'' آپ کہیں گے کہ کیسی بات کر رہا ہوں لیکن یقین کیجئے آپ سب کو بحیثیت قوم ایک ایسی تحریک اور ایک ایسے راز سے آگاہ کر رہا ہوں جس کی جانب آپ میں سے کسی کا دھیان ہی نہیں گیا ہو گا۔ آپ میں اس ملک کے وکلاء بھی ہیں، ملک کی سلامتی سے متعلق ادارے بھی اور اس ملک کی عدلیہ بھی۔۔۔آپ کو پس پردہ ہونے والی جس سازش سے آگاہ کر رہا ہوں اس کا تعلق اسحاق ڈار کو سینیٹ نشست کیلئے اہل قرار دلوانے سے ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اسحاق ڈار کے ذریعے میاں نواز شریف نے ایم کیو ایم لندن کے قائد کا پاکستان کے کسی بھی الیکشن میں حصہ لینے کا راستہ ہموار کر دیا ہے تو آپ کا رد عمل کیا ہو گا؟ اگر ایک اشتہاری ہوتے ہوئے الیکشن کمیشن اور لاہور ہائیکورٹ اسحاق ڈار کے کاغذات نامزدگی سینیٹ کی نشست کیلئے منظور کر سکتے ہیں تو کل کو اگر الطاف حسین بھی پاکستان کی عد التوں سے اشتہاری ہونے کے با وجود قومی اسمبلی کی کسی نشست کیلئے کراچی سے بطور امیدوار اپنے کاغذات داخل کرواتے ہیں تو کون سا قانون، کون سی عدالت اور کونسا الیکشن کمیشن ان کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کر سکتا ہے؟۔ اور اگر کوئی ایسا کرتا بھی ہے تو کس قانون کے تحت کیونکہ وہ قانون تو سینیٹ اور قومی اسمبلی تک پہنچنے کیلئے اسحاق ڈار کی وساطت سے منزل بن چکا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ ا س کیلئے الطاف حسین کا پاکستان میں کسی بھی بینک میںاکائونٹ کھلوانا لازمی ہو گا تو جناب یہی شرط اسحاق ڈار کیلئے بھی تھی اگر ڈار صاحب سینیٹ الیکشن سے ایک ہفتے قبل ایک اشتہاری ہوتے ہوئے لندن میں بیٹھ کر پاکستان میں اپنا نیا بینک اکائونٹ کھلوا سکتے ہیں تو پھر لندن میں بیٹھے کسی دوسرے اشتہاری کیلئے اپنا بینک اکائونٹ حاصل کرنے میںکیا ممانعت ہو سکتی ہے ؟ کوئی بھی عمارت، شاہی محل یا طویل منزلہ پلازے اچانک اور چند دنوں میں وجود میں نہیں آتے اس کیلئے زمین کے انتخاب کے بعد اپنی پسند کے مطا بق نقشے تیار کرائے جاتے ہیں اور پھر بنیادوں کی کھدائی کے بعد ایک ایک اینٹ سے یہ پلازے اور محل وجود میں آتے ہیں۔
کسی دن اچانک وکلاء کو اپنے سامنے بٹھا کر یہ کہتے ہوئے کوئی خبردار کرتا ہے کہ مجھے شیخ مجیب الرحمان مت بنائو وہ غدار نہیں بلکہ محب وطن تھا تم لوگوں نے اسے غداری پر مجبور کیا مجھ پر اتنا ظلم نہ کرو کہ مجھے بھی مجبور نہ کرو کہ شیخ مجیب بن جائوں۔ شیخ مجیب کی دھمکی اچانک نہیں آئی اس کیلئے لاہور میں ایک تقریب میں وہ تاریخی الفاظ سامنے رکھنے ہوں گے '' یہ سرحد نہیں بلکہ صرف ایک لکیر ہے،بھارت کے ہندوئوں اور پاکستان کے مسلمانوں کا ایک ہی رب ہے ہم مسلمان اور ہندو دونوں ایک ہی رب کو پوجتے ہیں‘‘ ان الفاظ کی گہرائی میں جا کر سوچئے کہ میاں نواز شریف کیا پیغام دے رہے تھے؟۔ ختم نبوت کا بل انہوں نے ایسے ہی منظور نہیں کرایا تھا۔ انتظار کیجئے اصل سچ بتانے کیلئے میاں شہباز شریف اپنی زبان ضرور کھولیں گے؟۔
کوٹلہ ارباب میں ''چوہدری عابد رضا کے مہمان‘‘ کی حیثیت سے میاں نواز شریف کا عدلیہ کے صرف پانچ ججوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دیا جانے والاپیغام اگر کسی کی سمجھ میں نہیںآسکا تو اس میں میاں صاحب کا کوئی قصور نہیں لیکن اس ملک کے چند ایک لوگ جو خصوصی طور پر جلسے کے انتظامات کرنے والوں کی فوٹیج بنانے کیلئے وہاں آئے ہوئے تھے ان کے اور ان کے '' صاحبین‘‘ کی سمجھ میں یہ پیغام ضرور آ گیا ہو گا؟۔ اگر نہیں آیا تو پھر سوائے ہو جمالو کہنے کے اور کیا کہا سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن بارے چند ماہ ہوئے ایک میڈیا بریفنگ میں عمران خان سے کہا تھا کہ اگر آپ نے اسی الیکشن کمیشن کے سائے میں انتخابات میں حصہ لیا تو نتیجہ وہی ہو گا جو آپ پہلے ہی بھگت چکے ہیں۔ موجو دہ ا لیکشن کمیشن اور اس کے صوبائی ممبران کی حیثیت پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کے احد چیمہ، عمر رسول اور فواد حسن کی طرح ہے ا س لئے تحریک انصاف کو چاہئے کہ اس پر سنجیدگی سے سوچے ۔۔۔۔۔۔۔جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین جیسے نیک نام اور با اصول شخص کے ساتھ الیکشن کمیشن اسلام آباد میں جس قسم کا توہین آمیز رویہ اختیار کیا گیا ہے وہ کسی بھی با شعور معاشرے کیلئے قابل قبول نہیں ۔
عمران خان اینڈ کمپنی کو اس الیکشن کمیشن سے اگر کچھ امیدیں تھیں تو جسٹس وجیہ الدین کی بے عزتی اور پھر چند دن بعد اسحاق ڈار اور دلاو ر خان کے کاغذات نامزدگی کو دھڑلے سے منظور کئے جانے کے بعد دور ہو جانی چاہئیں۔ غضب خدا کا کہ ایک شخص جو نیب سے پلی بار گیننگ کرنے کے بعد رہا ہوتا ہے اس کے سینیٹ کی نشست کیلئے کاغذات نامزدگی تمام اعتراضات کے با وجود قبول کر لئے جاتے ہیں۔ عمران خان کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ تحریک انصاف کے خیبر پختونخوا کے اراکین اسمبلی نے جس طرح خود کو نیلامی کیلئے پیش کیا ہے اس نے نوجوانوں کو ٹکٹ دینے کے عمران خان کے فیصلوں کو سخت ٹھیس پہنچائی ہے۔ کے پی کے میں سینیٹ انتخابات کے نتائج نے آنے والے عام انتخابات کیلئے بننے والے انتخابی اتحادکی صورت حال کو بھی واضح کر دیا ہے اور یہ یقین ہوتا جا رہا ہے کہ کے پی کے میںسیا سی جماعتیں اپنے امیدوار انفرادی طور پر نہیں بلکہ تحریک انصاف کے خلاف سات جماعتی اتحاد کی شکل میں سامنے آتے ہوئے ایک مشترکہ امیدوار سامنے لائیں گی اس سات جماعتی اتحاد میں مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمان، اسفند یار ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی، شیر پائو کی قومی وطن پارٹی اور منگل باغ کی کالعدم لشکر اسلام شامل ہیں اور ایک مصدقہ اطلاع کے مطا بق یہ لوگ آپس میں سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کر چکے ہیں۔ سینیٹ انتخابات میں خیبر پختونخوا سے جماعت اسلامی کا ایک،مسلم لیگ نواز کے 2 پیپلز پارٹی کے2 اراکین ایسے ہی کامیاب نہیںہوئے ؟۔ سینیٹ کی نشستوں کی باہمی ایڈ جسٹمنٹ اور اراکین صوبائی اسمبلی کو ساتھ ملانے کیلئے کیا جانے والا لین دین کوئی سر بستہ راز نہیں رہا بلکہ یہ سب کے سامنے آ چکا ہے ۔
2013 کے عام انتخابات میں مولانا فضل الرحمان نے پنجاب کی ہر نشست سے اپنے امیدوار آصف علی زرداری کے کہنے پر کھڑے کئے تھے کیونکہ زرداری صاحب چاہتے تھے کہ ان نشستوں پر جہاں اس کے امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں وہاں کے خاص مکتبہ فکر کے مذہبی ووٹ نواز لیگ کو ملنے کی بجائے مولانا کے حق میں تقسیم ہو جائیں اور ایسا ہی ہوا لیکن اس دفعہ مولانا ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اب وہ پنجاب میں مسلم لیگ نواز کے امیدواروں کی حمایت کا فیصلہ کر چکے ہیں۔۔۔ چار مارچ کوپی پی30 کے ضمنی الیکشن میں اس کی ہلکی سی جھلک دیکھی جا چکی ہے۔ 2013 کے ا نتخابات میں مسلم لیگ نواز کے طاہر سندھو ایڈو وکیٹ نے37624 ووٹ حاصل کئے جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رائو عبد القیوم نے اس صوبائی نشست سے15786 ووٹ حاصل کئے اور تحریک انصاف کے نعیم جسپال صرف3762 ووٹ حاصل کر سکے تھے۔ حالیہ ضمنی الیکشن میں جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کا ووٹ مسلم لیگی امیدوار کے حق میں استعمال ہوا۔
لوگ حیران ہو رہے ہیں کہ جماعت اسلامی اور نواز لیگ کا اتحاد کیسے ممکن ہوا کیونکہ امیر جماعت سراج الحق تو میاں صاحب کے خلاف سخت تقاریر کرتے ہیں اب اس طرح کے لوگوں کو کیسے بتائیں کہ بھئی یہ سیا ست ہے یہاں سینیٹ اور اسمبلی کی نشست پھینک اور پھر تما شہ دیکھ۔۔!!