میرا بیانیہ ہر پاکستانی کے دل میں اُتر چکا ہے : نوازشریف
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''میرا بیانیہ ہر پاکستانی کے دل میں اُتر چکا ہے‘‘ اور یہ اتنا زوردار ہے کہ خدانخواستہ دل کے عارضے کا باعث بھی بن سکتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ وہ احتیاطاً ایک ایک سٹنٹ کا پیشگی انتظام کر لیں جو اگرچہ جعلی ہو گا جس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ میرا بیانیہ بھی کوئی کم جعلی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''فیصلہ کن جنگ لڑنے کا وقت آ چکا ہے‘‘ اور اگر یہ جنگ ریفرنسز کے فیصلوں سے پہلے نہ لڑی گئی تو پھر کوئی فائدہ نہیں ہو گا کہ اسی لیے میں نے عوام سے علم بغاوت بلند کرنے کا کہہ دیا ہے جس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کئی برس پہلے میں نے عدلیہ کے خلاف جو علم بغاوت بلند کیا تھا‘ کسی نے میرا کیا بگاڑ لیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''ووٹ کی عزت کی خاطر پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘ اگرچہ پچھلے چار پانچ برسوں میں ووٹ کی عزت جو میں نے کی ہے اس کے بعد اس میں کسی اورکی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ جب میں ٹھونک بجا کر یہ کہہ چکا ہوں کہ اگر میرے اثاثے میرے وسائل سے زیادہ ہیں تو کسی کو اس سے کیا‘ اور یہ کہ کرپشن کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی‘ اس لیے میرے خلاف یہ فیصلے ملکی ترقی روکنے کے لیے کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''یقین ہو گیا ہے کہ قوم بیدار ہو چکی ہے‘‘ اور یہ ساری شرارت عمران خان کی ہے جس نے کرپشن کے خلاف شور مچا مچا کر لوگوں کے کانوں کے پردے ہی پھاڑ دیئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''70 سال سے لگی بیماری ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے‘‘ اور میرے منطقی انجام تک پہنچتے ہی یہ بیماری اپنے آپ ہی ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ '' نوازشریف کے دستخط ایٹمی پروگرام‘ موٹروے ہوائی اڈوں‘ بجلی گھروں پر ہیں‘ انہیں بھی بند کر دو‘‘ اور اگر اس دھواں دھار خدمت کا پہلے پتا چل جاتا تو شاید ان دستخطوں کی نوبت ہی نہ آتی لیکن شامت اعمال سے برخوردار حسین نواز نے الحمدللہ کہہ کر سارا کام ہی خراب کر دیا اور مجھے یہاں پھنسا کر خود لندن میں عیش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''5 افراد نے کروڑوں ووٹوں کو پائوں تلے روند دیا‘‘ کیونکہ وہ کروڑوں ووٹ مجھے وہی کام کرنے کے لیے ملے تھے جو میں دن رات کرتا رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ ملک کسی اکیلے آدمی کا نہیں ہے‘‘ صرف میرا ہے کیونکہ میں بھی کوئی اکیلا آدمی نہیں بلکہ مجسم 20 کروڑ عوام میں خود ہی ہوں۔ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''تمام ووٹروں نے سینیٹ میں ہمارے امیدواروں کو ووٹ دیئے ماسوائے اُن ووٹوں کے جو چوہدری سرور لے گیا جس کا مطلب ہے کہ کالی بھیڑیں ہم میں بھی موجود ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ چند ہفتوں ہی میں یہ ساری کی ساری بھیڑیں کالی ہو جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام کو فخر ہونا چاہیے کہ نوازشریف پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے‘‘ اور یہ فخر کم از کم اُس وقت تک ضرور قائم رہنا چاہیے جب تک یہ الزام نیب کورٹ میں ثابت نہیں ہو جاتا اور جس میں اب زیادہ دن باقی نہیں رہ گئے ہیں اور اس کے بعد میرا بیانیہ بھی تھوڑا بہت تبدیل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''میرے خلاف تمام فیصلے انتقام اور غصے میں آ رہے ہیں‘‘ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ میں جلسوں میں جو زبان عدلیہ کے بارے میں بولتا ہوں‘ ان کے فیصلے غصّے میں ہی آنے چاہئیں‘ اور اگر میرے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کی جا رہی تو اس لیے کہ کسی چھوٹے موٹے جُرم میں اندر کرنا نامناسب نہیں ہے کیونکہ وہ ایک ہی بار فیصلہ کر کے ساری کسریں نکال دینا چاہتے ہیں اور مجھے سیاسی شہید ہونے کا موقع نہیں دینا چاہتے اور میں اس چالاکی کو بخوبی سمجھتا ہوں‘ تاہم اپنے دل کی بھڑاس تو نکال ہی رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''کوٹلہ کے عوام جاگ گئے ہیں‘‘ اگرچہ اس طرح تو سارے ملک کے عوام جاگ گئے ہیں لیکن جب عبوری حکومت قائم ہو جائے گی اور مرکز اور صوبے میں حکومت نہیں رہے گی اور وہ سارے پٹواری‘ سکول ٹیچرز‘ کلرک اور نون لیگی ارکان اسمبلی کے ہانکے ہوئے لوگ موجود نہیں ہوں گے تو انہی جاگتے ہوئے لوگوں کو سانپ سونگھ جائے گا بلکہ اس وقت ساری پارٹی بھی تتر بتر ہو چکی ہو گی اور یہی جاگے ہوئے عوام خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''کاغذوں سے نکال دیا‘ عوام کے دلوں سے بھی نکال کر دکھائو‘‘ اگرچہ اس زحمت کی انہیں ضرورت ہی نہیں پڑے گی کیونکہ فیصلے آتے ہی ہر طرف ہُو کا عالم ہو گا اور وزیراعظم کے بیٹے کے ولیمے میں بھی ہمارے خاندان کی طرف سے کوئی اس لیے شریک نہیں ہُوا کہ مجھے اُن کی وفاداری پر بھی یقین نہیں رہا اور لگتا ہے کہ وہ بھی چوہدری نثار اور شہباز شریف کی باتوں میں آ گئے ہیں اور میرا سارا بیانیہ ہی پس پشت ڈال دیا ہے اور اس سازش میں شہبازشریف بھی شامل نظر آتے ہیں جنہیں اسٹیبلشمنٹ کی محبت کا بخار چڑھا ہوا ہے لیکن وہ بھی خاطر جمع رکھیں کہ احد چیمہ نے اپنی جان بچانے کے لیے سارا کچا چٹھا کھول دینا ہے بلکہ کئی اور انکوائریاں بھی شروع ہو گئی ہیں‘ اس لیے انہیں بھی بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اگلے روز کوٹلہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
مجھے لڑتے ہوئے خود سے زمانے ہو گئے ہیں
مرے ہتھیار سب کے سب پرانے ہو گئے ہیں ( جلیل عالی)
ہمیں وہ جو اک دوسرے سے نہیں
محبت سمجھ لو وہی چیز ہے (ادریس بابر)
عشق بیمار‘ شب ہجر کی دُوسری
تیسرا تھا پہر‘ خُودکشی دُوسری
وقت اچھا کوئی اس میں ہے ہی نہیں
مجھ کو یعنی پڑے گی گھڑی دُوسری (عُمیر نجمی)
کیا ہے جو ہو گیا ہوں میں تھوڑا بہت خراب
تھوڑا بہت خراب تو ہونا ہی چاہیے (جواد شیخ)
لکھا ہوا ہوں جہاں بھی‘ مٹا دیا جائوں
میں جس کا قصّہ ہوں اُس کو سُنا دیا جائوں
خاص چیزوں کو عام کرتا ہوں
میں یہی ایک کام کرتا ہوں (طارق اسدؔ)
پُھول کاڑھے پھر ان کو پانی دیا
میں نے تکیے پہ باغبانی کی (امجد نذیر)
...............
آج کا مقطع
ظفرؔ ویسے تو میں بیزار سا پھرتا ہوں سڑکوں پر
مگر پھر بھی کسی شے کی طلبگاری میں رہتا ہوں
...............