مملکتِ خداداد پاکستان کے دانشوروں ،تجزیہ نگاروں اور میڈیا کے سرخیلوں کی منطقیں نرالی ہیں۔ اگر تاریخ کے کسی دوراہے پر یا موجودہ دور کی کسی منزل میں کوئی مسلمان حکمران جو صرف کلمہ پڑھنے کی حدتک ہی مسلمان ہو یا اپنے خاندانی اقتدار کو مستحکم کررہا ہو تو ان لکھاریوں کے تبصروں کا رُخ اس شخص کی جانب نہیں ہوتا بلکہ غصے میں اُبلتے اور آستینیں چڑھائے یہ کوشش کرتے ہیں کہ اسلام، اس کے عادلانہ نظام یا اس کی عظیم دعوت کو ناکام اور ناقابل عمل ثابت کریں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اپنی مرضی کی تاریخ بھی مرتب کرڈالتے ہیں اور طنزیہ طور پر مسکراتے ہوئے کہتے پھرتے ہیں کہ اسلام تو چند سال بھی نہ چل سکا۔ لیکن ان سے سوال ہے کہ کیا خلافتِ عثمانیہ کے اختتام یعنی 1924ء تک مسلمانوں کے عدل کا نظام، ان کا معاشی نظام، ان کی خارجہ پالیسی، ان کی تعزیرات ، ان کے محاصل حتیٰ کہ ان کا تعلیمی نظام تک سب کا سب اپنے پورے جاہ وجلال کے ساتھ قائم ودائم نہ رہا؟ صرف ایک خلیفہ یا حکمران بدلنے کے طریق کار میں تبدیلی آئی تھی جو موروثیت میں بدل گئی‘ یہ اسلام کی روح کے خلاف تھی۔ لیکن تمام اموی ، عباسی ، سلجوقی، ترک حتیٰ کہ برصغیر کے حکمرانوں کو بھی یہ جرأت نہ ہوئی کہ اسلام کے نظامِ عدل یا نظامِ معیشت کو بدل دیںیا پھر اسلام کے مروّجہ تعلیمی نظام کی جگہ کسی اور نظام کو قائم کردیں۔ سب ویسے کا ویسا ہی رہا۔ اللہ کے نازل کردہ احکامات میں ایک ایسا عدل پنہاں ہے کہ چودہ سوسالوں میں ان حکمرانوں کے خلاف وسیع پیمانے پرکوئی عوامی تحریک نہ چلی؛ حالانکہ دنیا بھر کے دیگر ظالم اور موروثی بادشاہوں کے خلاف لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کی مثالیں ملتی ہیں۔ جب خلافتِ عثمانیہ اور برِصغیر میں امن وامان اور خوش حالی تھی، اسی دور میں فرانس میں انقلاب ظالم حکمرانوں کی گردنیں کاٹ رہا تھا۔ یہ حقائق سننے کے بعد ان کا تیر سیدھا مسلمانوں کی جانب چلنا شروع ہوجاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں: دیکھو سب کے سب مسلمان حکمران آمر، ڈکٹیٹر اور ظالم ہیں۔ یہ سارے کے سارے مسلمان بحیثیت قوم ہی ایسے ہیں۔ اس فہرست میں وہ جمال ناصر جیسے سوشلسٹ، حسنی مبارک ، انورسادات ، زین العابدین علی جیسے سیکولر؛ صدام حسین، حافظ الاسد اور دیگر ملحدین کو بھی شامل کرلیتے ہیں جن کی پوری زندگی انہی دانشوروں کی طرح اسلام کا مذاق اڑاتے گزری ہے۔ اسلام کو غلط ثابت نہ کرسکیں تو مسلمانوں کو بحیثیت مجموعی غلط کہنا ان کا معمول ہوتا ہے، لیکن شاید انہیں تاریخ کے صفحات پر عوام کی بھاری اکثریت سے جیتنے والا جمہوری نظام کی پیداوار عیسائی عقیدے اور مذہب کا پیرو کار ہٹلر نظر نہیں آتا جس کے نسلی تعصب اور بالاتری کی خواہش نے کروڑوں لوگوں کو موت تحفے میں بخشی۔ دو عالمی جنگوں میں جتنے لوگ قتل ہوئے، پوری انسانی تاریخ میں اتنے نہ ہوئے ہوں گے۔ چرچل سے لے کر مسولینی اور امریکی صدر ٹرومین تک سب کے سب عیسائی مذہب کے پیروکار تھے، لیکن کوئی دانشور یہ نہیں کہتا کہ جنگ عظیم اول اور دوئم جمہوری طورپر منتخب حکمرانوں اور عیسائی مذہب کے پیروکاروں کے درمیان لڑی گئی۔ یہ سب انتہائی بددیانتی سے اس پس منظر کوگول کرجاتے ہیں۔ ملک میں شور بپا ہے۔ ہرکوئی خوشخبری اور نویدِ مسرت کے ساتھ اس تاریخی واقعہ پر گفتگو کررہا ہے کہ جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کرلیے۔ آپ تمام ٹیلی ویژن چینلوں کو گھما کر دیکھ لیں، تمام تبصرے اور کالم کھنگال لیں، آپ کو یہاں تک تو بات ملے گی کہ حکمرانوں نے مایوس کیا ہے لیکن کوئی اس جمہوری نظام کے بارے میں ایک لفظ نہیں بولتا جس کی کوکھ سے ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں جواقتدار کے نشے میں سرمست ، عوام کی دولت کو لوٹنے کے دیوانے اور اپنے سیاسی مخالفین کی کردار کشی سے لے کر موت کی وادیوں تک پہنچانے کے آرزومند ہوتے ہیں۔ آئین وہ مقدس صحیفہ ہے جس سے انحراف کی سزا موت ہے۔ پارلیمانی جمہوری نظام وہ جادو کی چھڑی ہے جس کو کئی سوسال تک گھماتے جائیں ، بار بار گھمائیں ،حتیٰ کہ آپ کے ہاتھ شل ہوجائیں لیکن پھر بھی امید یہ رکھیں کہ تبدیلی ضرور آئے گی اور اسی جمہوریت سے آئے گی۔ اس جمہوریت اور اس جمہوری نظام کے خلاف کوئی کیوں نہیں بولتا؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوری نظام تخلیق ہی اس لیے کیا گیا کہ ایک فرعون کے اختیار پر چارسو فرعونوں کی مہرِتصدیق ثبت کروائی جائے۔ یہ سب کے سب اپنے حلقۂ انتخاب کے فرعون ہوتے ہیں جو دھن‘ دھونس اور طاقت و ہیبت کے بل بوتے پر پورے کے پورے قبیلے ، برادری اور گائوں کے ووٹوں کی نکیل پکڑ کر جدھر چاہیں اُدھر موڑ دیتے ہیں۔ سب یہ کہتے ہیں کہ فوج کو نہیں آنا چاہیے، ہم تین دفعہ آزما چکے ہیں، لیکن کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ اسی 1973ء کے مقدس آئین کے تحت سات الیکشن ہوچکے ہیں اور پہلے الیکشن کی کوکھ سے یہ آئین برآمد ہواتھا۔ کوئی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ ان آٹھ الیکشنوں میں دو حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے نجومیوں کی پیش گوئیوں سے گھبرا کر جلد الیکشن کروا لیے تھے اور یہ تصور کرلیا تھا کہ تقدیر کی لکھی ناکامی کو ٹالا جاسکتا ہے۔ 1977ء کے الیکشن بھی ہوگئے تھے‘ اقتدار بھی نئی اسمبلی کو منتقل ہوگیا تھا۔ یہ سب کچھ جو اب ہونے والا ہے کوئی نیا نہیں‘ لیکن کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ اس پورے جمہوری نظام میں ہی کوئی خرابی ہے اس لیے کہ دنیا بھر کے کارپوریٹ مافیا اور سودی بینکاری نے اس نظام کو تخلیق کیا ہے جسے وہ اپنے غلام میڈیا کے ذریعے خوشنما بناکر پیش کرتا ہے۔ کاغذ کے نوٹوں اور سود کے چنگل میں پھنسی یہ پوری دنیا بار بار جمہوری حکمرانوں سے قتل ہو، اس کے گھراُجڑیں، اسے فاقے کرنے پڑیں اور اس کی زندگیوں میں غربت راج کرے۔ کسی کو یہ گفتگو کرنے کا بھی حق نہیں کہ وہ اس نظام پرانگلی اٹھائے، اس آئین کی ’’مقدس‘‘ کتاب پراعتراض کرے کہ اس کی سزا تو موت ہے۔اگر موت عدالت کے ذریعے نہ دی جا سکے تو فوجی آپریشن کے ذریعے علاقے تباہ کرو، مسخ شدہ لاشیں پھینکو ، ہزاروں لوگوں کو صفحۂ ہستی سے غائب کردو۔ بس آئین کی بالادستی قائم رہنی چاہیے۔ غلام لوگوں کو اس کے خلاف بات کرنے کی بھی اجازت نہیں کہ اٹھارہ کروڑ شودر ہیں اور ایک ہزار ممبران اسمبلی برہمن جن کے ہاتھ میں آئین کی ’’وید‘‘ ہے جس میں وہ خود جیسی چاہیں تبدیلی کرکے اس کا حلیہ بگاڑسکتے ہیں۔ لیکن عام آدمی جوشودر ہے وہ اگر اس کی جانب انگلی اٹھائے تو اس کی انگلی کاٹ دی جائے۔ جس جمہوری نظام کو قائم رکھنے کے لیے کارپوریٹ مافیا اوباما کو الیکشن کے چھ ارب ڈالر، سرکوزی کوتین ارب یورو اور گورڈن برائون کو 4ارب پونڈ مہیا کرتا ہو وہ اسے کیسے گرنے دے گا۔ اس کے خلاف اپنے ٹکڑوں پر پلنے والے میڈیا کو زبان کھولنے کی اجازت کیسے دے گا۔ حیرت ہے کہ اپنی فیکٹری کے بورڈ آف ڈائریکٹر بنانے ہوں، منیجر لگانے ہوں، فیکٹری میں تبدیلیاں کرنی ہوں تو کہا جاتا ہے وہی کرے گا جو اس کام کو جانتا ہے۔ کیا کبھی کسی نے ایسا کیا کہ میری مل میں دس ہزار مزدور جس کا انتخاب کریں وہی فیکٹری کا نظام چلائے۔ جس دن وہ ایسا کرنے لگ گئے دنیا کی ہرفیکٹری زمین بوس ہوجائے گی۔ لیکن ملک کے تمام اداروں کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیتے ہیں جو فن حکمرانی تو دور کی بات بنیادی انسانی صفات… سچائی اور دیانت کا بھی مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں۔ کیا کسی نے اپنے گھر میں ایک ملازمہ بھی ایسی رکھی جو جھوٹ بولتی اور بددیانت ہو؟ کیا کسی نے اپنی بیٹی جان بوجھ کر ایسے شخص کے سپرد کی جوجھوٹا اور بددیانت مشہور ہو؟ کیا کسی نے اپنی فیکٹری یا ذاتی ادارہ ایسے ملازم کے حوالے کیا کہ جو گزشتہ عمر میں آٹھ فیکٹریوں میں ملازم ہوا مگر غبن اور بددیانتی کرنے پر نکالا گیا۔ جس سیاست کی بنیاد اس بات پر رکھی جائے کہ انتخاب لڑنے کے لیے سچا اور جھوٹا‘ دیانت دار اور بددیانت‘ ظالم و مظلوم برابر ہیں‘ وہاں سو سال بھی جمہوریت کی چکی چلتی رہے یہی کچھ برآمد ہوگا۔ گدلے پانی کو چھلنی سے گزارا جائے گا تو نیچے گدلا پانی ہی نکلے گا۔ اقبال کی ایک نظم ہے جس میں ابلیس اللہ سے مخاطب ہوکر کہتا ہے: جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک ایسے نظام کے ہوتے ہوئے زمین پر شیطانوں کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved