درزی کا خط
پیاری زلیخا، جب سے تم گئی ہو طبیعت بہت اداس اور ہر وقت بدن میں سوئیاں سی چبھتی رہتی ہیں جبکہ میں تمہاری جھاڑیں کھا کھا کر گز کی طرح سیدھا ہوگیا ہوں، بے شک آ کر دیکھ لو، ہر وقت اپنی سہیلیوں میں ہی نہ پھنسی رہا کرو جن کی زبان قینچی کی طرح چلتی ہے جس کی وجہ سے تم بھی زبان دراز ہوتی جا رہی ہو اور نہیں تو کسی دن ناپ دینے کے بہانے ہی آ کر مل جائو ورنہ میرا سارا بدن کچی سلائی کی طرح ادھڑ جائے گا کیونکہ پیار کا یہ دھاگہ سلامت رہنا چاہئے۔ میرے چہرے کی جھریاں بھی ختم ہو چکی ہیں جیسے ان پر استری کی گئی ہو اور اس پھٹے ہوئے دل پر تم ہی ٹانکا لگا سکتی ہو اور محبت کا یہ ٹوٹا ہوا بٹن تم ہی آکر لگا سکتی ہو، اس لئے دیر نہ کرنا اور جلد از جلد آکر ملاقات کا بخیہ لگانا۔
فقط: تمہارا خیاط خاں
پٹواری کا خط
عزیزاز جان صغریٰ بیگم ، بہت سا پیار، ایسا لگتا ہے کہ تم نے میرا خیال بالکل ہی چھوڑ دیا ہے جبکہ میں نے تمہیں فرد ملکیت کی طرح ہمیشہ اپنا سمجھا ہے۔ اگر خود نہیں آسکتیں تو خط ہی لکھ دیا کرو کہ تمہاری یاد میں میرا دل بنجر قدیم ہو کر رہ گیا ہے اور تمہاری ملاقات کی بارش کے بغیر اس کی حالت بیحد خراب ہو چکی ہے کیونکہ یہ بارانی ہے اور ہر وقت تمہارے ابر کرم کا محتاج، ہر فصل کی خسرہ گرداوری ضروری ہوتی ہے اس لئے کوتاہی نہ کرنا، تمہارے بالوں کی پیمائش کو بھی کافی عرصہ ہو چکا ہے، اس لئے ایسا نہ ہو کہ ساری جمعبندی ہی خراب ہو جائے۔ تمہاری جدائی میں سارا پٹوار خانہ ویران پڑا ہے، کل نہ آنا کیونکہ کل میں نے دورے پر جانا ہے، تحصیلدار صاحب بھی ہمراہ ہوں گے۔
فقط: تمہارا اور صرف تمہارا: فرمان علی
وکیل کا خط
مائی ڈیئر رخسانہ، سلام محبت، کل تمہارے پاس میری تیسری پیشی تھی اور ایسا لگتا ہے کہ مجھے تاریخیں ہی دیتی رہو گی اس لئے اب ضروری ہو گیا ہے کہ میری محبت کا فیصلہ سنا ہی دو اور بات بات پر بحث نہ شروع کر دیا کرو کیونکہ بار بار جرح کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا لیکن خدا کیلئے یک طرفہ فیصلہ نہ کرنا اور مجھے بھی اپنی صفائی کا موقع دیا۔ میرا خیال ہے کہ میرے محبت ناموں کی اب تک پوری مِسل بن چکی ہوگی۔ میں تو تم پر پورا پورا دعویٰ رکھتا ہوں اور تمہیں باقاعدہ ایک جج جتنی عزت دیتا ہوں اور کبھی توہین عدالت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ میری راتیں تمہارے بغیر میرے کوٹ کی طرح سیاہ ہیں اور اگر تم نے توبہ نہ کی تو یاد رکھو میں ہڑتال بھی کر سکتا ہوں، اس لئے مجھے کم از سماعت کا موقع تو دو۔
فقط: تمہارا پروانہ، دلیل خاں
شاعر کا خط
جان سے پیاری کاملہ، ڈھیروں پیار، یہ تو تمہیں معلوم ہو چکا ہوگا کہ تمہارے مذاق میں غزلیں لکھ لکھ کر کئی دیوان مکمل کر چکا ہوں، صرف تمہارا قافیہ ملانا باقی ہے جس کا تم موقع ہی نہیں دیتی ہو بلکہ جدائی کی شدت کی وجہ سے کئی شعر بے وزن بھی ہو چکے ہیں کیونکہ تمہاری زمین میں غزل لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ ردیف بھی مشکل ہے اور اسی کی وجہ سے میرا قافیہ بھی تنگ ہے، اس لئے بس نثری غزلیں کہنا شرع کر دی ہیں۔ امید ہے تم اپنے وزن اور بحر کا خیال رکھتی ہوگی۔ تمہاری یاد میں کبھی کبھی سکتہ بھی آجاتا ہے کیونکہ مشاعروں کی مصروفیت بھی رہتی ہے۔ حق توبہ ہے کہ تم میرے لئے غزل مسلسل کی طرح ہو، میں چاہتا ہوں کہ تم مکرر ملتی رہو اور میں تمہیں داد دیتا رہوں، اب آخر میں عرض کیا ہے کہ خدا حافظ۔
فقط: تمہارا پروانہ: بلبل لاہوری
ڈاکٹر کا خط
مائی ڈیئر فرزانہ، کئی دنوں سے تمہارا سخت انتظار ہے کہ تم آئو تو تشخیص کر کے بتائوں کے تمہارے جسم میں محبت کے جراثیم کم ہیں یا زیادہ، مجھے تو عشق کا ٹیگ لگ ہی چکا ہے اور جسم سے ہر وقت ٹنکچر کی بھینی بھینی خوشبو آتی رہتی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ تم آنے میں تاخیر کر دو اور دل کا دورہ پڑنے سے مجھے کوئی جعلی سٹنٹ لگوانا پڑے۔ میں اپنی سٹیتھو سکوپ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ میرا عشق صادق ہے اور محبت کا ٹمپریچر بہت عروج پر ہے اور تمہاری جدائی کا بلڈ پریشر بھی ہائی رہتا ہے۔ کم از کم کسی دن آکر میرے جذبات کی مرہم پٹی ہی کر جائو، محبت میں چونکہ مٹھاس بہت ہوتی ہے اس لئے مجھے ذیابیطس کی شکایت بھی رہنے لگی ہے۔ تمہاری جدائی میں کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپریشن کے بعد پیٹ میں تولیہ بھول گئے ہوں۔ تمہاری ملاقات کی بروقت خوراک ملتی رہے تو افاقہ رہتا ہے۔
فقط: تمہارا دلدادہ ڈاکٹر مریض بیگ
اور اب آخر میں حسب معمول خانہ پُری کیلئے یہ تازہ غزل:
یہ جیسے موت یہاں زندگی کے پیچھے ہے
کوئی کسی کے تو کوئی کسی کے پیچھے ہے
تجھے خبر نہیں میں ہی بتائوں گا تجھ کو
وہ راز جو تری جادو گری کے پیچھے ہے
تجھے سنائی تو دے سکتی ہے جوتُو چاہے
وہ التجا جو میری خاموشی کے پیچھے ہے
میں کیا کروں یہ دل بے خبر زمانوں سے
جو ہے بھی یا کہ نہیں ہے اسی کے پیچھے ہے
چھپا رکھا ہے جسے ہم نے ایک دنیا سے
وہ گریہ ہے جو ہماری ہنسی کے پیچھے ہے
اسی کے پاس پہنچنے کے انتظار میں ہوں
وہ روشنی جو میری تیرگی کے پیچھے ہے
کسی بلا کی یہاں پر نہیں ہے گنجائش
کہ آدمی ہی یہاں آدمی کے پیچھے ہے
یہ آ ہی لے گی کسی دن اسے کہ آخرِ کار
دورغ گوئی مری راستی کے پیچھے ہے
ظفرؔ کو آگے لگایا ہوا ہے دنیا نے
مگر یہ ہے کہ سراسر تجھی کے پیچھے ہے
آج کا مقطع
کبھی مل ہی جائوں گا اپنے آپ کو‘ اے ظفرؔ
میں اسی لیے کوئی جُستجو نہیں کر رہا