پاکستان کا فوجی آمر‘ افغان جنگ میں اپنی خواہشِ اقتدار کو پورا کرنے کے لئے کودا اور حسرتوں کی راکھ میں بھسم ہو کر چلا گیا۔ آج صرف دو ملک اس بیرونی جنگ میں بری طرح پھنسے ہیں۔ نکلنے کی راہ نہیں مل رہی۔ سوویت یونین سے بدلہ لینے کے لئے امریکی حکمرانوں نے ہمیں افغان جنگ میں دھکیلا۔ ابھی تک نکلنے کا راستہ نہیں ڈھونڈ سکے۔ ہمارے ایک ڈکٹیٹر جو روس کو سبق سکھانے کے لئے افغان میدان جنگ میں کود پڑے تھے‘ خود تو آسمانوں میں پتا نہیں کہاں ہیں؟ لیکن ہم آج بھی افغانستان میں ہیں۔ ہمارے لیڈر دعوے تو یہی کرتے ہیں کہ ہم افغانستان سے نکلنے کو تیار ہیں لیکن امریکہ نہیں مانتا۔ امریکہ ابھی تک اسی مخمصے میں الجھا ہوا ہے کہ افغانستان سے کیسے نکلے؟ امریکہ کے نکلنے کا راستہ تو چین بنا رہا ہے۔ ہمارے نکلنے کا راستہ کون بنائے گا؟ اور کیسے؟ ''واشنگٹن پوسٹ‘‘سے رچرڈ کوہن کے ایک دلچسپ مضمون کا ترجمہ پیش کر رہا ہوں۔ ملا حظہ فرمائیے۔
''2010ء میںسابق سفارت کار‘ رچرڈ ہالبروک نے سیکرٹری سٹیٹ ہیلری کلنٹن کو افغان جنگ کے بارے میں ایک خفیہ میمو لکھا۔ اس کا عنوان تھا ''یہ جنگ کیسے ختم ہو گی؟ جنگ کے خاتمے کے لیے کسی پالیسی کی تلاش‘‘۔ رچرڈ ہالبروک کا اُسی برس انتقال ہو گیا۔ 2013ء میں ہیلری کلنٹن بھی عہدے سے فارغ ہو گئیں۔ اس کے بعد انتظامی امور ٹرمپ ٹیم کے ہاتھ میں آ گئے۔ اب یہ ٹیم اُسی پالیسی کے تسلسل کے لیے پرعزم ہے جو بار بار ناکام ہو چکی ہے۔ افغان جنگ اپنے 16ویں برس میں ہے لیکن رچرڈ ہالبروک کے سوال کا کسی کے پاس جواب نہیں۔ یہ کہا جا سکتاہے کہ کوئی ایسی پالیسی وضع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے شکست سے بچنے کا تاثر دیا جا سکے۔ اگر شکست سے بچنا ہی مقصود ہے تو اتنی بڑی تعداد میں جانیں دینے کا کیا فائدہ؟ کوئی بھی یہ بات نہیں کر رہا۔ امریکی نائب صدر پینس نے دسمبر میں کابل کے دورے کے موقع پر صدر ٹرمپ کی طرف سے کہا تھا کہ ''ہم یہاں جنگ جیتنے کے لیے ہیں‘‘۔ ایسا لگتا ہے کہ کابل کی فضا میں قدم رکھتے ہی امریکی سیاست دان‘ شجاعت کے جوش سے سرشار ہو جاتے ہیں۔ اُن کا طیارہ یہاں اترتا ہے‘ وہ ایک ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر ایک دو مقامات کے چکرلگاتے ہیں پھر یہ اعلان کرتے ہوئے کہ امریکہ یہاں اپنا مقصد پورا ہونے تک موجود رہے گا‘ طیارے میں بیٹھ کر وطن کی راہ لیتے ہیں۔ حتیٰ کہ بارک اوباما‘ جنہوں نے افغان جنگ ختم کرنے کا نعرہ لگا کر اقتدار سنبھالا تھا‘ بھی اس عزم کا اعادہ کرتے دکھائی دیئے کہ اُس وقت تک افغانستان کے ساتھ کھڑے رہیں گے جب تک یہ جنگ زدہ ملک اپنے پائوں پرکھڑا نہیں ہو جاتا۔ ہم ابھی تک اس وقت کے منتظر ہیں۔
مشکلات‘ چیلنجز‘ الجھنیں اور جنگ شروع کرنے اور اسے جاری رکھنے کی حماقتیں‘ سب کچھ اپنی جگہ موجود ہیں۔ کوئی فرق نہیں پڑا۔ پہلا ارادہ القاعدہ کو نائن الیون حملوں کا سبق سکھانا تھا۔ اس کے بعد طالبان سے نمٹنا ضروری ہو گیا کیونکہ طالبان نے اسامہ بن لادن اور اُس کی دہشت گرد تنظیم کی میزبانی کی تھی۔ سٹیو کول کی اس موضوع پر لکھی گئی نئی کتاب کا عنوان ''Directorate S‘‘ ہے۔افغان جنگ کا احاطہ کرنے والی یہ کتاب بہت اہمیت کی حامل ہے ۔کتاب کے مطابق Directorate S پاکستانی فوج کی انٹیلی جنس سروس کے ایک خفیہ یونٹ کا نام ہے۔ پاکستان کی دلچسپی اس بات میں ہے کہ افغان جنگ جاری رہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان کے حوالے سے کچھ اقدامات ضرور کئے ہیں۔ اس نے حال ہی میں پاکستان کی امداد معطل کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اس لیے کمک فراہم نہیں کی جا سکتی کیونکہ وہ افغان طالبان کو پناہ دے رہا ہے۔ افغان طالبان امریکی فورسز پر حملے کرتے اور اُنہیں جانی نقصان پہنچاتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ کوئی چھیڑ خانی نہیں کی جا سکتی کیونکہ وہ ایک ایٹمی طاقت ہے؛ تاہم سٹیو کول کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ سخت برتائو کرنا ضروری ہو چکا ہے۔ موجودہ امریکی صدر انتخابات سے پہلے افغانستان کو ایک اذیت سمجھتے تھے۔ ٹرمپ نے 2012ء میں کہا تھا ''افغان جنگ بالکل بے کار ہے۔ وہاں سے نکلنے کا وقت آچکا ہے‘‘۔ جب وہ انتخابات جیت گئے تو ایسے افراد کے نرغے میں آ گئے جو اُن کے جنرل کہلاتے ہیں۔ زیادہ تر نے عملی طور پر افغان جنگ میں حصہ لیا تھا۔ کوئی بھی افغانستان سے نکلنے کی رائے نہیں رکھتا ۔ ان میں سے چند ایک کے قریبی رفقا کی ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ وہ وہاں ٹھہرنا اور افغان حکومت کو جیتنے کا موقع دینا چاہتے ہیں۔ اگرچہ اس مسئلے پر بہت زیادہ اتفاق نہیں پایا جاتا لیکن ایک بات سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ اگر امریکہ‘ افغانستان سے مکمل انخلا کر لیتا ہے تو طالبان جیت جائیں گے۔
کوئی نہیں چاہتا کہ 16 برس تک لڑی جانے والی جنگ اس انجام سے دوچار ہو لیکن اگر ایسا ہوا تو کوئی نئی بات نہیں ہوگی۔ اس سے پہلے امریکہ1975 ء میں ویتنام سے نکل چکا ہے۔ اُس انخلا کا ویتنام میں‘ امریکہ کے حامیوں کو خوفناک خمیازہ بھگتنا پڑا تھا۔ اسی طرح امریکہ نے 1972ء کے معاہدے کے بعد عراق سے انخلا کر لیا۔ ہمسایہ ملک ایران کے حکمران‘ شاہ ایران نے عراق میں دخل اندازی بندکرنے کا فیصلہ کیا۔ شاہ ایران نے کردوں کا ساتھ چھوڑ دیا اور امریکہ سے بھی یہی کچھ کرنے کو کہا۔ ہم نے شاہ کی بات مان لی۔
سٹیو کول کی کتاب پڑھنے کے لائق ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ اس کے ہر دوسرے صفحے پر ایک نیا سانحہ‘ کوئی جھوٹ اور کوئی ناقابلِ تصور غلطی قارئین کی منتظر ہوتی ہے۔ پہلے تو امریکہ میں اس بات پر سوچنے کی زحمت نہیں کی جاتی تھی کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ پاکستان لشکر طیبہ‘ جس پر ممبئی حملوں کا الزام ہے‘ کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتا؟ امریکہ اور دنیا کے لیے یہ بات ناقابل تصور تھی کہ دنیا کی ایک قوم قاتلوں کے ایک گروہ کی حمایت کرتی ہے‘ جو ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے مہمانوں اور سیاحوں کو ہلاک کرتی ہے ۔ لیکن پاکستان کے سامنے خود اپنے چیلنجز موجود ہیں۔ اسی طرح افغانستان میں آنے والے امریکیوںکے لکھے گئے خطوط بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ وہ افراد تھے جو اس جنگ زدہ ملک کی مدد کرنے آئے تھے۔ اُن کا خیال تھاکہ افغانستان کو اُن کی معاونت درکار ہے۔ ان میں سے کچھ زندہ واپس نہیں جا سکے تھے۔ کچھ طالبان کا نشانہ بنے تو بعض کو افغان فوجیوں نے ہلاک کر دیا۔ اس مشن کا پھیلائو صدر جارج ڈبلیو بش سے لے کر اوباما تک ہے۔ اب یہ بساط ٹرمپ کے سامنے ہے۔ سینیٹر بابرا اے میکاسکی نے 2012ء میں لکھا تھا ''ہم وہاں اچھے ارادوں سے گئے تھے لیکن اب ہمیں وہاںسے نکلنے کے لیے بھی اچھے ارادوں کی ضرورت ہے‘‘۔