تمام اسمبلیاں اپنی آئینی میعاد پوری کرنے والی ہیں۔ ملک بھر میں انتخابی گھنٹے بج رہے ہیں۔ کراچی میں بھی انتخابات کی نقرئی گھنٹیاں کانوں میں رس گھول رہی ہیں۔ تمام ہی سیاسی جماعتیں متحرک ہوچکی ہیں۔ انتخابات کی آمد پر پورے ملک کا ماحول بدل جاتا ہے۔ ہر طرف سیاسی ترانے گونجنے لگتے ہیں۔ وعدوں اور دعووں کے چمن کِھل جاتے ہیں۔ کراچی کا ماحول بھی الیکشن کے دنوں میں کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ اب کے بھی خاصی ہلچل مچتی دکھائی دے رہی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ تین عشروں سے شہر کی اسٹیک ہولڈر چلی آرہی ایم کیو ایم اندرونی سطح پر شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہے۔ حالیہ سینیٹ انتخاب کے موقع پر یہ واضح ہوگیا کہ گزشتہ انتخابات کے نتیجے میں ملنے والا مینڈیٹ اپنی جگہ مگر آئندہ انتخابات میں ایم کیو ایم کی پوزیشن کسی بھی اعتبار سے موجودہ پوزیشن سے ذرا سی بھی ملتی جلتی نہ ہوگی۔ جن علاقوں کو ایم کیو ایم کا گڑھ تصور کیا جاتا رہا ہے وہاں سے بھی نشستیں نکالنے میں اب ایم کیو ایم کو شدید مسابقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ سب کچھ انوکھا نہیں۔ جو کچھ پارٹی کے اندر ہو رہا ہے یا چل رہا ہے اُسے دیکھتے ہوئے حالیہ سینیٹ انتخاب کا نتیجہ بھی کسی کے لیے حیرت انگیز نہ تھا۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ تین عشروں تک شہر سے مینڈیٹ پانے والی جماعت کی سربراہی کے دعویدار ڈاکٹر فاروق ستار نے سینیٹ کے انتخاب میں صرف ایک نشست نکال پانے پر انتہائے مایوسی کے عالم میں کہا کہ ایسی حالت میں عام انتخابات کی کیا تیاری کی جائے!
اہلِ شہر حیران ہیں کہ عام انتخابات میں مینڈیٹ کا کیا ہوگا۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ سرکاری مشینری بھی ایک کروڑ 60 لاکھ کا عدد تو تسلیم کرچکی ہے۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کی رُو سے کراچی کی آبادی سوا دو اور ڈھائی کروڑ کے درمیان ہے۔ سمندر والی سائڈ کو چھوڑ کر باقی ہر طرف سے شہر پھیل رہا ہے۔ اِتنے بڑے شہر کا مینڈیٹ اگر تتر بتر ہوگیا تو بہت خرابی پیدا ہوگی۔ ایم کیو ایم کم و بیش 5 دھڑوں (ایم کیو ایم پی آئی بی، ایم کیو ایم بہادر آباد، ایم کیو ایم لندن، مہاجر قومی موومنٹ اور پاک سرزمین پارٹی) میں تقسیم ہوچکی ہے۔ سندھ اسمبلی میں 50 اور قومی اسمبلی میں 24 نشستیں رکھنے والی جماعت پر یہ وقت آگیا ہے کہ سینیٹ کے انتخاب میں ایک سیٹ بھی بمشکل نکال پائی۔ یہ سب کچھ مینڈیٹ دینے والوں کے لیے واقعی افسوس ناک ہے۔ سوال ایم کیو ایم کے مقدر سے زیادہ اہلِ کراچی کے مقدر کا ہے۔ ان کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ کراچی واقعی میگا سٹی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ معمولی مشکلات بھی اب میگا پرابلمز میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی تگ و دَو ہی میں لوگ ادھ مُوئے اور پورے ہوئے جارہے ہیں۔
کراچی کو جس نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے اُس کا تقاضا ہے کہ جو بھی جماعت کامیاب ہو وہ بھرپور مینڈیٹ کے ساتھ ابھرے اور متعلقہ ایوانوں میں اپنی بات زیادہ موثر انداز سے کہے۔ کراچی کے طول و عرض میں قدم قدم پر مسائل ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے موثر اور مضبوط نمائندے درکار ہیں۔ اگر کراچی کا مینڈیٹ سات آٹھ جماعتوں میں تقسیم ہوگیا تو معاملات مزید الجھیں گے۔
کراچی میں جو سیاسی خلاء پیدا ہو رہا ہے اُسے پُر کرنے کی تیاریاں بھی کی جارہی ہیں۔ جو سیاسی جماعتیں ایک زمانے سے دُھندلائی ہوئی تھیں وہ اب زیادہ منظم اور متحرک ہوکر میدان میں آرہی ہیں۔ اُنہیں یہ احساس ہوچکا ہے کہ کھیل کے اصول تبدیل ہوچکے ہیں۔ کل تک یہ شہر ایم کیو ایم کے تصرّف میں تھا۔ اب معاملات کی نوعیت وہ نہیں رہی۔ جو پارٹی پورے شہر کا مینڈیٹ رکھنے اور اسٹیک ہولڈر ہونے کا دعویٰ کرتی تھی وہ اس وقت کَس مپرسی کی حالت میں ہے۔ ایم کیو ایم کے دھڑوں کے قائدین بھی شدید مخمصے کی حالت میں ہیں۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کارکنوں کی ذہنی حالت کیا ہوگی۔ شہر بھر میں ایم کیو ایم کے کارکن گو مگو کی کیفیت کا شکار ہیں۔ اُن کی کیفیت یہ ہے کہ ؎
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اِک راہرَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
ایسے میں ایم کیو ایم کے لیے اپنے مینڈیٹ کو نصف کی حد تک بچانا بھی جُوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ تمام یا دو تین بڑے دھڑوں میں اتحاد ناگزیر ہے مگر اِس کے دور دور تک آثار نہیں۔ اور معاملہ ایم کیو ایم کے دھڑوں کے قائدین اور کارکنوں تک محدود نہیں رہا۔ کراچی کے ووٹرز بھی شش و پنج میں مبتلا ہیں۔ پولنگ کے دوران اُن کے حق پر ڈاکا ڈالا جاتا رہا ہے۔ یہ اُن کے لیے مستقل نوعیت کی آزمائش تھی۔ اب اُن کے زیادہ بڑی اور حقیقی آزمائش کا وقت آیا چاہتا ہے۔ اب انہیں اپنے ضمیر کی عدالت میں کھڑے ہوکر پوری دیانت اور غیر جانب داری سے ووٹ کا فیصلہ کرنا ہے۔ آزمائے ہوؤں کو آزمانا تو حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ یہ وقت کارکردگی جانچنے اور ماضی کو پرکھنے کے بعد ٹھنڈے دل و دماغ سے کسی ٹھوس اور مثبت نتیجے تک پہنچنے کا ہے۔ لازم ہے کہ کراچی کے معاملات اُن کے ہاتھ میں دیئے جائیں جو اِس کے لیے سنجیدہ ہوں، سوچتے ہوں اور پوری ایمانداری سے کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ عوام کو تمام اُمور ذہن نشین رکھتے سوچنا چاہیے اور خوب سوچنے سمجھنے کے بعد ووٹ سے متعلق فیصلہ کرنا چاہیے۔ عوام سب کچھ جانتے ہیں کہ کس نے اُن کے ساتھ کیا کیا ہے۔ کون اُن کا ہمدرد رہا اور کون اُن کے حقوق کو شیرِ مادر کی طرح پی گیا۔ ووٹ اُن لوگوں کو ملنا چاہیے جنہوں نے شہر کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا ہو، بنیادی مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھائی ہو، بہبودِ عامہ کے منصوبوں کے ذریعے معاشرے کو بہتر بنانے میں کوئی قابل ذکر کردار ادا کیا ہو، پوری دیانت اور غیر جانب داری سے فلاحی کام کیے ہوں، لوگوں کو علاج کی سہولتیں فراہم کی ہوں، بجلی اور دیگر بنیادی مسائل کے بارے میں متعلقہ اداروں پر اخلاقی دباؤ ڈالنے کے لیے مستعد رہے ہوں، نادرا کے بے لگام گھوڑے کی رفتار کنٹرول کرنے کرنے کے تگ و دَو کرتے رہے ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ موقع ملنے پر کرپشن سے پاک اور مستعد گورننس کی مثال قائم کی ہو۔ اس شہر میں حقیقی تبدیلی ووٹ ہی کے ذریعے آسکتی ہے۔ یعنی شہر کی تقدیر عوام کے ہاتھ میں ہے۔
اس وقت شہر مسائل کی آماجگاہ ہے۔ حد یہ ہے کہ کچرا ٹھکانے لگانے کا معقول بند و بست بھی نہیں کیا جاسکا ہے۔ پانی کی فراہمی کا نظام تو پہلے ہی ابتر تھا، اب نکاسیٔ آب کا نظام بھی جواب دے گیا ہے۔ توجہ نہ دی جائے تو ہر نظام کا یہی حشر ہوتا ہے۔ اب عوام کو سوچنا ہے جنہیں یہ سب کچھ سوچنا تھا انہوں نے کیوں نہیں سوچا اور جو لوگ اس حوالے سے بیدار و متحرک رہے ہیں ان کی پذیرائی سے دامن کش و مجتنب کیوں رہا جائے۔ اہلِ کراچی کے لیے یہ لمحہ ''ابھی نہیں یا کبھی نہیں‘‘ کی کیفیت لیے ہوئے ہے۔ انہیں اپنی نمائندگی کا قبلہ درست کرنا ہے۔ یہ کام اُن کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔ مینڈیٹ کے حوالے سے مخمصہ سا پایا جاتا ہے جو عوام کی تھوڑی توجہ سے دور ہوسکتا ہے۔ حقیقی نمائندے، فعال ترجمان اور مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھانے والے پارلیمانی ارکان عوام ہی کی توجہ سے متعلق ایوانوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ ؎
ذرا سی ہمتِ پرواز کی ضرورت ہے
نہیں ہیں دور بہت شاخِ آشیاں سے ہم