پاکستان میں بیک وقت کئی محاذ کھلے ہوئے ہیں۔ میں خود کبھی کبھار کنفیوژ ہو جاتا ہوں۔ لگتا ہے میرے اندازے غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ بیک وقت ایسی چیزیں رونما ہو رہی ہیں کہ سمجھ نہیں آتی اچھا ہو رہا ہے یا برا۔ ہم آگے جا رہے ہیں یا پیچھے۔ ایک دن پرامید گزرتا ہے تو اگلے دن مایوسی چھا جاتی ہے۔ صبح لگتا ہے کہ پاکستان درست سمت چل پڑا ہے تو شام کو معلوم پڑتا ہے کہ یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے جتنا ہم نے سمجھ رکھا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ آپ لوگ مجھے سمجھدار اور ذہین سمجھتے ہوں لیکن مجھے علم ہے کہ میرے اندازے غلط نکلتے ہیں۔ اپنے آپ کو تسلی دیتا ہوں کہ انسان سے غلطیاں ہو جاتی ہیں اور اندازے بھی غلط ہو جاتے ہیں کیونکہ اس میں ہماری اپنی خواہشیں شامل ہو جاتی ہیں۔ انسان لاکھ کوشش یا دعویٰ کرے کہ وہ نیوٹرل ہوکر تجزیہ کر سکتا یا اندازہ لگا سکتا ہے‘ وہ غلط کہتا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی لاشعوری طور پر آپ کے اندازوں اور تجزیوں میں آپ کی خواہشات داخل ہو جاتی ہیں اور یہی خواہشات آپ کے اندازوں کو بعد میں غلط ثابت کرتی ہیں۔ لگتا ہے میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔
میں آپ کو بتاتا ہوں کہ پچھلے تیس برس میں میرے دو بڑے اندازے کیسے غلط نکلے ہیںاور مجھے کتنی شرمندگی ہو رہی ہے۔ میرا پہلا اندازہ یا خواب اس وقت غلط نکلا جب انیس سو نوے کی دہائی میں روس افغانستان سے نکل چکا اور دیوار برلن گر چکی تھی۔ سرخ انقلاب ناکام ہوگیا تھا۔ دنیا کیپٹل ازم کی طرف بے لگام دوڑ رہی تھی اور ہمیں بھی اندازہ نہ تھا کیپٹل ازم میں صرف دولت اور پیسہ ہی انسانی اخلاقیات اور معیار کا تعین کرے گا۔ کس کے پاس کتنی دولت ہے‘ وہ دیکھی جائے گی نہ یہ کہ وہ دولت کہاں سے آئی اور کتنوں کا لہو بہا کر کمائی گئی۔ میرے جیسے دانشور یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اب دنیا سرد جنگ کے دور سے نکل گئی ہے۔ روس اور امریکہ بلاک کی جنگ ختم ہوگئی ہے‘ اب امن آئے گا، طاقتور فوج رکھنے کی شاید وہ ضرورت نہ رہے جو جنگِ عظیم دوم کے بعد محسوس کی گئی تھی۔ اب دنیا جمہوریت اور سوشل جسٹس کی طرف جائے گی۔ طاقتور ڈکٹیٹرز کا دور ختم ہوگا اور جمہوریت پسند طاقتیں ابھریں گی۔ اور یہی ہونا شروع بھی ہوا۔
پاکستان میں جنرل ضیاء کی موت کے بعد فوج نے نہ چاہتے ہوئے بھی الیکشن کرائے اور کڑوا گھونٹ بھر کر بینظیر بھٹو کو اقتدار شفٹ کر دیا جو اگرچہ ان سے دو سال بعد واپس لے لیا گیا؛ تاہم تمام تر خواہش کے باوجود اگلے دس بارہ برسوں میں فوج براہ راست اقتدار نہ لے سکی اور ہم سمجھتے رہے کہ جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے‘ اب آمروں کا دور نہیں رہا‘ اب سیاستدان اور عوامی نمائندے ہی ملک چلائیں گے‘ اب ملک میں خوشحالی آئے گی‘ ملک کسی فردِ واحد کی زبان سے نکلے ہوئے لفظ کا محتاج نہیں ہو گا‘ اب پارلیمنٹ سب فیصلے کرے گی۔ ہم اس وقت شرطیں لگاتے تھے کہ اب ملک میں مارشل لاء نہیں لگے گا۔
میرے لیے یہ بڑا دھچکا تھا کہ پاکستان میں بیسویں صدی کے اختتام پر ایک دفعہ پھر فوجی حکومت تھی۔ جب میں پیدا ہوا تو اس دن بھی پاکستان میں ایک فوجی حکمران تھا‘ جب میرا بڑا بیٹا پیدا ہوا تو اس دن بھی فوجی حکمران تھا۔ یوں دو نسلوں نے فوجی حکومتیں دیکھ لی تھیں لہٰذا اپنے اندازے غلط ثابت ہونے پر میں شرمندہ بھی ہوا اور افسردہ بھی۔
مجھے اندازہ ہوا کہ جمہوریت کے ساتھ میرا رومانس تھا لہٰذا میں نے کسی قسم کے مارشل لاء کو اپنے اندازوں سے دور رکھا ہوا تھا‘ میری خواہش میرے اندازوں پہ حاوی ہوگئی تھی۔ سول ملٹری ایلیٹ نے مل کر اندازے اور خواب غلط ثابت کر دیئے تھے۔
ایک خواب کی تعبیر غلط نکلنے پر اپنے زخم چاٹ ہی رہا تھا کہ ایک اور خواب دیکھنا شروع کر دیا۔ شاید پرانے عشق کو بھلانے کے لیے نیا خواب ضروری تھا۔
آج سے پندرہ برس قبل جب موبائل فون اور ٹی وی کیبلز کمرشل بنیادوں پر بڑے لوگوں کے گھروں سے نکل کر عام انسانوں تک منتقل ہونے شروع ہوئے تو میں نے اپنے دوستوں سے کہنا شروع کیا کہ اب شاید پاکستان ایک نئے فیز میں داخل ہو رہا ہے‘ اب ایسا خاموش انقلاب آ رہا ہے جو پورے معاشرے کو بدل کر رکھ دے گا۔ پاکستانیوں کے سوچنے اور رہنے کا انداز جلد بدل جائے گا۔ مجھے لگا کہ شہروں اور دیہاتوں میں جو فرق تھا‘ اب وہ آہستہ آہستہ مٹنا شروع ہو جائے گا، ستر فیصد آبادی جو دیہاتوں میں رہتی ہے اور جسے خاموش اکثریت کا نام دیا جاتا رہا ہے‘ وہ اب خاموش نہیں رہے گی اور ٹی وی چینلز اسے بدل دیں گے۔ جو انفارمیشن گیپ تھا وہ اب نہیں رہے گا۔ دنیا بھر کا ایکسپوژر ہو گا۔ نئی دنیا ان سب پر کھلے گی‘ امیروں اور ایلیٹ کلاس کی انفارمیشن پر اجارہ داری نہیں رہے گی۔ آج پندرہ برس بعد کیا ہوا ہے؟ موبائل فون اب ہر ایک کے ہاتھ میں ہے‘ گھر میں سو سے زائد چینلز ہیں۔ کیا آپ کو معاشرے میں تبدیلی نظر آتی ہے؟ ہم پہلے سے بہتر ہوئے ہیں؟ دنیا کے ساتھ مقابلہ کرنے کی خواہش پیدا ہوئی یا ہم پہلے سے زیادہ تنگ نظر، متشدد اور شدت پسند ہوئے ہیں۔ ٹی وی چینلز نے ہمیں شدت پسند کر دیا ہے۔
اب پوری دنیا ہمارے موبائل فون میں آچکی ہے تو ہم نے کیا فائدہ اٹھایا ہے؟ ہم پورن فلمیں دیکھ کر ہی نیٹ اور نئے فونز کا استعمال نہیں کر رہے؟ دیہاتوں میں کیبلز ٹی وی کے ذریعے پہنچنے والی انفارمیش سے شعور میں اضافہ ہوا؟ آپ کو لگتا ہے کہ اگلا الیکشن پاکستان میں کوئی بڑی تبدیلی لائے گا؟ لوگوں کو پتا چل گیا ہے کہ اچھی اور بری لیڈر شپ کیا ہوتی ہے‘ حکمران پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟ حکمرانوں اور طاقتوروں کا احتساب کرنا کتنا ضروری ہے؟ جو حکمران بیرون ملک پارٹ ٹائم جاب کرتے ہوں‘ اپنے بچوں کو لندن اور دوبئی کا شہری بنا رکھا ہو‘ اقامے لے کر منی لانڈرنگ تک سب کر رہے ہوں‘ پاکستان کی دولت یہاں سے لوٹ کر باہر لے جاتے ہوں‘ چالیس چالیس گاڑیوں کے قافلے میں گھومتے ہوں‘ وہ اس ملک کے لیے بہتر انتخاب نہیں ہیں؟ جن کے بیوی بچے اور جائیدادیں پاکستان میں نہیں ہیں وہ بھلا پاکستان کے کیسے وفادار ہو سکتے ہیں؟ وہ بابوز اور بیوروکریٹس کیسے اچھے ہو سکتے ہیں جو امریکہ کا گرین کارڈ لے کر نوکریاں یہاں کر رہے ہوں اور نوکری سے مال بنا رہے ہوں۔آپ کو لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ان تمام ایشوز پہ شعور آ چکا ہے؟
میرا یہ اندازہ کہ کیبل ٹی وی اور موبا ئل فونز‘دونوں پاکستان میں شعور لانے میں بہت اہم کردار ادا کریں گے لیکن جب میں ٹی وی یا ٹویٹر پر بیٹھے دانشوروں‘ صحافیوں اور پڑھے لکھے لوگوں کو کرپٹ ایلیٹ کا دفاع کرتے دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ابھی منزل بہت دور ہے۔ اگر بیرون ملک یونیورسٹیوں سے پڑھے لکھے لوگ بھی ابھی تک احساس کمتری کا شکار ہیں‘ طاقتور لوگوں کااحتساب نہیں ہو سکتا تو پھر دیہات والا بے چارہ کب ٹی وی اور موبائل کے سہارے شعور جگائے گا؟ وہ تو بریانی کی پلیٹ پر ہی ووٹ ڈالے گا۔ میں کچھ ٹی وی دانشوروں کو جانتا ہوں جو این جی اوز چلاتے ہیں‘ حکومت سے کنسلٹینسی سروسز کے نام پر فنڈز لیتے ہیں‘ جو پراجیکٹ لیتے ہیں یا گرانٹ اور اشتہارات کے عوض‘ وہ ٹی وی پر بیٹھ کر حکمرانوں کی کرپشن کا دفاع کرتے ہیں۔ تو پھر یہ جو انفارمیشن لوگوں کو دی جا رہی ہے‘ وہ کیسے بہتر ہو سکتی ہے اور کیسے لوگوں کی رائے بدلنے میں مدد دے سکتی ہے؟
شاید ہمارے ڈی این اے میں ہی خرابی ہے۔ دنیا کی کوئی بھی ٹیکنالوجی ہماری صدیوں سے رائج اس غلامانہ سوچ کو نہیں بدل سکتی کہ بادشاہ کا ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ غلام معاشرے اس احساس کمتری سے باہر نہیں نکل سکتے۔ ہزاروں برس کی غلامی نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ ہر بڑا آدمی جو کرتا ہے‘ درست کرتا ہے اور اسے جو سزا ملتی ہے‘ وہ غلط ہے۔ ہم چھوٹے لوگ جو کرتے ہیں‘ غلط کرتے ہیں لہٰذا یہ نیب، ایف آئی اے، عدالتیں، پولیس، جیل اور چھترول سب عوام کے لیے ہی ہیں۔ بادشاہ سلامت کے لیے نہیں کیونکہ بادشاہ غلط کام کر ہی نہیں سکتا۔
میرے یہ اندازے کہ موبائل فونز اور ٹی وی چینلز اس ملک کی تقدیر اور لوگوں کے سوچنے کا انداز بدل دیں گے اور محکوم کو حاکم سے سوال کرنے کی جرأت دیں گے‘ سب غلط نکلے۔ ان مظلوم محکوموں کو گمراہ کرنے والے یہ عالم فاضل اور پڑھے لکھے ہی ہیں جو حاکموں سے ڈیل کر کے‘ معاوضے پر کنسلٹینسی سروسز دے رہے ہیں۔ اب تو ہم صحافی اور ٹی وی دانشور ہی کرپٹ اور طاقتوروں کے احتساب اور انصاف کی رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ہمارے اندر صدیوں سے موجود درباری اور غلام اپنے اپنے بادشاہ کااحتساب دیکھ کر رونے لگ جاتا ہے!