تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     08-03-2018

دلدل

کثرت کی خواہش نے تمہیں ہلاک کر ڈالا
حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں
ہماری دنیا بدلتی رہتی ہے اورشاذ ہی ہم غور کرتے ہیں۔ ہم نہال ہاشمی اور فرحت اللہ بابر میں پھنس جاتے ہیں‘ جو سورج اور چاند کے گرد گھومنے والے بے جان ستارے ہیں۔ نہال ہاشمی کا ذکر ہی کیا۔ جو کردار اسے سونپا گیا‘ اس کا وہ اہل نہیں۔ خطابت ایک چیز ہے‘ بصیرت اور شجاعت دوسری۔ واضح طورپر فرحت اللہ بابر نے اشارہ دے دیا ہے کہ اپنی پارٹی سے وہ ناخوش ہیں۔ نون لیگ کو گلے لگانے کے لیے تیارہیں۔ اب یہ نون لیگ پر ہے کہ ان کے لیے کوئی موزوں عہدہ‘ اس کے ہاں دستیاب ہے یا نہیں۔ اعتراض ان کا وہی ہے‘ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی والا: عدلیہ اپنی حدود سے تجاوز کر رہی ہے۔ عدلیہ میں فرشتے نہیں پائے جاتے۔ اس کے ہر اقدام کی تائید نہیں کی جا سکتی۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ انتظامیہ‘ سیاسی قیادت اور پارلیمنٹ اپنا کردار ادا نہ کرے تو کوئی نہ کوئی خلا کو پر کرے گا۔
خرابیوں کی ابتدا سیاسی پارٹیوں سے ہوتی ہے‘ شخصیت پرستی کے ہولناک مرض میں جو مبتلا ہیں۔ اس ادراک کے لیے‘ ایک سرسری نگاہ ہی کافی ہے کہ جمہوریت کا بنیادی ادارہ سیاسی پارٹیاں ہیں‘ پارلیمنٹ جن سے پھوٹتی ہے۔ پارٹیاں اگر مہذّب اور شائستہ نہ ہوں گی تو پارلیمنٹ کیا تیر چلائے گی؟ قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے لیے ٹکٹ کا اختیار‘ اگر عمران خاں‘ میاں محمد نوازشریف‘ آصف علی زرداری‘ مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی کے ہاتھ میں ہے تو ظاہر ہے کہ وہ من مانی کریں گے۔ اقتدار کا نشہ‘ معلومات محدود۔
اہلِ ایمان کے بارے میں‘ اللہ جنہیں اپنے مخلص بندے قرار دیتا اور کہتا ہے کہ انہیں شیطان گمراہ نہیں کر سکتا‘ دوسری خصوصیات کے علاوہ یہ کہا گیا ''وامرھم شوریٰ بینہم‘‘ باہم مشورے سے‘ ان کے امور انجام پاتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں وہ خرچ کرتے ہیں‘ غصّہ پی جاتے ہیں‘ جہلا سے نہیں الجھتے اور زمین پر نرم روی سے چلتے ہیں۔ سب انسان خطاکار ہیں۔ خاک پہ فرشتے خرام نہیں کرتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اقوام کو معاشروں کے ادنیٰ ترین لوگوں پہ چھوڑا جا سکتا ہے؟ امتدادِ زمانہ کے ساتھ‘ مغرب نے جن ابدی قوانین کا ادراک کرلیا ہے‘ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ذہنی اور اخلاقی اعتبار سے بہتر لوگوں کو عنان سونپ کر ہی‘ ملک اور معاشرے تمنا پال سکتے ہیں۔ مناصب کے لیے کھینچا تانی‘ جماعت اسلامی میں نہیں ہوتی۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ پہاڑ سی غلطیوں کے باوجود‘ زوال کے باوجود‘ ایم کیو ایم ایسے بحرانوں سے وہ دوچار نہیں ہوتی۔کچھ عزت باقی ہے۔
نہایت آسانی سے‘ سندھ کی اپوزیشن پارٹیاں سینیٹ کی پانچ نشستیں لے مرتیں۔ ایم کیو ایم‘ فنکشنل لیگ‘ پاک سرزمین پارٹی‘ تحریک انصاف اور آزاد ارکان کی مجموعی تعداد 63 ہوتی ہے۔ براہ راست دوسیٹوں کے علاوہ‘ خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی تین سیٹیں وہ جیت لیتے۔ دو جمع دو چار کی طرح‘ یہ سادہ سی بات تھی۔ بڑی پارٹی کی حیثیت سے‘تین سیٹوں پر ایم کیو ایم حق جتا سکتی تھی۔ ایک فنکشنل لیگ اور ایک پاک سرزمین پارٹی کے ہاتھ لگتی۔ ایثار سے کام لینے کا ‘اگر فیصلہ کرتی تو ایک سیٹ ازراہِ کرم تحریک انصاف کو دے دی جاتی۔ آئندہ الیکشن کے لیے‘ اپوزیشن اتحاد کی راہ ہموار ہو جاتی۔ ایک نئی سحر نہیں تو صوبے کے افتادگانِ خاک کی اذیت میں تھوڑی سی کمی کا امکان پیدا ہو جاتا۔ ایم کیو ایم کے داخلی نزاع نے کسی بھی امکان کا خاتمہ کردیا۔ انماالاعمال بالنیّات‘ اعمال کے نتائج کا انحصار نیت پہ ہوتا ہے۔ ظالم حکمرانوں کی عمریں‘ اس لیے بھی دراز ہو جاتی ہیں کہ ان کے حریف بھی ویسے ہی ہوتے ہیں۔
ایک بار پھر رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر۔ ذاتی شہرت‘ دونوں کی اچھی ہے۔ اس سوال کا مگر کوئی جواب نہیں ملتا کہ جو لوگ آصف علی زرداری کی غیر مشروط اطاعت کر سکتے ہیں‘ انہیں اصول پسند کیسے مانا جائے؟ اپنے اپنے ظالم‘ اپنے اپنے مظلوم۔ اگر تعصبات کی دلدل ہی میں جینا ہے تو یہی زندگی ہے‘ بے ثمر‘ بے ثمر!
رضا ربانی کی نون لیگ نے علانیہ تائید کردی ہے۔ دونوں کے درمیان نامہ و پیام کئی ماہ سے جاری تھا۔ زرداری صاحب کی ترجیح سندھ کا اقتدار ہے۔ اس عظیم مقصد کے لئے جو وہ سندھ پولیس کی مدد سے حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ وہ اسٹیبلشمنٹ کی چشم پوشی کے آرزومند ہیں‘ مزید برآں رضا ربانی سے وہ کچھ ایسے خوش نہیں؛ چنانچہ کس طرح بیل منڈھے چڑھے؟
سچی بات یہ ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے منصب پر نون لیگ کا حق فائق ہے۔ جمہوری روایت یہی ہے کہ سب سے بڑی پارٹی کو موقع دیا جاتا ہے۔ اکثریت کی تائید حاصل کرنا اس کے لیے آسان بھی ہے۔ اصول کی مگر کس کو پروا ہے۔ موقع ملنے پر اگر شریف خاندان کوسِ لمن الملک بجاتا ہے تو دوسرے کیوں ایسا نہ کریں۔ یہی رویّے وہ دلدل تخلیق کرتے ہیں‘ جس میں ہم جی رہے ہیں۔ غلبے کی قدیم انسانی جبلّت‘ اسے خوار کیے رکھتی ہے۔
کثرت کی خواہش نے تمہیں ہلاک کر ڈالا
حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں
صبح اخبار اٹھایا تو ایک تصویر کے گرد‘ بے بسی اور درد کا کاسنی ہالہ تھا۔ ٹویٹر پہ لکھا: کبھی طاقتور بھی‘ اتنے ہی لاچار ہوتے ہیں‘ جتنے کہ عام لوگ۔ بیگم کلثوم نواز کو اللہ صحت کاملہ عطا کرے۔ اللہ کی بارگاہ میں بندے سب بھکاری ہیں۔ ''اللہ غنی وانتم الفقرا‘‘۔ اول ایک صاحب نے تصحیح کی ''نحن فقرا‘‘ ہوگا۔ یہ سوشل میڈیا کا عذاب ہے۔ ہر آدمی سکالر ہوگیا۔ ہر آدمی بے باک۔ اللہ کے بندے‘ قرآن کریم کی آیت میں کوئی لفظ بدلا کیسے جا سکتا ہے؟ وضاحت میں اندیشہ تھا کہ غیر ضروری بحث شروع نہ ہو جائے۔ اب یہ ایک بدلی ہوئی دنیا ہے۔ پہلے بھی کون کسی کی سنتا تھا‘ اب ہر کوئی اپنی انا کو گنّے کا رس پلانے پر تلا ہے۔ اس وقت اور بھی زیادہ صدمہ ہوا‘ جب کسی نے کہا: کیا یہ بیماری اصلی ہے یا نقلی۔ ان سے عرض کیا کہ کینسر کے مریض سے مذاق؟ جواب میں وہی اصرار: کیا خبر‘ یہ جعل سازی ہو۔ پے درپے ایسے ہی پیغامات۔ اتنے ہم گر گئے کہ بیمار کے لیے دعا کرنے میں بھی تامّل ہے۔ تامّل کیا‘ اذیت رسانی سے مسرت حاصل کرنے کی کوشش۔ بگڑا ہوا ایک معاشرہ مزید بگڑ رہا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ کچھ دیر میں ڈھنگ کے کچھ پیغامات بھی ملے۔ دعا کرنے والوں نے‘ مصیبت کی ماری ماں کے لیے دعا کی۔ اللہ کے آخری رسولؐ یاد آئے ''اَسلم تُسلم‘‘۔ لوگوں کو سلامتی دو‘ تمہیں بھی سلامتی عطا کی جائے گی۔ سرکارؐ کے ایک قول کا مفہوم یہ ہے: عاجزی اختیار کرنے سے اگر کسی کی عزت میں کمی آئے تو قیامت کے دن وہ مجھ سے لے لے۔انتقام کی خو ہے اور وحشیانہ جبلتوں کی کارفرمائی۔ ہم سب پہ اللہ رحم کرے‘ ہم سب کا حال یہی ہے۔
کثرت کی خواہش نے تمہیں ہلاک کر ڈالا
حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں
حیرت سے میں نے سوچا: کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ اپنی خطائوں کی معافی مانگوں اور صحافت سے دستبردار ہو جائوں۔ پچاس برس ہونے کو آئے‘ پچاس سال! ع
نصف صدی کا قصہ ہے‘ دوچار برس کی بات نہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved