اگلے دن ایک مقامی انگریزی روزنامے میں چھپنے والی ایک عجیب کہانی نے میری توجہ مرکوز کرا لی۔ ایسا لگتا تھا کہ سری لنکا کی مسلم کونسل اپنے مطالبے،کہ گوشت کو حلا ل ہونے کی تصدیق کے بعد ہی فروخت کیا جائے ، سے دستبردار ہو گئی ہے۔ یہ سری لنکا کے بدھ بنیاد پرستوںکے لیے ایک بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ اُنھوںنے گزشتہ کئی سالوںسے مسلمانوںکے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے۔ اُن کی طرف سے مساجد پر حملے کیے گئے، نمازیوںکو تنگ کیا گیا اور مسلمانوں کو عام طور پر ریاست مخالف عناصر خیال کیا جاتا ہے۔ ’’دی مسلم تامل نیشنل الائنس‘‘ نے مجبور ہو کر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھ کر اس شرانگیز مہم کے خلاف تحفظ کی اپیل کی ہے ۔ مسلمانوںکے خلاف سب سے متحرک گروہ ’’بودو بیلا سینا‘‘ یا بدھا فورس ہے۔ اس کی قیادت قوم پرست راہبوں کے ہاتھ ہے۔ اس کا نعرہ ہے کہ ’’سری لنکابدھ مذہب کے پیروکاروں کا ہے‘‘۔ گزشتہ کچھ عرصے سے بدھ مت کے راہبوں نے اپنے قدیم نظریات کے احیاء کے لیے مقامی سیاست میں فعال کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ سب سے پہلے وہ تامل بغاوت کے مقابلے میں راجپاکسی حکومت کی مدد کا عزم لے کر میدان میں آئے۔ اُنھوںنے سری لنکن حکومت کو جنگ بندی کے عوض تامل ٹائیگرز کو وسیع تر خود مختاری دینے کی تجویز پر عمل کرنے سے روک دیا۔ مزید سیاسی دبائو بڑھانے کے لیے اُنھوںنے ایک سیاسی جماعت تشکیل دی اور کافی نشستیں جیتتے ہوئے حکومتی اتحاد کا حصہ بننے میں کامیاب ہو گئے۔ جب وزیر اعظم مہندہ راجپاکسی کے بھائی ، گوتابیا (Gotabaya)، جو سیکرٹری دفاع ہے، کو فوج میں تازہ بھرتی کے لیے نوجوان لڑکے تلاش کرنے میں دشوار ی کا سامنا تھا تو بدھ راہبوںنے ہزاروں بدھ لڑکوں کو فوج میں بھرتی ہونے کے لیے اُبھارا۔ ان لڑکوں کے ذہن میں یہ بات بٹھائی گئی تھی کہ چونکہ وہ اپنے مذہب ، بدھ مت ، کے لیے لڑ رہے ہیں، اس لیے جنگ میں لڑنے اور قتل کرنے سے اُن کے عقیدے پر حرف نہیں آئے گا۔ خون میں ڈوبی ہوئی سری لنکن خانہ جنگی اپنی تمام تر دہشت کے ساتھ چار سال پہلے ختم ہو چکی ہے لیکن اس کے واقعات اور وجوہات پرتحقیق ہو رہی ہے۔سری لنکن حکومت کی طرف سے تامل جنگجوئوں کے خاتمے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات پر بیرونی دنیا میں تنقید بھی کی جارہی ہے۔ جینوا میں جاری ’’یواین ہیومن رائٹس کمیشن ‘‘ کے اجلاس میں امریکہ کی طرف سے پیش کی جانے والی قرارداد کی روشنی میں اس جنگ کے آخری ایّام میں ہزاروں تامل جنگجوئوں کے بارے میں عالمی اداروں کی مدد سے تحقیق کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اس پس ِ منظر میں یہ بات بہت تعجب خیز ہے کہ حکومت مسلمانوں کے خلاف چلنے والی مہم کو روکنے کی کوئی کوشش نہیںکررہی ہے۔ اگر اس مہم کا دائرہ پھیلتا گیا تو یہ ایک بُری خبر ہو گی۔ سری لنکا میں مسلمانوں کی آبادی کا ارتکاز تین مقامات پر ہے۔ گیل، کولمبو اور شمال مشرقی ساحلی علاقے۔ شہروں میں رہنے والے مسلمان تو نسبتاً خوشحال ہیں لیکن ساحلی علاقوں میں رہنے والے زیادہ ماہی گیر ہیں۔ اس سے پہلے نوّے کی دہائی میں تامل ٹائیگرز نے بھی شمالی علاقوںمیں بسنے والے مسلمانوںکو نسلی بنیاد پر نشانہ بنایا تھا۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں افرادکو اپنے گھر بار چھوڑ کر جنوب کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد جب اُنھوںنے اپنے گھروں اور کھیتوں میں واپس آنا چاہا تو اُن کو سنہالی کسانوں، جنھوںنے اُن کی زمینوں پر قبضہ کر لیا تھا، کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ زیادہ تر بے گھر مسلمان کولمبو کے آس پاس آبادیوںمیں بس گئے۔ ان کی اولاد اب اپنی آبائی جائیداد سے دور، اس شہر کو ہی اپنا گھر سمجھتی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف دشمنی کی ایک وجہ رشک کے جذبات بھی ہیں۔ شہری علاقوں میں رہائش پذیر مسلمان گزشتہ کئی برسوں سے خوشحالی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہاںکی پرکشش قیمتی پتھروں کی مارکیٹ میں بڑا حصہ انہی کا ہے۔ کچھ مسلمان جائیداد اور تعمیر ات کے کام میں دولت کما رہے ہیں۔ قانون کے میدان میں بھی بہت سے نامی گرامی مسلمان وکلاء موجود ہیں، تاہم بہت کم نے سیاسی میدان میں قدم رکھا ہے ، اس لیے وہ حکومتی عہدوں سے دور ہیں۔ گیل اور مترا میں رہنے والے بہت سے مسلمان خاندان اس بات پر ناز کرتے ہیںکہ وہ اُن عربوں کی اولاد ہیں جو کئی سو سال پہلے سری لنکا میں آباد ہوئے تھے۔ کچھ مسلمان ہندوستان سے بھی آئے ہیں۔ کولمبو میں تھوڑی تعداد میں بوہرہ خاندان کے لوگ بھی ہیں جو نہایت خوشحال ہیں۔ ساحلوں کے نزدیک رہنے والے زیادہ تر ملایا سے آئے ہیں۔اس طرح سری لنکا میں رہنے والے مسلمان مختلف قومیتوںسے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی طرز ِ زندگی میں ایک قدر مشترک ہے۔ ان کا اپنے غیر مسلم ہمسایوں سے میل جول نہ ہونے کے برابر ہے۔ صدیوںسے اس معاشرے میںرہنے کے باوجود وہ اس میں ضم نہیں ہوپائے ہیں۔ اگر کہیںکوئی پیش رفت ہے بھی تو بہت آہستہ ۔ زیادہ تر اقلیتوںکی طرح، ان کا لباس اور خوراک دوسروں سے جدا ہے۔ زیادہ تر مسلم خواتین حجاب کرتی ہیں جبکہ مسلمان مرد ٹوپی پہنتے ہیں اور داڑھی رکھتے ہیں۔ اگرچہ سری لنکن مسلمانوںکی محنت اور بااصول کاروبار کے مقامی غیر مسلم باشندے بھی معترف ہیں لیکن ان پر ایک الزام تواتر سے لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے گرد نواح کو صاف نہیں رکھتے اور یہ کہ وہ اکثریتی آباد ی کے ساتھ گھل مل کر زندگی بسر نہیںکرتے۔ سری لنکا کی خانہ جنگی جس طرح سے ختم ہوئی ہے اُس نے ایک مفروضے کو بے نقاب کر دیا ہے کہ بدھ مت کے پیروکار پرامن لوگ ہوتے ہیں۔ اس کو دیکھتے ہوئے اب اُن کی طرف سے مسلم مخالف مہم کے حوالے سے خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ سری لنکا کی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیںکہ اگر حکومت نے مداخلت نہ کی تو بہت خون خرابہ ہوگا۔ تاہم انتخابی سیاست کی ایک ’’خامی‘‘ یہاں بھی آڑے آرہی ہے۔ بدھ مت کے پیروکاروں کا ووٹ بنک مسلم ووٹ بنک سے زیادہ ہے۔ بہت سے لوگ اس بات پر حیران ، بلکہ پریشان ، ہیں کہ مسلمانوںکے خلاف جذبات اتنی جلدی کیسے پروان چڑھے؟2009ء میں ختم ہونے والی خانہ جنگی کے بعد امیدپیدا ہوئی تھی کہ اب معاشرے کا امن بحال ہو گا لیکن سری لنکن حکومت نے شکست خوردہ تامل آبادی کی دلجوئی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس سے معاشرے میں بے چینی پیدا ہو رہی ہے۔ ایک تھیوری یہ کہتی ہے کہ فاتح سنہالی باشندے تامل گوریلوں کے خاتمے کے بعد اب اپنی قوم پرستی کے جذبات کے اظہار کے لیے نئے ہدف کی تلاش میں ہیں۔ کچھ کی نظر امیر مسلمانوں کے اثاثوں پر بھی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ سری لنکن حکومت مسلمانوںکے خلاف چلائی جانے والی مہم کو روکے گی تاکہ صورت ِ حال قابوسے باہر نہ ہونے پائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved