کو چار موسم ہوتے ہیں مگر درحقیقت موسم پانچ ہیں۔ پانچواں موسم تبدیلی کا ہے جو سال بھر چلتا رہتا ہے۔ دن کا ختم ہونا اور رات کا آنا اور پھر دوبارہ دن کا آنا کیا ہے؟ یہ تبدیلی ہی تو ہے جو یومیہ بنیاد پر رونما ہو رہی ہے اور ہماری زندگی میں بھی تبدیلیوں کی راہ ہموار کرتی جارہی ہے۔ 
کیا تبدیلی ناگزیر ہے؟ یقیناً کیونکہ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، ہمارے ارد گرد سب کچھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ وقت گزرتا ہی جارہا ہے۔ ہم ہر روز بڑھاپے کی طرف بڑھ رہے ہیں یعنی جو کچھ ہم کل تھے وہ آج نہیں اور جو کچھ آج ہیں وہ کل نہ ہوں گے۔ اسی کا نام تبدیلی ہے۔ مگر خیر یہ قدرتی طور پر یعنی اپنے آپ رونما ہونے والی تبدیلی ہے۔ جو کچھ قدرت کے ہاتھوں ہو رہا ہے وہ ہماری زندگی پر اثر انداز تو ہوتا ہے مگر زیادہ معنی خیز تبدیلی پیدا نہیں کرتا۔ معنی خیز تبدیلی اُسی وقت رونما ہوسکتی ہے جب ہم طے کرلیں کہ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا ساتھ دینا ہے اور اُن سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے خود بھی بہت حد تک تبدیل ہو جانا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو تبدیلی ہمارے لیے لازم بھی ہے اور سود مند بھی۔ تبدیلی آخر کیوں مستقل عمل نہ ہو جبکہ پوری کائنات ہی تبدیلی کے عمل سے گزرتی آئی ہے اور گزر رہی ہے؟ پل پل بدلتے رہنا ہی کائنات کی فطرت ہے اور یہی فطرت اُن تمام جانداروں اور بے جان اشیاء کو بھی ملی ہے جو اس کائنات کا حصہ ہیں۔ 
ہمارے ماحول میں تبدیلیاں ہر دور کی سب سے نمایاں خصوصیت رہی ہیں۔ جب فطری علوم و فنون نے غیر معمولی رفتار سے ترقی نہیں کی تھی تب بھی دنیا تبدیل ہوتی رہتی تھی۔ ہاں، تب تبدیلی خاصی سست رفتار ہوا کرتی تھی۔ کسی بھی شعبے میں برسوں محنت کی جاتی تھی تب کہیں جاکر تحقیق کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے آتا تھا اور لوگوں کو اپنی زندگی میں کسی بڑی مثبت تبدیلی کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دیتی تھی۔ کوئی بھی انوکھی اور کام کی چیز ایجاد کرنے والوں کو رات دن ایک کرتے ہوئے کام کرنا پڑتا تھا۔ 
تبدیلی کا عمل چونکہ خاصا سست رفتار ہوتا تھا اس لیے ایک سے مناظر برسوں دکھائی دیتے رہتے تھے۔ کوئی بھی معاملہ راتوں رات کچھ کا کچھ نہیں ہو جاتا تھا۔ اُس دور میں یا اُن ادوار میں انسان تبدیلی کے عمل سے پُرسکون انداز سے گزرتا تھا۔ تبدیلی اِتنے پرسکون اور متوازن انداز سے آتی تھی کہ اُس کی زد میں آنے والوں کی زندگی میں کوئی ہنگامہ برپا نہیں ہوتا تھا اور معاملات الجھ کر نہیں رہ جاتے تھے۔ سبھی اِس بات کو جانتے تھے کہ کوئی بھی تبدیلی راتوں رات رونما نہیں ہوگی یعنی بہت کچھ داؤ پر نہیں لگے گا۔ زندگی کی رفتار کچھ خاص تبدیل نہیں ہوتی تھی اور زندگی میں تھوڑی بہت تبدیلی بھی رونما ہو جاتی تھی۔ اگر بہت کچھ داؤ پر نہ لگ رہا ہو تو لوگ تبدیلی کو آسانی اور اطمینان سے قبول کرلیا کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ پرانے زمانوں میں لوگ تبدیلی کو بخوشی قبول کرلیا کرتے تھے۔ اگر تبدیلی سست رفتار ہو تو محسوسات میں زیادہ اکھاڑ پچھاڑ واقع نہیں ہوتی۔ کسی فلم میں اچانک کوئی منظر بدلتا ہے اور کہانی ایک عجیب، ڈرامائی موڑ لیتی ہے تب ہم چونک پڑتے ہیں۔ عملی یعنی اصل زندگی میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ 
ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں ہر طرف، ہر معاملے میں تبدیلی ہی تبدیلی ہے۔ بہت کچھ ہے جو بہت تیزی سے کچھ کا کچھ ہوتا جارہا ہے۔ گزرے ہوئے ادوار میں جب کوئی تبدیلی رونما ہوتی تھی تو پچھلی چیزیں موجود رہتی تھیں اور ان سے کام لینے کا عمل بھی جاری رہتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ بہت سی چیزیں ہماری زندگی میں اس طور در آئی ہیں کہ اب ان کے مقابلے کی بہت سی چیزیں اپنی افادیت اور معنویت کھو بیٹھی ہیں۔ دور کیوں جائیے، وژیوئل ٹیکنالوجی ہی کی مثال لیجیے۔ کل تک فلموں کے رول ہوا کرتے تھے۔ یہ رول سنیما ہال میں پروجیکٹر پر چڑھاکر فلم دکھائی جاتی تھی۔ اب ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مہربانی سے فلموں کے رول غائب ہوچکے ہیں اور ان کی ذرا بھی افادیت باقی نہیں رہی۔ کل تک وڈیو کیسٹ ریکارڈر اور وڈیو کیسٹ پلیئر بہت مقبول تھے۔ اب سب کچھ کمپیوٹرائزڈ ہوچکا ہے اس لیے وی سی آر اور وی سی پی کی ٹکے کی بھی قدر باقی نہیں رہی۔ یہ دونوں چیزیں اب صرف اس حد تک کارآمد ہیں کہ کسی پرانی کیسٹ پر موجود بصری مواد کو ڈیجیٹائز کرنے کے لیے بروئے کار لایا جائے۔ اب آڈیو کا ہر آئٹم ایک الگ فائل میں محفوظ ہوتا ہے اس لیے آڈیو کیسٹ کی چنداں ضرورت نہیں رہی یعنی افادیت صفر کے مساوی رہ گئی ہے۔ کل تک وڈیو اور آڈیو کیسٹ کا دھندا ٹاپ پر تھا۔ لوگ پسند کے گانے ریکارڈ کرواتے تھے۔ وڈیو اور آڈیو کیسٹ اب تول کے حساب سے فروخت ہوتی ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اب تو کامپیکٹ ڈسک یعنی سی ڈی کی بھی ضرورت زیادہ نہیں رہی۔ جن کے پاس سیکڑوں یا ہزاروں سی ڈیز تھیں اُنہیں وہ سی ڈیز کباڑیوں کو بیچنا پڑیں۔ 
ہمیں ہر آن تبدیلی کے لیے تیار رہنا ہے۔ ایک طرف تو ماحول تبدیل ہو رہا ہے اور دوسری طرف اِس کے مقابلے میں ہمیں بھی تبدیل ہونا ہے۔ ہمیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ پڑھنا ہے، مطالعہ کرنا ہے اور اپنی مہارت میں اضافہ کرتے رہنا ہے۔ جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ دوسروں سے پیچھے نہ رہ جائیں تو لازم ہے کہ اپنے آپ کو تبدیلی کے لیے تیار کرتے رہیں۔ 
کوئی بھی تبدیلی ہماری زندگی میں کچھ نہ کچھ معنویت ضرور پیدا کرتی ہے۔ اگر تبدیلی نہ ہو تو یہ دنیا یکسانیت کا زہر پی کر مر جائے۔ یکسانیت کے عذاب سے ہمیں بچانے میں کلیدی کردار تبدیلی ادا کرتی ہے۔ تبدیلیوں سے گزر کر دنیا مزید رنگین اور بامقصد ہوتی جاتی ہے۔ جب بھی کچھ نیا ہوتا ہے تب زندگی کے خاکے میں نیا رنگ بھر جاتا ہے یا پھر پہلے سے موجود رنگوں میں کچھ تازگی سی پیدا ہو جاتی ہے۔ 
تبدیلی کا عمل ہمارے لیے نعمت سے کم نہیں۔ جب ہم کچھ نیا کرتے ہیں تو ہم میں تھوڑا بہت جوش و جذبہ ضرور پیدا ہوتا ہے اور یوں ہم اپنی زندگی میں معنویت اور مقصدیت کا گراف کچھ بلند کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جب ہم اپنے آپ کو بدلنے پر آمادہ ہوتے ہیں تو دراصل اپنے پورے ماحول کو تبدیل کرنے کا ارادہ کرتے ہیں۔ ہماری تبدیلی ہی ماحول کی تبدیلی ہے۔ کوئی بھی انسان جب اپنے وجود کو تبدیل کرتا ہے تو دراصل وہ پورے ماحول پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ اِس دنیا کی معنویت اِسی سے بڑھتی ہے۔ تبدیلی کو نعمت گرداننا چاہیے۔ ہر تبدیلی کے بطن سے کوئی نہ کوئی کام کی بات ضرور برآمد ہوتی ہے۔ 
تبدیلی کو ایک فطری اور منطقی عمل کی حیثیت سے قبول کرنے سے انکار کرنے والوں کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔ دیکھا گیا ہے کہ بہت سے لوگ کسی بھی بڑی یا بہت سی چھوٹی تبدیلیوں سے متاثر ہونے پر واویلا شروع کردیتے ہیں۔ انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بھی تبدیلی اگر قابو میں نہ آئی تو ان کی زندگی کو تہس نہس کردے گی۔ یہ سوچ بے بنیاد ہے۔ ہر تبدیلی چند ایک مثبت اثرات بھی ضرور ساتھ لاتی ہے۔ جنہیں کچھ سیکھنا اور دنیا کو سکھانا ہوتا ہے وہ ہر بڑی اور قابل ذکر تبدیلی سے کوئی نہ کوئی سبق ضرور سیکھتے ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved