محسن لغاری جب پنجاب اسمبلی کے رکن تھے تو اس بات پر کڑھتے رہتے تھے کہ اسمبلی میں اہم صوبائی اور قومی امور پر بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ صوبائی حکومت کو پانی یا ماحولیاتی مسائل کی طرف متوجہ کیا جائے تو اسے تنقید گردانتے ہوئے جواباً کوئی نہ کوئی معزز رکنِ اسمبلی کھڑا ہو کر وزیر اعلیٰ کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتا ہے، جس پر تالیاں بجتی ہیں اور بات ختم ہو جاتی ہے۔ جب پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ تھے تو یہی ہوتا تھا اور شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ میں یہ سب کچھ زیادہ شد و مد سے ہوتا ہے۔ چھ برس پہلے محسن نے سینیٹر بننے کی ٹھانی کہ ملک کے سب سے معتبر فورم پر جا کر اہم منصوبہ بندی اور مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ کچھ آزاد ارکان کے ووٹ اور حکومتی اراکین اسمبلی کی دوسری ترجیح کے ووٹوں نے مل ملا کر محسن لغاری سے اپنی جان چھڑا لی اور سینیٹ بھیج دیا۔ سینیٹ میں جا کر انہیں احساس ہوا کہ ڈیرہ غازی خان کے طوطی کے لیے فقط نقار خانہ بدلا ہے۔ صوبائی اسمبلی کی عدم توجہی سے بیزار محسن لغاری کی آواز سینیٹ میں بھی نہیں سنی گئی۔ وہ ادارہ جسے صوبوں کے حقوق اور وفاق کے فرائض کی بات کرنا ہوتی ہے، وہاں بھی سیاسی پارٹیوں کے کارکن اپنی اپنی قیادت کے گن گاتے ہیں اور جنہوں نے اپنی نشست خریدی ہوتی ہے انہیں سینیٹ کی کارروائی سے کوئی غرض ہی نہیں ہوتی۔ اس ماحول میں جب چھ سال گزر گئے اور محسن لغاری کی میعاد ختم ہو گئی تو میں نے انہیں اپنے پروگرام میں شرکت کی دعوت دی۔ پوچھا، ''جو مقاصد طے کرکے سینیٹ گئے تھے کیا ان میں سے کچھ پورے ہوئے؟‘‘۔ ان کا جواب چونکا دینے والا تھا، کہا، ''مجھے ناکامی کا اعتراف ہے، میں چھ سال میں سینیٹ کو ملک کے کسی ایک اہم مسئلے پر حکمت عملی تیار کرنے پر مائل نہیں کر سکا۔ رضا ربانی جب چیئرمین سینیٹ بنے تو کچھ توقع بنی مگر عملاً کچھ نہیں ہو پایا‘‘۔ مجھے محسن کی وہ ساری پُرجوش باتیں یاد آئیں جو انہوں نے میرے ساتھ اپنے گھر بیٹھ کر کی تھیں۔ وہ پاکستان میں پانی کے ذخائر پر کام کرنے کا جذبہ، خارجہ پالیسی کے بارے میں ان کے نئے تصورات، نظام میں اصلاحات کا خاکہ۔ ان میں سے ایک کام بھی سینیٹ میں نہ ہو سکا۔ محسن چھ سال کڑھنے کے بعد گھر آ گئے۔
اگلے چھ سال کے لیے کڑھنا انوارالحق کاکڑ کا مقدر ہے جو بلوچستان سے سینیٹر بن کر اسلام آباد آنے والے ہیں۔ یہ وہ شخص ہے جو انتہائی وسیع المطالعہ ہے اور بدترین حالات میں بھی اپنے تجزیے سے درست نتائج تک پہنچنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی دلیری کا اندازہ یوں لگائیے کہ جب بلوچستان میں آگ لگی ہوئی تھی اور کوئٹہ ایک ویرانے کا منظر پیش کر رہا تھا تو یہ واحد شخص تھا جو ڈٹ کر پاکستان کا مقدمہ لڑ رہا تھا۔ جب میڈیا والوں کے لیے کوئٹہ کی زمین تنگ ہو گئی تھی، شہر کے بیچوں بیچ عسکریت پسندوں کے جھنڈے لہرا رہے تھے تو انوارالحق اور سرفراز بگٹی (وزیر داخلہ بلوچستان) سریاب روڈ جا کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے تھے۔ ان دونوں نے دن رات محنت کرکے لوگوں کو سمجھایا کہ بلوچستان کو علیحدگی پسندوں کی عینک لگا کر دیکھنے کی بجائے پاکستان کی نظر سے دیکھو۔ مجھے وہ رات بھی یاد ہے جب بلوچستان کے نشیب و فراز سمجھاتے ہوئے کئی مقامات پر ان کی آنکھیں بھر آتیں اور اپنے آنسو چھپانے کے لیے انہیں وضو کرنا یاد آ جاتا۔ چند سال پہلے اسی طرح کی ملاقاتوں میں ایک بار انوارالحق کاکڑ نے خیال ظاہر کیا کہ انہیں سینیٹ میں جا کر پاکستان کے نئے بیانیے کی تشکیل کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ میں خاموش رہا اور کچھ نہ کہا۔ میری خاموشی پر انوار کی آنکھوں میں کچھ حیرت دکھائی دی مگر انہوں نے اس کا اظہار نہیں کیا۔ میں کیسے بتاتا کہ سینیٹ اور اسمبلیوں میں ڈھنگ کی بات کرنے والوں کو پذیرائی نہیں ملتی بلکہ ان لوگوں کی فرمانروائی ہے جو تقریروں میں اپنی جماعتی قیادت کو سراہنے کا فن جانتے ہیں۔ سیاست کی ایک کروٹ نے اگرچہ انوارالحق کو مسلم لیگ ن کی بندشوں سے آزاد کر دیا ہے اور وہ باغی ہو کر اپنے زور پر منتخب ہو کر سینیٹ پہنچے ہیں مگر ''وفاداروں‘‘ کی اس نگری میں وہ پاکستان کے نئے بیانیے پر کیسے کام کریں گے، کم از کم میں تو نہیں سمجھ پا رہا۔ مجھے تو بس یہ پتا ہے کہ اس ادارے میں چھ سال میرا ایک دوست جلتا کڑھتا رہا اور اگلے چھ سال دوسرا جلتے کڑھتے گزارے گا۔
پاکستان کے دستور میں سینیٹ ایک سیاسی ادارہ نہیں بلکہ وفاقی ادارہ ہے‘ جہاں صوبوں کے آپس کے معاملات اور وفاق سے تعلقات میں توازن پیدا کیا جاتا ہے۔ اس کا انتخاب بالواسطہ رکھنے میں یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ انتخابی سیاست سے دور رہنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ و تربیت یافتہ لوگوں کو اس ادارے میں لایا جا سکے تاکہ وہ قانون سازی کو ہنگامی سیاست کی نذر نہ ہونے دیں۔ کچھ عرصے تک یہ رسم قائم رہی مگر جمہوری ترقی کے ساتھ ساتھ یہ نوبت بھی آ گئی کہ الیکشن ہار جانے والے سیاستدان یہاں پہنچائے جانے لگے اور غالباً اس کا آغاز چودھری شجاعت حسین سے ہوا جب وہ 1993 میں الیکشن ہار گئے تو نواز شریف نے انہیں سینیٹر منتخب کروا لیا۔ اس کے بعد سینیٹ بھی سیاسی جوڑ توڑ کا مرکز بن گیا اور بھانت بھانت کے لوگ اس کا حصہ بننے لگے۔ سینیٹ کے تازہ ترین انتخابات میں مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی امیدواروں کی فہرستیں دیکھیں تو ان میں جہاں رانا مقبول، رضا ربانی، فروغ نسیم اور مشاہد حسین جیسے جید لوگ موجود ہیں وہاں کچھ ایسے نام بھی شامل ہیں جنہیں دیکھ کر سینیٹ کی بے توقیری کا احساس ہوتا ہے۔ یہ لوگ صرف اس لیے سینیٹ میں بھیجے جاتے ہیں کہ جب کوئی پڑھا لکھا شخص معقول مگر ناپسندیدہ بات کرنے لگے تو دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر نعرے لگانا شروع کر دیں۔ قیادت کے اس طرح کے ''فرمانبرداروں‘‘ کی اکثریت ہو تو کسی بھی مسئلے پر اعلیٰ سطح کی بحث اور مکالمے کا امکان ہی ختم ہو جاتا ہے، گویا وہ مقصد ہی فوت ہو گیا جس کے لیے سینیٹ بنایا گیا تھا۔ ان حالات میں ضروری قرار پاتا ہے کہ سینیٹ کے انتخابی طریق کار پر از سرِ نو غور کر لیا جائے۔
تجربے نے ثابت کیا ہے کہ موجودہ طریق کار کے مطابق صوبائی اسمبلی کے اراکین کے ذریعے سینیٹ کا انتخاب ہارس ٹریڈنگ کا سبب بنتا ہے یا خوشامدیوں کے سینیٹر بننے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ان دونوں قسم کے افراد کا سینیٹ میں جانا درحقیقت ادارے کو بے عزت کرنے کے مترادف ہے۔ اس مسئلے کا ایک حل تو یہ ہے کہ پارٹیوں کو ان کی سیٹوں کے تناسب سے سینیٹ میں نشستیں الاٹ کر دی جائیں مگر اس طریقے سے مذکورہ بالا دونوں قسم کے افراد کا راستہ ہی کھلے گا، بہتری کوئی نہیں ہو گی۔ دوسرا حل یہ ہے کہ سینیٹر براہ راست انتخاب لڑ کر آئیں مگر اس میں مسئلہ یہ ہو گا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ اس جھمیلے میں پڑیں گے ہی نہیں اور روایتی سیاستدان ہی یہاں براجمان ہو جائیں گے۔ ان دونوں طریقوں کے برعکس متناسب نمائندگی کے ذریعے ہارس ٹریڈنگ اور خوشامدیوں کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ اس طریقے کے مطابق ہر صوبہ ایک حلقہ ہو گا، سیاسی جماعتوں کو اپنے امیدواروں کی فہرست عوام کے سامنے پیش کرنا ہو گی اور ووٹ اس پوری فہرست کو ملیں گے۔ جو پارٹی جتنے ووٹ لے گی اسی تناسب سے اس کی فہرست میں اوپر آنے والے امیدوار سینیٹر منتخب ہو جائیں گے۔ اس صورت میں توقع ہے کہ پارٹیاں بہتر سے بہتر امیدوار سامنے لائیں گی اور سینیٹ صحیح معنوں میں عوام کا نمائندہ ادارہ بن سکے گا۔ ورنہ فرمانبرداروں کے ہجوم میں محسن لغاری اور انوارالحق کاکڑ جیسے لوگ بے آواز ہی رہیں گے۔