تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     04-03-2018

عادات

جمہوریت نہیں یہ امرا شاہی‘ جمہوریت اور بادشاہت کا ملغوبہ ہے۔ قوموں کی عادات صدیوں میں تشکیل پاتی اور آسانی سے بدلتی نہیں۔ 
اچھا ہوا کہ سینیٹ کے الیکشن ہو گئے۔ برا یہ ہوا کہ بڑے پیمانے پر خرید و فروخت ہوئی‘ شرمناک خرید و فروخت۔ کراچی میں جس طرح کوڑے کے ڈھیر پڑے ہیں ایسے ہی کچھ سینیٹ آف پاکستان میں بھی ہوں گے۔ 
اچانک ایک دن بلوچستان میں بساط الٹ گئی تھی۔ حکمران پارٹی میں بغاوت ہوئی اور ایسی بغاوت کہ سان گمان میں نہ تھی۔ اس وقت جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘ وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے گروپ نے بیشتر سیٹیں جیت لی ہیں۔ خفیہ بغاوت کامیاب نہ ہوئی ہوتی تو یہ نون لیگ کی نشستیں ہوتیں۔ سندھ میں‘ ایک منصفانہ الیکشن میں پیپلز پارٹی آٹھ سے زیادہ سیٹیں نہ جیت سکتی۔ ایم کیو ایم‘ فنکشنل لیگ‘ پاک سرزمین پارٹی اور تحریک انصاف پر مشتمل اپوزیشن میں اتفاق رائے ہو سکتا تو چار یا پانچ نشستیں وہ لے مرتے۔ اس میں سے دو یا تین‘ ایم کیو ایم‘ ایک فنکشنل لیگ‘ ایک پاک سرزمین پارٹی‘ حتیٰ کہ ایک تحریک انصاف کو مل سکتی۔ بظاہر یہ ایک سیاسی بحران ہے لیکن اپنی بنیاد میں اخلاقی۔ جیسے ہی الیکشن کا بگل بجا‘ ہر کہیں ارب پتی میدان میں کود پڑے۔ بلوچستان میں تو آنِ واحد میں جنگل کا جنگل ہی ہرا ہو گیا۔ ایم کیو ایم کے فاروق ستار نے ایک پسندیدہ امیدوار کی خاطر پارٹی کی فصل ہی اجاڑ دی۔ آخر کو صلح ہوئی لیکن اس وقت تک یہ واضح تھا کہ پرندے اڑ چکے۔ ادھر فاروق ستار اور خالد فاروقی گروپ میں صلح کا اعلان جاری تھا‘ ادھر ایم کیو ایم کی دو خواتین پیپلز پارٹی کی حمایت کا اعلان کر رہی تھیں۔ کوئی اخبار نویس تحقیق کرے تو ان ارکان کی فہرست مرتب کی جا سکتی ہے‘ جنہوں نے اپنے رشتہ داروں یا بھاڑے کے ٹٹوئوں کے نام پر ٹھیکے اور مراعات حاصل کیں۔ قبائلی علاقے پر اخبار نویسوں کی نظر نہ تھی۔ الیکشن کی صبح‘ تحریک انصاف کے ایک لیڈر نے انکشاف کیا کہ نون لیگ کے چار امیدوار جیت جائیں گے اور اس کارِ خیر کے لیے پارٹی نے بتیس کروڑ روپے خرچ کئے ہیں۔ جلد ہی کچھ اور انکشافات بھی ہوں گے۔ مثلاً پیپلز پارٹی کے دو رہنما‘ جن میں سے ایک سندھ کے سینیٹر ہیں‘ اور دوسرے کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے‘ گزشتہ دنوں لاہور میں خریداری کرتے پائے گئے۔ ایک خاتون ایم پی اے اور میانوالی سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت کی قیادت میں پانچ ارکان سے معاملہ طے پا گیا تھا۔ بات غالباً نکل گئی اور شہباز شریف نے اپنے لوگ سمیٹ لیے؛ چنانچہ گیارہ سیٹیں جیتنے میں وہ کامیاب رہے۔ ایک بغاوت البتہ ہوئی کہ نواز شریف کے باڈی گارڈ زبیر گل ہار گئے۔ یہ نون لیگ میں شکست و ریخت کا آغاز ہے۔ چوہدری سرور جیت گئے۔ اس کا مطلب کیا ہے‘ یہی کہ نون لیگ کے ایک درجن سے زیادہ ارکان نے اشارۂ ابرو کو دیکھنے سے انکار کر دیا۔
