تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     08-03-2018

ایک عدد ہفتۂ صفائی ادھر بھی

اگر نہال ہاشمی اس بار جیل گئے تو امید ہے کہ ہسپتال کے بجائے بیرک میں ہی رہائش پذیر ہوںگے کہ ان کی طبیعت اب ٹھیک ہے اور صحت بھی بحال ہو چکی ہے۔ میں یہ بات اس لئے نہیں کہہ رہا کہ میں نے ان کی نبض پکڑ کر دیکھی ہے یا ان کو ''ٹوٹیاں‘‘ لگا کر چیک کیا ہے کہ نہ تو میں ڈاکٹر ہوں اور نہ ہی کوئی طبیب۔ حتیٰ کہ میں تو نہال ہاشمی کا دور پار سے واقف کار بھی نہیں؛ تاہم میں یہ بات ایک اور تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ ان کی طبیعت ہشاش بشاش ہے اور صحت ٹھیک ہے۔
عرصہ ہوا‘ اسلام آباد کے مرحوم شاعرراز مراد آبادی کو ہارٹ اٹیک ہوا۔ راز صاحب کو پان کھانے اور ہر بات کے ساتھ گالیاں دینے کی عادت تھی‘ بلا ارادہ اور بلا تخصیص! ان کو ہارٹ اٹیک ہوا تو ان کی اس علالت کے باعث ڈاکٹرز نے ان کو خود فون سننے سے منع کر دیا۔ ان کی طبیعت بارے ان کے یار دوست خصوصاً بیرونِ شہر سے تعلق رکھنے والے دوست‘ ان کی اہلیہ سے ان کی طبیعت بارے دریافت کرتے رہتے تھے۔ چند دن بعد ان کی طبیعت تھوڑی سنبھل گئی۔ کسی دوست نے ان کی اہلیہ کو فون کر کے راز صاحب کا حال پوچھا تو ان کی اہلیہ نے ان کے دوست کو تسلی دیتے ہوئے کہنے لگیں کہ بھائی! اب ماشاء اللہ ان کی طبیعت بہت بہتر ہے۔ آج صبح انہوں نے پان کھایا اور گالیاں بکیں‘ شکر ہے اللہ کا۔ نہال ہاشمی نے رہائی کے بعد نعرے لگائے اور گالیاں بکیں۔ ماشاء اللہ ان کی طبیعت بہت بہتر ہے۔ اب کی بار جیل گئے تو ان شاء اللہ بیرک میں گزارہ کریں گے اور ہسپتال میں جانے کا تکلف نہیں کریں گے۔
اصل میں بعض اوقات زیادہ بڑا استقبال بندے میں ''پھوک‘‘ بھر دیتا ہے اور اسی پھوک میں آکر بندہ اپنے قد سے بڑی اور اوقات سے اونچی حرکتیں کرنے لگ جاتا ہے، یہی کچھ نہال ہاشمی کے ساتھ ہوا۔ اڈیالہ جیل سے رہا ہوا تو باہر مسلم لیگ ن کے کافی سارے ورکر ان کی پذیرائی میں کھڑے تھے۔ بھلا ہو جاوید ہاشمی کا جس کے نام لگے ہوئے ہاشمی کے سابقے نے ایک نعرہ ایجاد کروا دیا ''اک بہادر آدمی... ہاشمی ہاشمی‘‘۔ اب ہر ایرا غیرا ہاشمی چڑیا بھی مارتا ہے تو اس نعرے کی پھوک بھروا کر اپنے آپ کو واقعتاً بہادر سمجھنے لگ جاتا ہے۔ یہی کچھ نہال ہاشمی کے ساتھ ہوا حالانکہ جاوید ہاشمی بننے کیلئے ججوں کو دھمکانے اور ایک ماہ جیل کے ہسپتال میں آرام کرنا کافی نہیں اس کیلئے عشروں کی جہدِ مسلسل ، برسوں کی قید و بند، عقوبت خانوں میں تشدد کا ثابت قدمی سے مقابلہ اور ظلم و بربریت برداشت کرنے کی پوری تاریخ دہرانا پڑے گی۔
بھٹو دور میں برف کی سلوں پر لٹاکر بیدزنی تو اب پرانی بات ہے۔ تب جاوید ہاشمی کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ تب کا قصہ ہے جب آتش جوان تھا لیکن جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں ان پر ہونے والا تشدد اور ان کی ثابت قدمی تو ابھی زیادہ دور کی بات نہیں۔ کوٹ لکھپت جیل کا ایک اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ ملا تو اس نے بتایا کہ ہاشمی صاحب نے باون سال کی عمر میں (یہ عمر تاریخ پیدائش کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق ہے‘ وگرنہ گمان ہے کہ عام دیہاتی کلچر کے مطابق وہ بڑی عمر میں ہی سکول داخل ہوئے ہوں گے اور عمر یقینا کم لکھی گئی ہوگی۔ یہ بات میں جنوبی پنجاب کے عام کلچر کو مدنظر رکھ کر لکھ رہا ہوں) جس طرح تشدد برداشت کیا اور جس حوصلہ اور صبر کے ساتھ جیل میں ابتدائی دن گزارے وہ کسی نوجوان کیلئے بھی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوں گے۔ ایک چھوٹی سی غالباً پانچ ضرب سات کی کوٹھڑی جس میں جون جولائی کی گرمی میں پنکھا تک نہ تھا اور زمین پر بچھانے کیلئے دو اخبار میسر تھے۔ جسم پر جو بیدزنی ہوئی تھی وہ ایک الگ داستان ہے اور ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہے ۔ ایک ماہ ہسپتال کے بستر پر مزے کی نیند سونے والے کا '' اک بہادر آدمی‘‘ کے نعرے سے کیسے استقبال کیا جا سکتا ہے جس نے برسوں کی قید کو باقاعدہ قید کی صورت میں بھگتا ہو اور تشدد کو حوصلے سے برداشت کیا ہو؟
اڈیالہ جیل کے باہر مسلم لیگ ن کے کارکنان کی ایک بڑی تعداد نہال ہاشمی پر پھول نچھاور کرنے کیلئے موجود تھی، توہین عدالت میں ایک ماہ کی ''قید باآرام‘‘ گزار کر آنے والے نہال ہاشمی کو اس کی تقریر کے فوراً بعد مسلم لیگ ن نے پارٹی کی بنیادی رکنیت سے فارغ کر دیا تھا اور سینیٹ سے مستعفی ہونے کا کہا تھا؛ تاہم نہال ہاشمی تب تک اپنی سیٹ کی رکنیت سے چمٹا رہا‘ جب تک اسے سپریم کورٹ نے اپنے حکم کے زور سے فارغ نہیں کیا۔ شاہ جی نے تب ہی کہا تھا کہ یہ مسلم لیگ ن کا سارا ٹوپی ڈرامہ ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ میاں نواز شریف چاہے اور نہال ہاشمی استعفیٰ نہ دے؟ تب ایک دوست کہنے لگا: یہ اسمبلی اور سینیٹ وغیرہ کی رکنیت بڑی بری شے ہوتی ہے۔ سوائے ایم کیو ایم (الطاف بھائی والی) کے بندوں کے‘ کوئی بھی اپنے لیڈر کے کہنے پر کم ہی چھوڑتا ہے۔ ایم کیو ایم والے بھی اس لئے چھوڑ دیتے تھے کہ بہرحال زندہ رہنا بطور رکنِ اسمبلی یا سینیٹ کے‘ فوت ہو جانے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ جیسے ہی یہ خوف دور ہوا ہے‘ ایم کیو ایم کے ارکانِ اسمبلی نے سینیٹ کیلئے ووٹ بیچنے شروع کر دیئے ہیں۔ بھلا چند سال پہلے اس کے بارے میں سوچنا بھی ممکن تھا؟
تاہم شاہ جی کی بات ٹھیک ہے کہ یہ سارا ٹوپی ڈرامہ تھا۔ اگر مسلم لیگ ن نے نہال ہاشمی کو مسلم لیگ ن کی بنیادی رکنیت سے فارغ کر دیا تھا تو اس کا استقبال کرنے والے کون تھے ؟ اس پر پھول نچھاور کرنے اور ہار پہنانے والے کون تھے؟ اک بہادر آدمی ...ہاشمی، ہاشمی کے نعرے لگانے والے کون تھے؟ یا اس کی ساری یا وہ گوئی اور مغلظات کے دوران نعرے لگانے والے اور ہلا شیری دینے والے کون تھے؟ یہ سارے میاں نواز شریف کے متوالے تھے۔ اگر میاں نواز شریف نے نہال ہاشمی کو واقعتاً مسلم لیگ ن سے فارغ کیا ہوتا تو یہ سارے متوالے اور ان کے ساتھ کھڑے ہوئے اسسٹنٹ اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل وغیرہ‘ جو حکومتی رشوت کے طور پر ان عہدوں پر تعینات ہوئے ہیں‘ یہاں نظر نہ آتے۔ 
بہرحال یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے یہ ٹھیک نہیں ہو رہا۔ یہ سارے سسٹم کو پٹوانے والی وہ اوچھی حرکتیں ہیں جو ابھی تک ''پھوکا کارتوس‘‘ ثابت ہو رہی ہیں۔ نہال ، دانیال اور طلال یہ سب لیبارٹریوں میں تیزاب اور الکلی کی پہچان کیلئے استعمال ہونے والے ''لٹمس پیپر‘‘ کی طرح ہیں اور ان کو آگے لگا کر آئندہ کے طرزِ عمل کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف عدلیہ بھی اب دوسری طرح کا پیغام دینے پر آگئی ہے کہ برداشت کی آخری حد کو عبور کرنے پر قانون اپنا متعین راستہ اختیار کرے گا کہ اداروں کی مزید تذلیل انہیں بربادی کی طرف دھکیل دے گی۔
کسی کے دل پر کسی کا کنٹرول نہیں ‘ سو بندہ اپنے دل میں جو چاہے وہ سوچ سکتا ہے مگر اس طرح یہ سرعام! اداروں کو بھی ایک دائرے میں رہ کر اپنے آپ کو منوانا ہوگا اور عزت بنانا ہوگی۔ قسمیں کھانے کی نوبت ہی کیوں آئے؟ ایک بار ہی ہفتۂ صفائی منایا جائے ‘پھر اس کی زد میں جو بھی آئے، جو بھی۔

اصل میں بعض اوقات زیادہ بڑا استقبال بندے میں ''پھوک‘‘ بھر دیتا ہے اور اسی پھوک میں آکر بندہ اپنے قد سے بڑی اور اوقات سے اونچی حرکتیں کرنے لگ جاتا ہے، یہی کچھ نہال ہاشمی کے ساتھ ہوا۔ اڈیالہ جیل سے رہا ہوا تو باہر مسلم لیگ ن کے کافی سارے ورکر ان کی پذیرائی میں کھڑے تھے۔ بھلا ہو جاوید ہاشمی کا جس کے نام لگے ہوئے ہاشمی کے سابقے نے ایک نعرہ ایجاد کروا دیا ''اک بہادر آدمی... ہاشمی ہاشمی‘‘۔ اب ہر ایرا غیرا ہاشمی چڑیا بھی مارتا ہے تو اس نعرے کی پھوک بھروا کر اپنے آپ کو واقعتاً بہادر سمجھنے لگ جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved