تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     06-03-2018

بیماری اور مجبوری

زندگی میں ہر شخص کو بیماری اور مجبوری سے واسطہ پڑتا ہے ۔ جب انسان بیماری سے گزرتا ہے تو اسے کوئی چیز بھی اچھی نہیں لگتی۔ بارش اور ٹھنڈی ہوا ، پھول اور بچے ، پہاڑ، جنگل اور برف زار، کچھ بھی تو نہیں ۔ ہنسی کی کسی بات سے اسے لطف نہیں ملتا۔ اپنے پیاروں کی صورت دیکھ کر قرار نصیب نہیں ہوتا ۔وہ اپنی کسی کامیابی اور کسی کارنامے پر فخر کے قابل نہیں رہ جاتا ۔دولت کے ڈھیر اس کے لیے بیکار ہو تے ہیں ۔ دنیا کی کوئی چیز اسے سکون نہیں بخش سکتی ۔یہ وہ صورتِ حال ہوتی ہے ، جس میںاس بات سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ وہ ارب پتی ہے یا کنگال ۔ بہت سے ایسے دولت مند ہوتے ہیں ، جنہیں لا علاج بیماری سے واسطہ پڑتاہے ۔ ڈاکٹر کہتاہے یہ بیماری ساری عمر آپ کے ساتھ رہے گی ۔ یہ life longہے ۔ آپ کو اس کے ساتھ گزارا کرنا ہے ۔ اس کے ساتھ ایک نارمل زندگی گزارنے کی کوشش کرنی ہے ۔ انسان تلخی سے سوچتا ہے کہ کاش یہ بیماری ڈاکٹر کو لگ جائے اور پھر وہ کہے کہ اب نارمل زندگی گزار کے دکھا ۔ دوسری طرف زندگی کے سنگین حقائق اسے بتاتے ہیں کہ موت تک اب اس بیماری کے ساتھ نباہ تو کرنا ہی ہوگا۔ اب یہ تمہاری مرضی کہ خاموشی سے کرو یا رو پیٹ کر ۔ 
سی ایم ایچ راولپنڈی میں ایک شخص دیکھا۔بمشکل چلنے کی کوشش کرتا۔بہت زور لگا کر بولتا۔ اس کا دل بڑھ گیا تھا، پھیل گیا تھا۔دل کی خون پمپ کرنے کی صلاحیت میں کمی آچکی تھی ۔ جسم کے مختلف حصوں ، پھیپھڑوں ، زبان ، دماغ، ٹانگوں اور معدے ، سب کو خون کم مل رہا تھا ۔ خون کم ملنے سے جسم کی طاقت میں بھی کمی آچکی تھی ۔ ایک چلتی پھرتی لاش۔ پوچھا، ڈاکٹر کیا کہتے ہیں ۔ تلخی سے اس نے جواب دیا ، ڈاکٹر تو کب کے مجھے دفنا چکے۔ اپنی ڈھٹائی کے بل پر زندہ ہوں ۔اس نے بتایا کہ ہر کام ، حتیٰ کہ غسل کرنا بھی ایک بہت مشکل کام (Task)بن چکا ہے ۔ 
سی ایم ایچ ہی میں ایک اور شخص کو بریگیڈئیر اسد قریشی کے کلینک میں دیکھا، جو ایشیا میں ریڑھ کی ہڈی کے سب سے بڑے ماہر سمجھے جاتے ہیں ۔یہ شخص ناقابلِ علاج تھا۔ ایک حادثے میں اس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی ۔ ریڑھ کی ہڈی میں ان تاروں (Nerves)کے گچھے ہوتے ہیں ، جن کے ذریعے دماغ سے جسم کو حرکت کا حکم پہنچتا ہے ۔ انہی تاروں کے ذریعے جلد میں لمس کا احساس دماغ تک پہنچتا ہے ۔ وصل کی ساری سائنس ان تاروں کی مرہونِ منت ہے ۔گویا محبت سائنس کی محتاج ہے ۔ جب ریڑھ کی ہڈی ہی ٹوٹ گئی تو اس کا مطلب کہ وہ سب تاریں ٹوٹ چکی تھیں ۔ ایک اور چلتی پھرتی لاش۔ وہ سٹریچر پر تھااور اپنے اہلِ خانہ کے رحم و کرم پر ۔ میںنے اس سے معلومات حاصل کرنا شروع کیں ۔ کہنے لگا کہ شادی کو صرف ایک ماہ ہوا تھا، جب یہ حادثہ پیش آیا۔ بیوی کچھ عرصہ دیکھتی رہی ، پھراس نے خلع لے لی ۔ اب میری ماں مجھے سنبھالتی ہے ۔ وہی مجھے کھانا کھلاتی ہے ۔ اس نے کہا، جو تکلیف سے گزارتا ہے ، پہلے وہ اس تکلیف کو برداشت کرنے کی ہمت دیتا ہے ۔ اس پر قرآن کی آیت یاد آئی: اور اللہ کسی جان پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ۔ کچھ لوگ معمولی بیماری پر بلکتے رہتے ہیں ۔ کچھ مہلک اور خون آشام بیماریوں میں موت تک ہنستے کھیلتے چلے جاتے ہیں ۔ 
پھر منیبہ مزار ی کا خیال ذہن میں آیا۔ ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے کے باوجود جواں سال خاتون نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ۔اپنی معذوری اور بیماری کو ہتھیار بنایا۔ جب آپ غیر معمولی بیماری میں غیر معمولی طور پر نارمل زندگی گزارتے ہیں توایک عام شخص اسے لازماًسراہتا ہے ۔ ایک شخص ، جس کی ٹانگیں نہیںہیں ، اگر وہ دکان کھول لے، بہت سے لوگ اس کی ستائش اور حوصلہ افزائی کے لیے اس کا ساتھ دیں گے ۔ یوں وہ بھی اس کی ایک نارمل زندگی گزارنے کی کوشش اور خواہش میں شریک ہو جاتے ہیں ۔ منیبہ مزاری نے جو کیا، وہ اس سے مختلف تھا۔ انہوں نے اپنی بولنے کی صلاحیت (Communication skills)کو استعمال کیا، اپنے دماغ کو استعمال کیا۔ حقیقی معذور تو وہی ہوتا ہے ، جس کا دماغ کام کرنا چھوڑ جائے ۔کچھ لوگ معذوری اور بیماری میں بھی مولوی خادم حسین کی طرح اقوالِ زریں ارشاد کرتے رہتے ہیں۔
دماغی بیماریوں میں بھی مریضوں کی ایک بہت بڑی تعداد معاشرے پر بوجھ بننے کی بجائے کار آمد ثابت ہو سکتی ہے ۔ دنیا میں ایسے بھی لوگ موجود ہیں ، جنہیں روز مرگی کا دورہ پڑتاہے ۔ وہ پھر بھی اپنا رزق خود کماتے ہیں۔دنیا میں نکولس جیمز نامی ایک ایسا شخص بھی ہے ، جس کی دونوں ٹانگیں اور دونوں بازو نہیں ہیں ۔ اس کا کل جسم دو فٹ کا ہے ۔ وہ تیراکی کرتا ہے ،انتہا کی motivational speechesکرتا ہے ۔ تیراکی ایسے کہ جب انسان کا جسم ہی کل ڈیڑھ دو فٹ کا رہ جائے تو پھر وہ اپنے آپ پانی میں تیرتا رہتاہے ۔ اس کی بجائے وہ کسی فٹ پاتھ پر لیٹ کر بھیک بھی مانگ سکتا تھا ۔ کچھ لوگ دنیا کی ساری دولت کما کر بھی ذہنی طور پر بھکاری ہی رہتے ہیں ۔ کچھ اپنا سب کچھ گنوا کر بھی ہاتھ پھیلانے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ انسان کی مرضی ہے کہ اسے بھکاری بننا ہے یا خواجہ ۔ جس طرح لکھنے اور بولنے والوں کی مرضی ہے کہ انہیں حکمرانوں کے در کا منگتا بننا ہے یا بادشاہ ۔ 
سرکاری افسروں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے باس کے پائوں چاٹتی رہتی ہے ۔ اس لیے کہ ان کی ترقی کا دارومدار افسر کی خوشنودی پر ہوتاہے ۔ جب سپریم کورٹ نے واجد ضیا کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنائی تو میں نے ریاستی اداروں کو بخوبی سمجھنے والوں سے رابطہ کیا ۔ ان سب کا کہنا یہ تھا کہ سرکاری افسروں کی کیا بساط کہ اس قدر خوفناک دبائو کے خلاف میرٹ پر تفتیش کر سکیں ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا، سرکاری افسر مجبور لوگ ہوتے ہیں ۔یہ وہ افسر تھے، جن کی اپنی ترقیوں کے حکم پر وزیرِ اعظم کے دستخط ہوتے ہیں ۔ اس کے باوجود واجد ضیاء کی سربراہی میں سرکاری افسروں نے میرٹ پر فیصلہ کیا۔ ایک دن آئے گا کہ جب قوم جھک کر ان افسروں کو سلام کرے گی ۔ اس لیے نہیں کہ نواز شریف کے خلاف انہوں نے رپورٹ جمع کرائی بلکہ اس لیے کہ حکمرانوں کے سارے کرّو فر کو نظر انداز کر کے کلمہ ء حق ادا کیا۔ یہ بہت بڑا جہاد ہے ۔ جب کوئی افسر طاقتور پر قانون نافذ کر دیتاہے تو وہ پورے معاشرے کو موت سے بچا لیتاہے ۔ سرکارؐ نے فرمایا تھا کہ برباد ہو گئیں وہ قومیں ، جو اپنے کمزوروں کو سزا دیاکرتیں اور طاقتوروں کو بخش دیا کرتیں ۔ ایک مصلحت کوش اور کاسہ لیس معاشرے میں بہادری سے اپنے فرائض سرانجام دینا اور مجبوری کی زندگی گزارنے سے انکار کر دینا ۔ ایسے معاشرے میں ، جہاں حکمرانوں کے تلوے چاٹنے والوں کی کوئی کمی نہ ہو ۔
حکمرانوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے تو چوہے کی طرح ہوتے ہیں ۔ خوف میں زندگی گزارنے والی مخلوق ۔ ایسے لوگوں کو جب انسان دیکھتا ہے تو اس کے دل میں ایک تمنا پیدا ہوتی ہے ۔ اگر میں بھی ایک آزاد شخص بن جائوں ۔ اگر ایک خاص حد سے آگے مجبوری سے سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دوں تو زندگی میں ایک ترنگ پیدا ہوجائے ۔ مجبور لوگ تو ہر کہیں ہیں ، کیوں نہ اپنے آپ کو میں آزاد کر دوں ؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved