کبھی کبھار ایسی حیران کن چیزوں سے انسان کو واسطہ پڑتا ہے کہ بہت دیر تک آدمی ان کے بارے میں سوچتا رہتا ہے لیکن سمجھ پھر بھی نہیں آتی۔ ایک بہت عجیب بات یہ ہے کہ بعض اوقات جب آپ کسی سے ملتے ہیں، کوئی بات کرتے ہیں یا جب کوئی واقعہ رونما ہو رہا ہوتا ہے تو آپ کو لگتاہے کہ جیسے یہ واقعہ پہلے بھی رونما ہو چکا ہے۔ یہ خاص لمحہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔ یہیں، اسی جگہ آپ بیٹھے ہوئے تھے۔ سامنے موجود شخص یہی بات کر رہا تھا اور آپ کو اسی طرح ہنسی آ رہی تھی۔ انسان کی یادداشت اس لمحے کو دماغ میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہے لیکن پھر ناکام رہتی ہے۔ سائنس یہ کہتی ہے کہ ان گنت متوازی کائناتیں موجود ہیں اور وہاں آپ بھی موجود ہو سکتے ہیں۔ یہ لمحہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان بے بسی محسوس کرتا ہے۔ کوئی چیز جیسے اسے یاد آتے آتے رک جاتی ہے۔ اس پر ایک سائنس فکشن فلم Triangle یاد آتی ہے۔ ایک خاتون وقت کے سمندر میں اس طرح سے پھنس جاتی ہے کہ وہ بیک وقت حال اور مستقبل کی مختلف Dimensions میں موجود ہوتی ہے۔ پروفیسر احمد رفیق اختر نے کہا تھا:
کوئی ایسا پائندہ نشان کیوں نہ بنا جائوں میں یہاں
کہ پھر کبھی آئوں تو پہچان سکوں
یہاں پر میں لیو نارڈو ڈی کیپریوکی فلم Shutter Island کا ذکر بھی کرتا چلوں۔ گوکہ یہ سائنس فکشن فلم نہیں ہے لیکن یہ ان فلموں میں سے ایک ہے، جس کے اختتام پر انسانی عقل کو ایک قلابازی لگانا پڑتی ہے اور یہ قلا بازی انسان کو ایک طویل عرصے تک یاد رہتی ہے۔
قرآن کریم کی ایک آیت سے بعض مفسرین نے یہ اخذ کیا ہے کہ خدا نے سات کائناتیں پیدا کی ہیں۔ ہر کائنات میں ایک زمین ایسی ہے، جہاں شریعت نازل ہوئی ہے۔ پروفیسر احمد رفیق اختر نے اس آیت کی نشاندہی کی: اللہ وہ ہے، جس نے سات آسمان بنائے اور اتنی ہی زمینیں۔ ان کے درمیان اس کا حکم اترتا ہے۔ (یہ اس لیے بتایا جا رہا ہے ) تاکہ تم جان لو کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے اور اللہ کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ (سورۃ طلاق: 12) بعض مفسرین نے اس سے یہ مراد لیا ہے کہ ہر آسمان میں ایک زمین ایسی ہے، جہاں شریعت نازل ہوتی ہے۔ پروفیسر احمد رفیق اختر بتاتے ہیں کہ شروع شروع میں جب مغربی سائنسدانوں سے کبھی بات ہوتی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ ہمارے پاس ایک سے زیادہ کائناتوں کا کوئی تصور موجود نہیں۔ پھر جب متوازی کائناتوں کا تصور آیا تو امریکہ سے ایک پروفیسر نے خصوصی طور پر ان سے رابطہ کرکے اس کے بارے میں بتایا۔ پھر ایک دوسری جگہ آتا ہے کہ آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں سے زینت دی۔ مراد یہ ہے کہ جہاں جہاں تک آپ کو ستارے چمکتے ہوئے نظر آئیںگے، وہ آسمانِ دنیا ہے۔ پہلا آسمان ہے۔ پہلی کائنات ہے۔
اسی طرح ایک اور حیران کن چیز یہ ہے کہ زندگی میں جب بعض لوگوں سے آپ پہلی دفعہ ملتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ صدیوں کی آشنائی ہے۔ پہلی دفعہ میں ہی آپ ان سے بے تکلف ہو جاتے ہیں۔ بار بار ان سے ملنے لگتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، پہلی ملاقات ہی میں آپ کا ذہن ان سے خبردار رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ انسان ایک دم چوکس ہو جاتا ہے، جیسے سامنے کوئی دشمن کھڑا ہو۔ پہلی ملاقات ہی انتہائی تلخ ثابت ہوتی ہے۔ ہمیشہ کی دشمنی کی بنیاد پڑ جاتی ہے۔ یہ پرانی دوستی اور پرانی دشمنی جب اس شخص کو پہلی دفعہ دیکھ کر بیدار ہوتی ہے، تب بھی ذہن کچھ یاد کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ناکام رہتا ہے۔
ایک بات تو خدا بھی بتاتا ہے کہ انسانی دماغ او روح کا کچھ ڈیٹا ایسا ہے، بظاہر جو بھول چکا ہے لیکن اب بھی وہ کہیں نہ کہیں نقش ہے۔ یومِ الست کا عہد یاد کیجیے۔ خدا نے سب روحوں سے پوچھا تھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا تھا: کیوں نہیں! ایک لکھنے والے کی حیثیت سے مجھے یہ اتفاق ہوا ہے کہ جب بھی آپ خدا، انسان اور شیطان کے بارے میں مضمون لکھیں تو پڑھنے والا جیسے اچھل پڑتا ہے۔ خواہ وہ سیکولر سے سیکولر بندہ کیوں نہ ہو۔ اسے ایک کرنٹ لگتاہے اور ٹھیک ٹھاک زوردار قسم کا۔ ایک خاص جذباتی کیفیت سے ہر شخص گزرتا ہے۔ شیطان کے ساتھ یہ دشمنی اور آدمؑ کے ساتھ یہ تعلق ہمارے دماغوں میں جیسے نقش ہے۔
زندگی پر جب انسان غور کرتاہے تو بعض اوقات خیال آتا ہے کہ دنیا میں اتنی تکلیف (Misery) کیوں ہے؟ آپ ایک کم سن بچے کو زخمی ہو کر مرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ جو خود بال بچے دار ہیں، انہیں اپنی اولاد یاد آ جاتی ہے اور تکلیف سے جیسے انسان تڑپ اٹھتا ہے۔ پھر سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ زندگی کے ساتھ تکلیف تو لازم و ملزوم ہے۔ ہر چیز جو پیدا ہوتی ہے، اسے مرنا ہوتا ہے۔ موت سے زیادہ تکلیف دہ چیز اور کیا ہو گی۔ موت سے پہلے انسان کو اور ہر جاندار کو زندگی میں ان گنت بار بیماری سے گزرنا پڑتا ہے اور بیماری سے زیادہ تکلیف دہ چیز اور کیا ہو گی۔ بیماری کے وقت اگر آپ کو سونے کے برتن میں انتہائی ذائقے دار مشروب پیش کیا جائے یا ہرن کے گوشت کے کباب، آپ ہاتھ مار کر انہیں پرے کر دیں گے۔ جتنی دیر انسان بیمار رہتا ہے، اس کا اخلاق، اس کی اعلیٰ تخیلاتی صلاحیتیں، ہر چیز ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ فرض کریں کہ ایک صاحب ستر سال تک صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔ پھر انہیں ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیاجاتا ہے۔ اب 70 سے 100 سال کی عمر کے تیس سال کا بڑھاپا کیا تکلیف دہ نہیں ہے ؟ وہ انسان جو بھاگ کر دیوار پہ چڑھ جایا کرتا، اب رفع حاجت میں آدھا گھنٹہ لگا دیتا ہے۔ وہ لوگ، جوانی میں جنہوں نے دنیا کو تہہ و بالا کر دیا تھا، ان کا بڑھاپا دیکھ لیں۔ انسانی تاریخ کے عظیم ترین ایتھلیٹ باکسر محمد علی کا بڑھاپا دیکھ لیں۔ جس کا ایک مکّا دشمن کو زمین چٹا دیتا تھا، اسے بولنے اور پانی کا گلاس پکڑنے میں بھی دقت ہوا کرتی۔ کئی عشروں کا بڑھاپا اور بیماری۔ جس نیلسن منڈیلا کی سیاسی جدوجہد نے دنیا ہلا کر رکھ دی تھی، اس کا بڑھاپا اور موت دیکھ لیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ درد (Pain) اور اولاد کی محبت ، یہ دو چیزیں ایسی ہیں ، جو کہ صرف اور صرف زندگی کی حفاظت کے لیے پیدا کی گئی ہیں اور آزمائش کے لیے ورنہ نہ تو کوئی درد ہے اور نہ انسان کو اپنی ذات کے علاوہ کسی سے کوئی محبت ہے۔ درد ہوتا ہے تو انسان علاج کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور آرام کرتا ہے۔ اگر اس درد کی دماغ کو ترسیل روک دی جائے تو بچہ جنتی ہوئی عورت کو تکلیف محسوس نہ ہو۔ اسی طرح اولاد کی محبت نہ ہوتی تو نفس میں اس قدر خود غرضی رکھی گئی ہے کہ انسان اپنی اولاد کو بھوکا مار دیتا۔ آپ دیکھیں گے کہ انتہائی خود غرض ترین لوگ بھی اولاد کی محبت میں بے بس ہو جاتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ اگر تکلیف کا احساس اور اولاد کی محبت پیدا نہ کی جاتی تو جاندار اپنی بقا کی جنگ اس قوت سے نہ لڑتے اور جلد ہی زندگی معدوم (Extinct) ہو جاتی۔ جب یہ محبت اٹھا لی جائے تو بلی اور شیرنی اپنی اولاد کو لات مار کے اپنے علاقے سے باہر نکال دیتی ہیں۔ اسی طرح قیامت کے دن انسان اپنے بہن بھائی، اولاد اور ماں باپ کو پہچاننے سے انکار کر دے گا۔