جوڑ توڑ الگ‘ اس پہ شاید کچھ زیادہ اعتراض نہ ہو۔ ہنگامی سیاسی ضرورتیں‘ متحارب سیاسی پارٹیوں کو یکجا کر دیتی ہیں‘ جس طرح کسی طوفانِ بلا خیز میں آدمی اور جانور ایک ہی کشتی میں پناہ لیتے ہیں۔ پختونخوا میں زیرِ تشکیل ایم ایم اے کی دو پارٹیوں میں سے ایک‘ جماعت اسلامی نے‘ اپنی حلیف تحریک انصاف کو تیاگ کر اے این پی اور نون لیگ سے اتحاد کیا۔ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام نے پیپلز پارٹی اور کچھ دوسری جماعتوں کے ساتھ۔ پختونخوا میں پیپلز پارٹی نے ایک سیٹ کیسے جیت لی؟ ووٹر تو اس کے پورے نہ تھے۔ 
جو زخم بلوچستان میں نون لیگ کو لگا تھا‘ فاٹا میں اسی حربے سے کچھ تلافی حکمران پارٹی نے کر لی۔ کچھ زیادہ نقصان اسے نہیں پہنچا‘ تاہم اب آسانی سے سینیٹ کا چیئرمین وہ منتخب نہ کرا سکے گی۔ ایسی اکثریت اسے حاصل نہیں کہ عدلیہ میں ریٹائرمنٹ کی عمر کم کرکے‘ ناپسندیدہ ججوں سے نجات پا لے... اور اپنے منصوبے کے مطابق ‘ بریگیڈیئر اور اس سے اوپر کی سطح کے افسروں کی ترقی میں وزیر اعظم کے عمل دخل کا آغاز کرے۔ انقرہ میں زہر سے وفات پانے والے‘ عربی کے اساطیری شاعر امرائوالقیس کی آخری نظم کے دو مصرعے یہ ہیں:
نیزوں کے کتنے بھرپور وار اور کتنے لبریز جام 
کل انقرہ میں دھرے کے دھرے رہ جائیں گے
اپنے تمام نقائص کے باوجود جمہوریت کو سب سے بہتر نظام سمجھا جاتا ہے۔ بنیادی دلیل اس کی یہ ہے کہ انسانی صلاحیت آزادی میں بروئے کار آتی ہے۔ امکانات کا ایک طوفان اٹھتا ہے‘ بتدریج جو متشکل ہو جاتا ہے۔ فرّاٹے بھرتی ہوئی قومیں ایک کے بعد دوسری منزل سر کرتی چلی جاتی ہیں۔ اگرچہ چین اور کوریا کی مستثنیات موجود ہیں مگر بحیثیت مجموعی‘ انہی معاشروں میں ترقی کا عمل تیز تر ہوتا ہے‘ جہاں جمہوری نظام کارفرما ہو۔
کیا آزادی بجائے خود فروغ اور ظفر مندی کی ضمانت ہے۔ معاشروں کو اخلاقی اقدار اور ڈسپلن کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ الیکشن اور پارلیمنٹ جمہوریت کے بنیادی ادارے نہیں بلکہ مہذب اور مرتب سیاسی جماعتیں۔ ابھی کچھ دیر پہلے ایاز امیر نے یہ نکتہ آشکار کیا کہ یورپ میں سلطانیٔ جمہور سے پہلے قانون کی حکمرانی قائم ہوئی۔ ''قانون کی حکمرانی‘‘ یہ ہے شاہ کلید۔ چودہ سو سال پہلے اسی کے بل پر حجاز کے صحرا نشینوں نے اپنے عہد کی دو عالمی طاقتوں‘ روم اور ایران کو شکست فاش سے دوچار کیا تھا۔ اسی اخلاقی برتری کے بل پر ایک ہزار سال تک مسلمان دنیا کی غالب قوم رہے۔ تاریخ جس کی کوئی دوسری نظیر پیش نہیں کرتی۔
پاکستان کا المیہ فقط فوج کی مداخلت نہیں بلکہ سیاسی پارٹیوں کا وحشی پن بھی ہے۔ دو برس پہلے پیپلز پارٹی میں بغاوت کی ایک زیریں لہر اٹھی۔ کہا جانے لگا کہ بدنام آصف علی زرداری کو بلاول بھٹو کے لیے راستہ چھوڑ دینا چاہیے۔ ایک شام زرداری صاحب نے اعلان کیا: سینیٹ‘ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ٹکٹ مجھے جاری کرنے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ بغاوت جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ اعتزاز احسن سمیت سب اچھے بچے بن گئے۔ دنیا بھر میں پارٹیوں کے پارلیمانی بورڈ ٹکٹ جاری کرتے ہیں۔ وہ کارکنوں پہ انحصار کرتے ہیں۔ مثلاً رحیم یار خان میں امیدواروں کا انتخاب کرنے کے لیے پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف اور نون لیگ اپنے کارکنوں کی رائے طلب کریں گی۔ لطیفہ یہ ہے کہ اکثر پارٹیوں کے پاس کارکنوں کی فہرستیں ہی مرتب نہیں۔ اچانک ایک دن کوئی موثر امیدوار ایک درخت سے اڑ کر دوسرے درخت پہ جا بیٹھتا ہے۔ پھر کسی ٹاک شو میں وہ نئی پارٹی کے ممتاز لیڈر کے طور پہ اپنا مؤقف بیان کر رہا ہوتا ہے۔ اس کا نہیں یہ پارٹی کے سربراہ کا مؤقف ہوتا ہے۔ اپنے کردار میں نون لیگ ایک اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹی نہیں۔ 1999ء میں‘ شریف خاندان خفیہ سمجھوتہ کرکے جدّہ جا پہنچا تو آئندہ عام انتخابات میں نون لیگ قومی اسمبلی کی صرف اٹھارہ سیٹیں جیت سکی۔ سارے موقع پرست قاف لیگ میں چلے گئے۔ الیکشن 2013ء میں نواز شریف نے ان میں سے اکثر کا خیرمقدم کیا۔ ایک ایک کرکے اب یہ لوگ تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں۔ کچھ تامل کا شکار ہیں۔ وہ جی ایچ کیو کی طرف دیکھتے ہیں۔ چونکہ اعلانیہ حوصلہ افزائی نہیں‘ لہٰذا ابھی کچھ انتظار میں ہیں۔ ان میں ایک وفاقی وزیر بھی ہے‘ جو بار بار پیغام بھیجتے ہیں۔ کچھ دن کے لیے ان کا لہجہ بھی مختلف ہو جاتا ہے۔ جس دن آنجناب نے دریافت کر لیا کہ شریف خاندان اقتدار میں نہیں آئے گا‘ اڑان بھرنے میں ہرگز کوئی تامل عالی جناب کو نہیں ہو گا۔
اسی طرح دہشت گردی کے باب میں تحریک انصاف کی عظیم اکثریت کا ایک رویہ تھا اور جناب عمران خان کا دوسرا۔ انہوں نے پشاور میں طالبان کا دفتر کھولنے کی تجویز پیش کی تو پارٹی کے کسی ایک بھی قابلِ ذکر لیڈر نے ان کی تائید نہ کی۔ پارٹیاں نہیں یہ شخصیات ہیں۔ اسی لیے ڈنکے کی چوٹ پہ نواز شریف یہ کہتے ہیں کہ ان کی نااہلی کے بعد ملک کی معیشت ڈوب رہی ہے۔ پارٹی میں کوئی انہیں یاد نہیں دلاتا کہ حضور اسلام آباد میں آپ کے نامزد کردہ شاہد خاقان عباسی ایوان وزیر اعظم میں براجمان ہیں اور لاہور میں آپ کے برادرِ خورد میاں محمد شہباز شریف مدظلہ العالی۔ 
جمہوریت بجا مگر تربیت کے بغیر اور تعلیم کے بغیر معاشرے میں آزادی کا تصور جڑ نہیں پکڑ سکتا۔ جمہوریت نہیں یہ امرا شاہی‘ جمہوریت اور بادشاہت کا ملغوبہ ہے۔ قوموں کی عادات صدیوں میں تشکیل پاتی اور آسانی سے بدلتی نہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved