تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     05-03-2018

سیاست کا قانون

فی الوقت جو ملکی سیاست کی صورتحال ہے‘ وہ نہ کبھی سنی تھی اور نہ ہی دیکھی۔ میاں شہباز شریف اس وقت ملک کی حکمران پارٹی مسلم لیگ (ن) کے قائم مقام صدر اور سرکار کے نمائندے ہیں۔ دوسری طرف میاں نواز شریف ملک کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد ہیں اور گلی کوچوں میں بطور قائدِ حزب اختلاف اپنے بیانیے کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔
اس سے پہلے ایسا تو کئی بار دیکھا کہ باپ اور بیٹا‘ بھائی اور بھائی یا چچا بھتیجا ایک ہی حلقے سے دو مختلف پارٹیوں کی طرف سے امیدوار ہوتے تھے اور اس لحاظ سے بڑے محظوظ ہوتے تھے کہ بہرحال اس حلقے کی اسمبلی میں نمائندگی گھر ہی میں رہے گی‘ لیکن ایسا شاید دنیا کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ حکمران پارٹی کے قائم مقام صدر اور تاحیات قائد‘ جو سگے بھائی ہیں اور بیک وقت قائدِ حزب اقتدار اور قائدِ حزب اختلاف کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ میاں نواز شریف مع خاندان حکومت کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں اور حزبِ اختلاف کا سارا کریڈٹ بھی سمیٹ رہے ہیں۔ میاں نواز شریف نے فی الوقت اپنی ''اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ تقاریر اور بیانیے سے حزب اختلاف کا سارا میدان بھی مار رکھا ہے یعنی حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف‘ دونوں پر مسلم لیگ (ن) چھوٹے اور بڑے بھائی کے ذریعے قابض ہے۔ رہ گیا حقیقی (کاغذی) قائد حزبِ اختلاف‘ سید خورشید شاہ تو وہ روزِ اول سے ہی بطور قائد حزبِ اختلاف اپنی جگہ بنانے اور منوانے میں یکسر ناکام ہو چکا ہے اور اس دوران اصلی اور ''وڈّا‘‘ قائدِ حزبِ اختلاف عمران خان بار بار گھر آباد کرنے کی مصروفیت کے باعث قائد حزبِ اختلاف کے مقام سے پھسل کر حجلہ عروسی میں جا گرا ہے۔ سو میدان خالی تھا۔ اس میدان پر اب میاں نواز شریف قابض ہیں۔
میاں نواز شریف کے بیانات پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ انہیں وزارتِ عظمیٰ اور مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے علیحدہ نہیں کیا گیا‘ بلکہ اصلی مسلم لیگ کو اقتدار سے ہی نکال پھینکا گیا ہے۔ میاں نواز شریف نے ایک دن بیان جاری فرمایا ''ہماری حکومت کے دوران ڈرون حملے بند ہو گئے تھے جبکہ اب دوبارہ شروع ہو گئے ہیں‘‘ یعنی میاں نواز شریف کی حکومت ہی مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی یہ شاہد خاقان عباسی تو غالباً کسی دوسری جماعت کے نمائندے ہیں۔ ساری کی ساری کابینہ یا تو وہی پرانی ہے یا میاں نواز شریف کی تجویز شدہ ہے۔ حتیٰ کہ میاں نواز شریف کا پسندیدہ ترین پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ میاں صاحب کی پارٹی اور حکومت پر گرفت بھی علاوہ دستخط کرنے کی طاقت کے‘ حسبِ سابقہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے چھٹی کے باوجود مسلم لیگ (ن) کے اصلی اور حقیقی قائد بھی ابھی تک وہی ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے قائم مقام صدر میاں شہباز شریف بھی سو فیصد میاں نواز شریف کی اشیرباد کے مرہونِ منت ہیں‘ اور میاں نواز شریف جب چاہیں انہیں اس عارضی مقام سے اٹھا کر جہاں دل کرے پھینک سکتے ہیں‘ لیکن اس ساری طاقت کے باوجود میاں نواز شریف قائدِ حزبِ اختلاف بھی ہیں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ میاں نواز شریف سپریم کورٹ سے بطور وزیر اعظم نااہلی اور پھر مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے چھٹی کے بعد دو آتشہ ہو گئے ہیں اور اب اقتدار اور اختلاف کی دونوں طاقتیں ان میں یکجا ہو چکی ہیں۔ وہ ان دنوں ''چپڑی اور دو دو‘‘ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بارہا یہ فرما چکے ہیں کہ ان کے وزیر اعظم اب بھی میاں نواز شریف ہیں۔ انہیں اس بات کا دل میں یقینا خوف ہو گا کہ ان کا یہ بیان توہینِ عدالت کے زمرے میں بھی آ سکتا ہے‘ مگر وہ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے یہ ڈھائی دن توہینِ عدالت کے خوف کے باوجود میاں نواز شریف کے دستِ شفقت تلے گزارنا چاہتے ہیں۔ انہیں عدالتِ عظمیٰ سے زیادہ میاں نواز شریف کی ناراضی کا خوف رہتا ہے۔ عدالت انہیں وزارتِ عظمیٰ سے ہٹا تو سکتی ہے مگر وزارتِ عظمیٰ عطا نہیں کر سکتی۔ یہ طاقت فی الحال صرف اور صرف میاں نواز شریف کے پاس ہے۔ کیا مزیدار صورتحال ہے؟ حکومت ان کی پارٹی کے پاس ہے۔ پارٹی ان کی جیب میں ہے۔ موجودہ وزیر اعظم ان کے اشارے کا منتظر اور جنبشِ چشم کا مرہونِ منت ہے۔ ساری پارٹی ان کی قیادت تلے متحد ہے۔ سارا طبلچی بریگیڈ اب بھی انہیں کا طبلہ بجانے میں مصروف ہے۔ ان کے بیانیے سے اختلاف کرنے والے کے لیے پارٹی میں رتی برابر جگہ نہیں (چوہدری نثار کا انجام سب کے سامنے ہے) موجودہ پارٹی صدر ان سے سرکشی کا سوچ بھی نہیں سکتے اور اس ساری طاقت کے باوجود وہ یہ ''چورن‘‘ بیچنے میں مکمل کامیاب ہیں کہ ''ان کی‘‘ حکومت ختم کر دی گئی ہے۔ اگر تو حکومت دیکھی جائے تو انہی کی ہے؛ تاہم یہ بات ضرور ہے کہ ان کی ''بادشاہت‘‘ ختم کر دی گئی ہے۔ جمہوری نظام کے حوالے سے حکمران مسلم لیگ (ن) ہی ہے‘ ہاں شہنشاہِ معظم جناب میاں نواز شریف صاحب کو تخت سے ضرور اتار دیا گیا ہے۔ 
میاں نواز شریف آخر حزبِ اختلاف کی قیادت پر کیسے براجمان ہو گئے؟ اس میں ان کی کسی خوبی سے زیادہ ان کے مدِ مقابل حزبِ اختلاف والی نااہلی اور نالائقی کا زیادہ دخل ہے۔ عمران خان نے الیکشن 2013ء میں کرپشن کے خلاف نعرہ لگایا اور اسے مقبولیت ملی۔ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے سامنے آئی‘ اور اس نے حکومت بنا لی۔ الیکشن میں دھاندلی کا نعرہ بھی عمران خان نے اٹھایا۔ چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ ''گو نواز گو‘‘ تک جا پہنچا۔ اس دوران عمران نے پینتیس پنکچروں کی دھول اڑائی‘ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا‘ دھرنے دیئے اور بس۔
اس دوران عمران خان کے ساتھ آنے والے نوجوان‘ جن کی اکثریت پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل تھی‘ اس توقع میں رہے کہ اس سب کچھ کے بعد کچھ نیا سامنے آئے گا‘ اور کچھ نہیں یعنی ''نئے پاکستان‘‘ کی کوئی شکل و صورت اگر نظر نہ بھی آئی تو کم از کم نئے پاکستان بارے کوئی پالیسی‘ کوئی آئوٹ لائن یا منصوبہ بندی کی شکل و صورت تو نظر آئے گی لیکن ایسا کچھ نہ ہو سکا۔ عمران کا گو نواز گو والا نعرہ بالآخر اپنے منطقی انجام کو پہنچا اور میاں نواز شریف وزارتِ عظمیٰ سے فارغ ہو کر گھر پہنچ گئے۔ پھر ان کی مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے بھی چھٹی ہو گئی۔ اب اور کیا کیا جائے؟ عام آدمی کو عموماً اور عمران خان کے سپورٹرز کو خصوصاً یہ سوچنا ہو گا کہ اب عمران خان کو اور کیا چاہیے؟ سیاست میں میاں نواز شریف کے ساتھ جو بدترین ہو سکتا تھا وہ تو ہو گیا۔ گو کہ اس سے میاں نواز شریف کو نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہوا‘ لیکن سوال یہ ہے کہ اب عمران خان کے پاس اور کیا چیز ہے جسے وہ عوام کے سامنے پروگرام کے طور پر پیش کر رہا ہے؟ کچھ بھی نہیں!
اب تک عمران کی ساری سیاست کرپشن اور میاں نواز شریف کے خلاف تھی۔ میاں نواز شریف کے خلاف تو وہ کامیاب ہو گئے لیکن کیا یہ کامیابی ہے؟ میاں نواز شریف کی ناکامی بھلا عمران خان کی کامیابی کیسے ہو سکتی ہے؟ کامیابی ایک مثبت جبکہ ناکامی ایک منفی شے کا نام ہے۔ میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ سے فراغت کا مطلب یہ کب ہے کہ اب عمران خان وزیر اعظم بن جائے گا۔ بھلا میرے عیوب آپ کے محاسن کب بن سکتے ہیں؟
رہ گیا کرپشن کے خلاف عمران خان کا برسوں پرانا مؤقف اور نظریہ‘ تو ایمانداری کی بات ہے اس میں عوام کی دلچسپی بھی تھی اور حمایت بھی۔ لیکن اب عوام اس سے آگے بھی کچھ دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں‘ عمران خان کے پاس کچھ بھی نہیں۔ بالکل کچھ بھی نہیں۔ سوائے فردوس عاشق اعوان‘ نذر محمد گوندل‘ راجہ ریاض اور اسی قبیل کے درجنوں لوگوں کے‘ جن کا نام سنتے ہی کرپشن کا لفظ ذہن پر ہتھوڑے برسانے لگتا ہے۔
اب ایسے میں میاں نواز شریف نے حزبِ اختلاف کے لیڈر کی جگہ پر بھی قبضہ کر لیا ہے تو بھلا حیرت کی کیا بات ہے؟ یہ جگہ تو ان کے لیے باقاعدہ خالی کی گئی تھی اور سیاست میں کبھی جگہ خالی نہیں رہتی۔ سو اب اقتدار اور اپوزیشن ایک ہی شخص کے ہاتھ میں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved