تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     04-03-2018

دیارِ مصر میں دیکھا ہے ہم نے دولت کو

دوبئی سال میں ایک دفعہ جانا ہوتا ہے‘ وہ بھی پی ایس ایل کی وجہ سے کہ چلیں دو تین دن سکون سے گزر جائیں گے۔ دوبئی جانے کی سب سے بڑی لالچ وہاں برج خلیفہ مال میں کتابوں کی بہت بڑی دکان ہے۔ ایسی دکان کبھی لندن میں باڈرز کی ہوتی تھی‘ یا امریکہ جائیں تو بارنز اینڈ نوبل۔ آپ کو دوبئی کی اس دکان میں پورا ایک دن چاہیے‘ لہٰذا تین میں سے ایک دن یہاں گزارتا ہوں۔ اختر درانی اور مہر عابد بشیر کو پتا ہوتا ہے کہ میرا پورا دن اس مال میں کتابوں کی دکان میں گزرے گا‘ لہٰذا وہ بھی ذہنی طور پر تیار ہوکر آتے ہیں۔ 
دکان میں پھرتے‘ کتابیں ڈھونڈتے، بیک کورز پر تعارف پڑھتے مجھے امریکی ریاست ڈیلیور کے ڈاکٹر احتشام قریشی یاد آئے‘ جو میرے وہاں ڈاکٹر عاصم صہبائی کے گھر طویل قیام کے دوران جب شہر سے باہر جانے لگتے تو کہتے: شاہ جی! کیا پروگرام ہے؟ میں سُستی کا مارا ٹالنے کی کوشش کرتا‘ تو کہتے: سوچ لیں شاہ جی؟ اس شہر میںبارنز اینڈ نوبل بک شاپ بھی ہے۔ اور پھر میں، ڈاکٹر احتشام اور ان کے بچے دکان میں پھرتے اور کتابوں کا بل ڈاکٹر احتشام ادا کرتے۔ 
خیر‘ دوبئی کی اس دکان میں سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہوئی کہ وہاں سے Arabian Nights کہانیوں کی‘ پینگوئن کی‘ نئے انگریزی ترجمے کے ساتھ چھپے ہوئے تین حصوں میں سے پہلی جلد مل گئی‘ جس میں تین سو کے قریب کہانیاں ہیں۔ دو ماہ قبل لاہور گیا تھا تو وہاں لبرٹی مارکیٹ کی بڑی دکان میں اس عظیم کتاب کا دوسرا اور تیسرا حصہ تو موجود تھا لیکن پہلا فروخت ہو چکا تھا۔ شاید کوئی نیا شوقین صرف پہلا حصہ لے گیا تھا‘ اور یوں پورا سیٹ خراب ہو گیا تھا۔ میں نے دوسرا اور تیسرا حصہ خرید لیا کہ چلیں کبھی پہلا بھی مل جائے گا۔ اب پہلا حصہ دوبئی کی اس شاپ میں ملا۔ وہاں تینوں حصے رکھے تھے۔ اب مجھے فکر لاحق ہو گئی کہ کائونٹر پر انکار نہ کر دیا جائے کہ خریدنے ہیں تو پورے تین حصے خریدیں۔ میرا واقعی دل دھڑک رہا تھا۔ لگ رہا تھا‘ میں کتاب خرید نہیں رہا‘ چوری کر رہا ہوں۔ کائونٹر پر کھڑی سیلز وومین نے مشینی انداز میں اسے بھی دیگر کتابوں کے ساتھ بل میں شامل کر دیا۔ میں نے گہری سانس بھری۔ 
درجن بھر سے زیادہ کتابیں لیں؛ تاہم جس کتاب نے مجھے اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے‘ اس کا نام ہے: Dark Money‘ جو Jane Mayer نے لکھی ہے۔ اس کتاب کا دیباچہ پڑھنا شروع کیا اور پھر پڑھتا ہی چلا گیا۔ دوسری کتاب Warrior Politics اس وجہ سے خریدی کہ اس کے بیک کور پر ہنری کسنجر کا کمنٹ تھا۔ اس نے اس سال اس سے بہتر کتاب نہیں پڑھی تھی۔ یہ ایک امریکی صحافی رابرٹ ڈی کپلان نے لکھی ہے۔
'ڈارک منی‘ پڑھیں تو احساس ہوتا ہے کہ دنیا ہمیشہ سے امیر لوگوں کی باندی رہی ہے۔ یہ ارب پتی اپنے منافع یا کاروبار میں رکاوٹ بننے والی ہر چیز خرید لیتے ہیں یا پھر تباہ کر دیتے ہیں۔ اس میں اہم یہ سبق ہے کہ جمہوریت اور ارب پتی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ آپ جمہوریت چاہتے ہیں تو پھر آپ کے ہاں ارب پتی لوگ نہیں چل سکتے اور اگر ارب پتی وہاں موجود ہیں تو پھر جمہوریت نہیں چل سکتی۔ اس کتاب کا تھیم یہ ہے کہ اگر ایک بھیڑیا بھی بچ گیا تو سمجھ لیں بکریوں کی خیر نہیں ہے‘ اور ارب پتی لوگ اس کے نزدیک وہی بھیڑیے ہیں جو عوام نما بکریوں کو نگل جاتے ہیں۔ 
آپ کو یہ کتاب پڑھتے ہوئے احساس ہو گا کہ یہ پاکستان کے بارے میں لکھی گئی ہے یا دنیا کے ہر اس ملک کے بارے میں جہاں جمہوریت ہے۔ بتایا گیا ہے کہ کیسے جمہوریت کو کمزور کرنے میں ان ارب پتیوں کا ہاتھ ہے‘ جو کسی قیمت پر اپنے ہاتھ سے دولت اور کنٹرول نہیں نکلنے دیتے‘ اور اگر کچھ ایسے لوگ ملک کی باگ ڈور سنبھال لیں‘ تو پھر کیسے یہ ارب پتی مل کر ایک تھنک ٹینک بناتے ہیں، پیسہ پھینکتے ہیں‘ انقلابی لیڈرشپ کو تباہ کرتے ہیں اور اپنی مرضی کے لوگ منتخب کراتے ہیں۔ اگرچہ اس کتاب میں سب سے زیادہ مثالیں امریکہ کی دی گئی ہیں‘ لیکن آپ کو لگے گا یہ کتاب ہر ملک پر فٹ آتی ہے۔ اس میں دو امریکی ارب پتیوں کی مثال دی گئی ہے کہ کیسے چارلس اور ڈیوڈ نے دھیرے دھیرے اپنا سیاسی اثر و رسوخ بڑھایا تاکہ اپنے کاروباری مفادات کا دھیان رکھ سکیں۔ ڈیوڈ نے تو انیس سو اسی میں امریکہ میں نائب صدر کا الیکشن تک لڑا۔ اسے امریکہ کے ایک فیصد ووٹ پڑے۔ وہ الیکشن میں ہار گیا تو اس نے دولت سے امریکی سیاسی سسٹم کو خریدنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے یہ مشن اپنا لیا کہ امریکی ووٹر کی رائے تسلیم کرنے کی بجائے ووٹر کے ووٹ ڈالنے کی اپروچ کو تبدیل کیا جائے۔ اب وہ ارب پتی فیصلہ کریں گے کہ ووٹر نے کیا سوچ کر ووٹ کس کو ڈالنا ہے۔ انہوں نے دیگر کاروباری ارب پتی ساتھ ملائے اور ڈالروں کی مدد سے اپنے اقلیتی خیالات کو اکثریت پر مسلط کرنے کا پلان بنا لیا۔ آنے والے برسوں میں کروڑوں ڈالرز خرچ کیے تاکہ ان کا ایجنڈا پورا ہو سکے۔ ڈیوڈ‘ جو ستر کی دہائی میں ایک انجینئر تھا‘ نے پورے امریکہ کو دولت سے الٹنے پلٹنے کا منصوبہ بنایا۔ تھنک ٹینکس کو پیسہ دینا شروع کیا۔ اکیڈمک پروگرامز میں پیسہ پھونکا اور ایڈووکیسی گروپس کی مدد شروع کی تاکہ وہ اس کے ایجنڈے کی قومی سطح پر پروموشن کریں۔ ساتھ ہی اس نے کانگریس پر اثر انداز ہونے کے لیے لابسٹ فرمیں خرید لیں تاکہ کانگریس ان کے کاروباری مفادات کا تحفظ کر سکے۔ لیگل گروپس اور عدالتی اہلکاروں پر بھی پیسہ خرچ کرنا شروع کیا تاکہ وہ ان کے لیگل معاملات کو دیکھتے رہیں اور جج رکاوٹ نہ بنیں۔ یوں ان ارب پتیوں نے ایک نیا گروپ پیدا کر لیا‘ جو ری پبلکن پارٹی کو بھی دھمکانے لگا۔ ان تمام معاملات کے پیچھے انہوں نے جو پیسہ لگایا اسے اس طریقے سے استعمال کیا کہ کوئی بھی منی ٹریل نہ چھوڑا کہ پتا چلتا پیسہ کہاں سے آیا تھا اور کہاں گیا۔ رضاکارانہ سروس اور عطیات کے نام پر پیسہ چھپایا گیا۔ ڈیوڈ اکیلا نہ تھا‘ بلکہ اس کے ساتھ امریکہ کے امیر ترین لوگوں کا پورا ایک نیٹ ورک تھا۔ ان کا کام یہ تھا کہ وہ اتنا پیسہ ان نیٹ ورکس میں لگا دیں کہ امریکی ویسے ہی سوچیں اور ووٹ دیں جیسے وہ چاہتے ہیں۔
میں اس کتاب کو جتنا پڑھتا جا رہا ہوں‘ اتنا ہی مجھے لگ رہا ہے کہ یہ ہماری کہانی ہے۔ پاکستان میں جاگیرداروں کے خلاف جنم لینے والا شہری تاجر اور کاروباری طبقہ بھی یہی طریقۂ واردات استعمال کرکے جنرل ضیا دور میں سیاست میں آیا۔ پیسے کی مدد سے سب کو خرید لیا۔ اپنے آپ کو اسی میڈیا کی مدد سے مسیحا قرار دلوایا۔ قلم خریدے گئے۔ ضمیر کی بولی لگائی۔ ناقدین میں اعلیٰ عہدے بانٹ کر ان کے منہ بند کرائے گئے۔ سیاسی وفاداریاں خریدی گئیں، اور ایسا بیانیہ تشکیل دیا گیا کہ صرف یہ تاجر کلاس‘ جو ارب پتی ہے‘ پاکستان کا حل ہے۔ اس سیاسی بیانئے کے پیچھے ان سب کے ذاتی کاروباری مفادات تھے‘ اور ڈیوڈ کی طرح انہوں نے بھی کھل کر پیسہ کمایا۔ لندن‘ دوبئی میں جائیدادیں خریدیں۔ سوئس بینکوں میں اربوں روپے خفیہ چھپا لیے۔ ہر پراجیکٹ اور ڈیل میں مال بنایا‘ لیکن کوئی منی ٹریل ان کے پاس بھی نہیں۔ قومی اسمبلی میں چار سال قبل جن گیارہ کاروباری مافیاز کی فہرست پیش کی گئی تھی‘ وہ سب ان سیاستدانوں کی ملکیت تھے‘ جو اس ملک کے اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ وہ خود کاروبار کر رہے ہیں اور خود ہی کاروبار کو تحفظ دینے اور مال بنانے کے لیے فیصلے کرکے عوام کو لوٹ بھی رہے ہیں۔ سیاسی پاورز لینے کے بعد ان پاکستانی ارب پتی کاروباریوں نے ریاست کے وہ تمام ادارے اپنے قابو میں کر لیے‘ جو ان پر ہاتھ ڈال سکتے تھے‘ یا ان کے غیر قانونی دولت کمانے اور عوام کو لوٹنے کی راہ میں کچھ رکاوٹ تھے۔ 
یہ ہے وہ جمہوری ماڈل جس کی وجہ سے کتاب کی مصنفہ جین میئر یہ کہنے پر مجبور ہے کہ جمہوریت اور ارب پتی افراد ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ کسی ایک کی قربانی دینا پڑے گی۔ اور قربان جمہوریت ہی ہوتی ہے کیونکہ ارب پتی جمہوریت کو خرید لیتے ہیں۔ یہی دیکھ لیں کہ پاکستان میں سینیٹ الیکشن کو خرید لیا گیا‘ اور سب خریدار‘ ٹھیکیدار ارب پتی کاروباری لوگ ہیں۔ امریکہ ہو یا پاکستان‘ یہ بات طے ہے کہ جمہوریت کے اس ماڈل میں آپ پیسہ خرچ کرکے عوامی رائے تک کو بھی خرید لیتے ہیں۔ میڈیا، کالم نگاروں، تھنک ٹینکس، عوامی سروے کمپنیوں، این جی اوز یا ٹی وی دانشوروں کو خریدنا تو معمولی سی بات ہے ان ارب پتیوں کے لیے‘ اپنے ہی شہر کے اعلیٰ شاعر نسیم لیہ یاد آ گئے: 
دیارِ مصر میں دیکھا ہے ہم نے دولت کو
ستم ظریف پیغمبر خرید لیتی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved