غزل کی جو تعریف اساتذہ نے طے کر رکھی ہے‘ ایسا لگتا ہے کہ وہ تبدیل ہو کر رہ گئی ہے کہ اس میں فلاں فلاں خوبی ہونی چاہیے کیونکہ یہ اس سکہ بند معیار سے بہت آگے نکل چکی ہے‘ اس لئے اب صرف یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس کا پیرایۂ اظہار کیا ہے، نیا ہے یا پرانا۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آیا شعر بنا ہے یا نہیں، یعنی صرف نیا مضمون باندھ کر اور الگ ہو کر بیٹھ جانا یہاں کام نہیں دیتا اور نہ ہی کسی صنعت کا استعمال اور نہ ہی اسے بھاری بھرکم بنا دینے سے، کیونکہ غزل تو پیار محبت اور چھیڑ چھاڑ کی شاعری ہے۔ بے شک آپ اس مدار سے باہر بھی نکل جائیں لیکن شعر کا شعر ہونا بے حد ضروری ہے اور شعر خود بتایا ہے کہ وہ بنا ہے یا نہیں، کہ شعر اور ناشعر میں فرق معلوم کرنا کوئی راکٹ سائنس بھی نہیں ہے کیونکہ شعر ہو تو وہ خود ہی بولتا ہے۔
شعر کا محض اچھا یا گزارے موافق ہونا اسے شعر نہیں بناتا کیونکہ میرے اپنے فارمولے کے مطابق شعر کی گاڑی میں صرف دو درجے ہوتے ہیں، فرسٹ کلاس اور تھرڈ کلاس۔ اس میں درمیانہ درجہ ہوتا ہی نہیں۔ مطلب یہ کہ جو شعر فرسٹ کلاس نہیں وہ تھرڈ کلاس ہے جبکہ شعر کو ناپنے کا یہ پیمانہ بجائے خود پرانے پیمانوں سے مختلف ہے۔ سو شعر میں اگر کوئی چنگاری ہے توہ خود ہی بتا دیتی ہے‘ شاید اسے تازہ کاری کا بھی نام دیا جا سکتا ہے جبکہ شعر کو محض مضمون تازہ نہیں بناتا، اندازِ بیان ایسا کرتا ہے یا کر سکتا ہے یا یہ کہ یہ عام ڈگر سے ہٹ کر کتنا ہے جبکہ دوسروں سے مختلف ہونا بجائے خود عمدہ شعر کی ضمانت ہو سکتا ہے اور جو شعر آپ کے ساتھ کرتا ہی کچھ نہیں وہ شعر ہونے یا کہلانے کا حقدار بھی نہیں ہو سکتا۔ میں نئے اور غیر معروف شعراء کو متعارف کرانے میں زیادہ لطف محسوس کرتا ہوں کہ انہیں تو کوئی پوچھتا ہی نہیں لیکن یہ ضروری ہے ان میں کوئی چنگاری موجود بھی ہو جس کی حوصلہ افزائی کی جائے تو وہ صحیح سمت میں آگے بڑھ سکتا ہے۔ یہ دونوں شعراء جو میرے پیش نظر ہیں میں ان کی خاصیتیں بتانے سے گریز کرتے ہوئے صرف ان کی شاعری کے کچھ نمونے پیش کروں گا تاکہ ان کے عیب و ہنر کا آپ اندازہ لگا سکیں۔ علی یاسر کی تو کتاب ''غزل بتائے گی‘‘ میرے سامنے ہے جبکہ دلاور علی آذرؔ کا مجموعہ ''کیمیا‘‘ ابھی مسودے کی شکل میں ہے، سب سے پہلی علی یاسر کے کچھ اشعار دیکھئے:
جیسے ہم آنکھ ملا کر ترے دل میں آئے
لوگ اس زینۂ دشوار سے کم اتریں گے
...............
کچھ لوگ خراب ہو رہے ہیں
ہمارے خراب شعر کہہ کر
...............
تری آنکھیں جہاں تک بولتی ہیں
مجھے رستہ سجھائی دے رہا ہے
...............
میرے لئے مانوس ہے وہ موت کی وادی
کچھ لوگ وہاں پہلے ہی موجود ہیں میرے
قائم ہے ابھی زباں ہماری
سنتا جا داستاں ہماری
...............
نفرت کا بیج بونے والو!
دیکھو یہاں باغ لگ چکا ہے
ہاتھوں میں اک لکیر بنانے کے واسطے
ہاتھوں سے ہر لکیر مٹانی پڑی مجھے
...............
لوٹا دے امانتیں ہماری
ایسا ساحل نہیں ہمارا
...............
کتنے امکاں نظر آئے ہیں تری باتوں سے
تیرا انکار بھی انکار کوئی ہوتا ہے
مجھے تو نے بھلانا ہے‘ بھلا دے
کہ یہ تیرے لئے آسان بھی ہے
...............
گویا قیام گاہِ خزاں سے چلے گئے
اچھے رہے جو لوگ یہاں سے چلے گئے
...............
میں بھول گیا ہوں تیری صورت
کچھ وقت نکال‘ اس طرف آ
...............
غریبی کی دعا ہرگز نہ مانگو
یہ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں ہے
اور اب آتے ہیں دلاور علی آذرؔ کی طرف:
وہ بہتے دریا کی بیکرانی سے ڈر رہا تھا
شدید پیاسا تھا اور پانی سے ڈر رہا تھا
...............
میری تنہائی نے پیدا کئے سائے گھر میں
کوئی دیوار کوئی در سے نمودار ہوا
چاروں اطراف مرے آئینے رکھے ہوئے تھے
میں ہی میں اپنے برابر سے نمودار ہوا
...............
جیسے ہر ایک ٹوٹتی شے ہے مرا وجود
جیسے یہ کائنات مرے گھر کی چیز ہے
کیا کیا نہ راہ کاٹ کے آتا ہے وصل کو
دریا کے پاس کوئی سمندر کی چیز ہے
ممکن ہے کہ ملتے کوئی دم دونوں کنارے
اک موج کے محتاج تھے ہم دونوں کنارے
...............
وقت کا سیلِ رواں چاروں طرف پھیل گیا
صبح ہوتے ہی دھواں چاروں طرف پھیل گیا
...............
ساتویں رنگ سے آگے نہیں جاتیں آنکھیں
آٹھواں رنگ نظارے میں نہیں ہو سکتا
...............
موج میں آتے گئے لوگ ہوا بنتی گئی
اور اسی بھیڑ میں پھر سب کی جگہ بنتی گئی
...............
دیکھتا ہوں میں اسے خود سے جدا ہوتے ہوئے
سوچتا ہوں وہ مرے ساتھ کہاں تک جاتا
...............
تو نے دیوار سے بھی سر نہیں پھوڑا جا کر
جانے والے پسِ دیوار چلے جاتے ہیں
...............
کیا عجب واقعہ ہے ڈوبنے سے
اک ندی نے ہمیں بچا لیا ہے
آج کا مقطع
ہنگامہ گرم ہے تو مزہ یہ بھی لے‘ ظفرؔ
تُو دیکھ تو سہی کبھی تنہا بھی آئے گا