تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     05-03-2018

مقامِ صحابہؓ

دین کا مدار نقل اور روایت پر ہے اور روایت کے مستند اور معتبر ہونے کے لئے ثقہ شہادت ضروری ہے۔ لہٰذا پورے دین کے قطعی اور لائقِ اعتبار ہونے کا مدار صحابۂ کرام کی ثقاہت ، عدالت ، صداقت اور دیانت وامانت پر ہے۔ یہ پاکیزہ نفوس دین کی پوری عمارت کے معتبر ومستند ہونے کے لئے خشتِ اول کادرجہ رکھتے ہیں۔صحابی اسے کہتے ہیں جس نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کی حیاتِ ظاہری میں ایمان کی حالت میںدیکھا ہو اور ایمان پرہی اُس کا خاتمہ ہواہو، خواہ رسول اللہ ﷺ کا یہ دیدار اور رفاقت تھوڑے وقت کے لئے ہی کیوں نہ ہو :
ہر کوئی فدا ہے بِن دیکھے ، دیدار کا عالَم کیا ہوگا
جب حُسن تھا اُن کا جلوہ نُما، انوار کا عالَم کیا ہوگا
پس آج اگر کوئی یہ کہے کہ میں نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی ہے،سو اگر وہ سچا ہے تو یہ بہت بڑی سعادت ہے اور اگر وہ جھوٹا ہے، تواس کے لئے آپ ﷺ کی یہ وعیدبڑی سخت ہے:''جس نے مجھے خواب میں دیکھا، تو اس نے درحقیقت مجھ ہی کو دیکھا، کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتااور جس نے قصداً مجھ پر جھوٹ بولا،تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے،(صحیح البخاری: 110)‘‘۔ لیکن اگر کسی نے واقعی خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی ہو، تب بھی وہ صحابی کہلانے کا حقدار نہیں ہے ۔
صحابۂ کرام کا یہ اعزاز وافتخار ہے کہ انہوں نے جاگتی آنکھوں سے رُخِ مصطفی ﷺ کا دیدار کیا، آپ کو جَلوت وخَلوت میں ، سوتے جاگتے ، بزم میں رَزم میں ، جلال و جمال کی کیفیات میں ، الغرض ہر حال اور ہر انداز میں دیکھا۔ انہوںنے آپ پر وحیِ ربّانی اترنے کی کیفیات کو دیکھا، جبریلِ امین کو لباسِ بشری میں آپ ﷺ کے سامنے زانوئے تلمُّذ تہہ کرکے سوالات کرتے اور جوابات کی تصدیق کرتے ہوئے دیکھا۔یہ وہ مقدَّس ومبارَک نفوس تھے، جن کے دل ودماغ اور ظاہر وباطن کا تزکیہ رسول اللہ ﷺ نے خود فرمایا تھا اور آپ ﷺ ہی اُن کے براہِ راست مُرَبِّی تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اس حقیقت کو البقرہ :129میں بصورتِ دعائے ابراہیمی ، آلِ عمران:164میں اہلِ ایمان پر اپنے امتنان واحسان کے طور پر، البقرہ:151اور الجمعہ:2میں امرِواقعہ کے طور پر مقاصدِ بعثتِ رسالتِ کو بیان کرتے ہوئے ذکر فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ان (صحابہ) کو آیاتِ الٰہیہ پڑھ کر سناتے ہیں، اُن کے (باطن کا) تزکیہ کرتے ہیں اورا نہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ 
رسول اللہﷺ نے اپنے اصحاب کاایسا بے مثال اور باکمال تزکیہ فرمایا کہ وہ سب اِن آیاتِ الٰہی کا کامل مصداق بن گئے:(۱):''اللہ نے کسی آدمی کے لئے اس کے پہلو میں دودل نہیں بنائے، (الاحزاب:4)‘‘،یعنی کسی دل میں اللہ تعالیٰ اور شیطان کی محبت جمع نہیں ہوسکتی۔ (۲):''اور مومنوں میں سے کچھ مردانِ (باوفا) ایسے ہیں کہ انہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کوسچا کردکھایا، سواُن میں سے بعض نے (شہید ہوکر) اپنی نذرِ (وفا) پوری کردی اوربعض اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں،(الاحزاب:23)‘‘۔ قرآن ِکریم میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کا ذکرمقامِ مدح میں نہایت حسین انداز میں فرمایا:''محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو اُن کے اصحاب ہیں ، وہ کفار پر بہت سخت ہیں ، ایک دوسرے کے لیے نرم دل ہیں، (اے مخاطَب!)توانہیں(بارگاہِ الٰہی میں) رکوع کرتے (اور) سجدہ کرتے ہوئے دیکھتاہے، وہ (صرف) اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گاررہتے ہیں۔اُن کی نشانی اُن کے چہروں پر سجدوں کا نشان(یعنی نورانیت) ہے، اُن کی یہ صفات تورات میں (بیان ہوئی) ہیں اور انجیل میں اُن کی صفت یہ (بیان ہوئی) ہے : جیسے ایک کھیتی ہو، جس نے اپنی باریک کونپل نکالی، پھر اسے طاقت دی ، پھر وہ موٹی ہوگئی، پھر اپنے تنے پر(مضبوطی کے ساتھ) سیدھی کھڑی ہوگئی،(یہ منظر) کاشت کاروں کو بھلا لگا تاکہ اس سے کافروں کا دل جلے ، جو ایمان لائے اورنیک کام کرتے رہے،اللہ نے اُن سے بخشش اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے،(الفتح:29)‘‘۔ 
یہاں کھیتی سے مراد صحابۂ کرام کے قلوب ہیں، بیج سے مراد ایمان ہے اور کاشت کار سے مراد رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے ،آپ ﷺ نے اپنی دعوتِ حق کا ثمر بہت جلد صحابۂ کرام کی وفاواخلاص، ورع وتقویٰ ، صداقت وعدالت، دیانت وامانت اور عزیمت واستقامت کی صورت میں دیکھا اور روحانی وقلبی مسرت سے سرشار ہوئے۔کفر کے معنی چھپانے کے ہیں اور کافر کو کافر اس لیے کہتے ہیں کہ وہ حق کو چھپاتا ہے ، سورۂ الحدید:۲۰ میں کاشتکار کے لیے ''کفار ‘‘کا لفظ آیا ہے ،کیونکہ کاشتکار بھی بیج کو زمین میں چھپاتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے اُن کے بارے میں قطعی فیصلہ فرما یا :(۱)''اور مہاجرین اورانصار میں سے (ایمان لانے میں) سبقت (اور) پہل کرنے والے اور وہ جنہوں نے نیکی میں ان کی پیروی کی، اللہ اُن(سب) سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے اور (اللہ نے) ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کررکھی ہیں ، جن کے نیچے دریا جاری ہیں ، وہ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے،(التوبہ:100)‘‘۔ (۲):''یقینا اللہ مومنوں سے اُس وقت راضی ہوگیا،جب وہ(حدیبیہ میں) درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کررہے تھے، (الفتح:18)‘‘۔ عربی زبان اور عہدِ حاضر کی قانونی دستاویزات میں عقود اور انشاء ات( جیسے بیع وشراء نکاح وطلاق وغیرہ ) کو ماضی کے صیغے سے تعبیر کیا جاتا ہے،یعنی اگر چہ یہ عقد یا ارادی عمل اب وقوع پذیر ہورہا ہے، لیکن یہ اتنایقینی امر ہے کہ کہ گویا پہلے ہی واقع ہوچکا ہے ۔ اصحابِ رسول کواللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کی قطعی اور یقینی بشارت دی اور بتایا کہ اُن کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ پہلے ہی طے ہوچکا ہے کہ اللہ اُن سے راضی ہے اوروہ اللہ سے راضی ہیں ،پس جن کا معاملہ اللہ سے طے ہوچکا ہو،اُن کے بارے میں کوئی نازیبابات کرنا یا اُن کے ایمان پر کسی بھی درجے میں شک ظاہر کرنا ،عملاً قرآنِ کریم کی شہادت کا انکار ہے ۔
انبیائے کرام و رُسلِ عِظام علیہم السلام کی طرح صحابۂ کرام میں بھی باہم درجہ بندی اور ایک دوسرے پر فضیلت ایک مسلّمہ امر ہے، چنانچہ سب سے اعلیٰ درجہ ابتدائی مرحلے میں اسلام قبول کرنے والوں کا ہے، پھر اُن کا جو اُس وقت ایمان لائے جب مسلمانوں کی کل تعداد چالیس تھی ، پھراُن کا جنہوں نے راہِ خدا میں ہجرت کا شرف حاصل کیااور اُن میں سے بعض ''ذوالہجرتین‘‘ ہیں ۔ انصار میں ترتیبِ افضلیت میں مقدم وہ ہیں جو ''بیعتِ عقبۂ اولیٰ‘‘ اور ''بیعت عقبۂ ثانیہ‘‘ میں شریک ہوئے ، پھر وہ جو بدر میں شریک ہوئے ، پھروہ جنہیں دونوں قبلوں (بیت المقدس وکعبۃ اللہ) کی طرف نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، پھر وہ جو صلح حدیبیہ میں شریک رہے، پھروہ جو فتحِ مکہ میں شامل تھے، پھر وہ جوفتح مکہ کے بعد اسلام لائے ، جنہیں ''طُلَقائ‘‘ کہا جاتاہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے صحابۂ کرام کے درمیان درجہ بندی یعنی فضیلت کوخود بیان فرمایا ہے: ''تم میں سے کوئی ان کے برابر نہیں ہوسکتا، جنہوں نے فتحِ (مکہ) سے پہلے (اللہ کی راہ میں) مال خرچ کیا اور جہاد کیا ، یہ لوگ اُن سے درجے میں بڑے ہیں ، جنہوں نے فتحِ( مکہ) کے بعد (اللہ کی راہ ) میں مال خرچ کیا اور جہاد کیا، (مگر خبردار!) اللہ نے ان سب سے جنت کا وعدہ فرمایا ہے،(الحدید:10)‘‘۔
لہٰذا صحابۂ کرام کے مابین بعض شعبوں میں یا بحیثیتِ مجموعی فضیلت کا بیان کرنا تو جائز ہے، مگر کسی بھی صحابی کی تنقیص واہانت کسی بھی درجے میں جائزنہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''خبردار! میرے اصحاب کے بارے میںاللہ سے ڈرتے رہنا، میرے بعد انہیں (اپنی ملامت کا) ہدف نہ بنانا ، سو جس نے اُن سے محبت کی، تو میری محبت کے سبب کی اور جس نے اُن سے بغض رکھا تو مجھ سے بغض کے سبب ایسا کیا اور جس نے انہیں اذیت پہنچائی تو اُس نے (درحقیقت) مجھے اذیت پہنچائی اور جس نے مجھے اذیت پہنچائی تو اس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت پہنچائی اور جس نے اللہ کو اذیت دی تو وہ یقینا اُسے اپنے (عذاب کی) گرفت میں لے گا،(سنن ترمذی:3862)‘‘۔
امت میں صحابۂ کرام کی عصمت کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، وہ سب بشر تھے ، معصوم عن الخطاء نہیں تھے، لیکن رسول اللہ ﷺ کے نورِ نبوت کے فیضان اور آپ کی تربیت کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں گناہوں سے محفوظ رہنے کی سعادت عطا فرمائی ۔ ایسی متعدد مثالیں احادیثِ مبارَکہ میں موجود ہیں اگر بشری تقاضے کے تحت اُن میں سے چند افراد سے خطا کا صدور بھی ہوا، تواللہ عزّوجلّ کے کرم سے وہ جلد اِس پر متنبّہ ہو گئے، خوف وخشیتِ الٰہی کا اُن پر غلبہ ہوا اورانہیں توبۂ مقبولہ کی سعادت نصیب ہوئی اور وہ گناہوں کے میل سے پاک ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ 
''ایک طویل روایت میں ہے کہ ایک صحابی حاطب بن ابی بلتعہ سے غلطی ہوگئی ،حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اُن پر غصہ آیا اور عرض کی: یارسول اللہ! اس نے اللہ ،اس کے رسول اور اہلِ ایمان سے خیانت کی ہے،مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس کی گردن اڑادوں، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا یہ شخص اہلِ بدر سے نہیں ہے اور تمہیں کیا خبر! اللہ تعالیٰ اہلِ بدر کی جانب متوجہ ہوا اور فرمایا: تم جو چاہو کرو،میں نے تمہارے لیے جنت واجب کردی ہے ، پس حضرت عمر کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ ہی زیادہ بہتر جاننے والے ہیں، (صحیح البخاری: 6939)‘‘۔اس حدیث کے تحت محدثین نے لکھا ہے :کسی بدری صحابی سے خدانخواستہ کوئی ایسی بشری خطا سرزد ہوگئی ہو ،جس پر حدِ شرعی جاری ہوتی ہے ،تو دنیاوی احکام کے اعتبار سے اس پر حد نافذ ہوگی ،لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ انہیں مغفرت ونجات سے نوازے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved