تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     18-03-2013

آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی!

اس نے سامان چوری کے بعد چلتی ٹرین سے چھلانگ لگائی تو یوں گرا کہ ٹرین اس کی ایک ٹانگ سے گزر گئی۔ ٹانگ سے محروم ہونے کے باعث چوری کا پیشہ چھوٹا تو اس نے جیب تراشی شروع کردی ۔ اسے باقاعدہ فن سمجھ کر سیکھا اور اتنی لگن سے سیکھا کہ استاد کہلایا۔ لوگ اس کی شاگردی اختیار کرنا فخر سمجھتے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ شاگرد ہی کام کرتے۔ وہ خود نمازیں پڑھنے اور غریبوں کی مدد میں مصروف رہتا۔ انتہائی مجبوری میں ہی کسی صحت مند شاگردکی پشت پر سوار ہوکر بازار میں نکلتا اور کسی تگڑی اسامی کو تاڑ کر اس کا بٹوہ پار کرلیتا، ورنہ شاگرد ہی سارا دن بازاروں میں گھومتے رہتے اور شام کو لاہور کی بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں میں بیٹھے استاد کے سامنے اپنی کمائی لاکر رکھ دیتے۔ایک روز اس کے سب سے ہونہار شاگرد نے شام کو جب ڈھائی روپے کی ’کمائی‘ سامنے رکھی تو اسے غصہ آگیا۔ شاگرد کو تھپڑ مار کر کہا ’حرام خور ، لاہور شہر میں سارا دن پھرتا رہا اور اب لاکر ڈھائی روپے سامنے ڈال رہا ہے، بتا باقی کے پیسے کہا ں ہیں‘۔ فرمانبردار شاگرد نے اطمینان سے تھپڑ کھایا ، استاد کی ڈانٹ سنی اور خاموش رہا۔ جب استاد نے چوری کا الزام مسلسل لگایا تو شاگرد نے کہانی سنائی۔ کہنے لگا ’استاد جی! آج صبح ایک گورے کو دیکھا کہ اُس کی پتلون کی پچھلی جیب میں پڑے بٹوے میں سے روپے باہر نکل رہے تھے۔ میں نے نہایت آرام سے بٹوہ اڑا لیا۔ ابھی اس گورے کی جیب کاٹ کر دو قدم ہی چلا تھا کہ خیال آیا کہیں قیامت کے دن حضرت عیسٰی ؑ ہمارے نبیﷺ کو یہ نہ کہہ دیں کہ دیکھو آپ ﷺ کے امتی نے میرے امتی کی جیب کاٹ لی، تو میرے نبیﷺ کو حضرت مسیحؑ کے سامنے کتنا دکھ ہوگا۔ بس یہ سوچا اور گورے کے پیچھے بھاگ کر اسے اس کا بٹوہ واپس کردیا۔ اس نے بہت پوچھا لیکن میں چلا آیا۔ اس کے بعد سارا دن کوئی شکارہاتھ نہیں لگا۔ شام کو واپس آرہا تھا کہ سیٹھ نظر آنے والے کے سلوکے کی جیب پر ہاتھ مارا تو بہت سے کاغذوں کے ساتھ یہ ڈھائی روپے ہاتھ آئے سو لے کر آپ کے پاس آگیا۔ شاگرد بات ختم کر کے رونے لگا تو استاد کی آنکھوں سے بھی جھڑی لگ گئی۔ استاد نے ہچکیاں لیتے ہوئے شاگرد کو گلے لگایا اور پھر اس دن کی ساری ’کمائی‘ فقیروں کی نذر کردی اور شکرانے کے نوافل ادا کیے کہ شاگرد نے آقاﷺ کی لاج رکھ لی۔ ورنہ نا معلوم حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا شکوہ آقا ﷺ کو کتنا گراں گزرتا۔ پچھلی صدی کے اوائل کا یہ واقعہ اردو کے ممتاز شاعر احسان دانش نے اپنی خود نوشت سوانح ’جہانِ دانش‘ میں لکھا ہے۔ اس واقعے کے تمام کردار اپنی خودساختہ اخلاقیات کے تحت زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ نجانے روزقیامت ان کے ساتھ کیا ہوگا لیکن اپنی دانست میں وہ خود اس رسوائی سے بچ گئے کہ آنحضرت ﷺ کو ان کی وجہ سے حضرت مسیحؑ ابن مریمؑ کی شکایت نہیں سننی پڑے گی۔حضرت عیسٰیؑ کے ایک امتی کے ساتھ ان جیب تراش استاد شاگرد کا سلوک محض ایک وجد آفرین واقعہ نہیں؛ بلکہ مسلمانوں کی اس حسین روایت کا تسلسل ہے جس کا سبق انہیں چودہ سو سال قبل اس طرح پڑھا دیا گیا کہ یہ ان کے ایمان کا جزو بن گیا۔ عیسائیوں اور یہودیوں کو اہل کتاب قرار دے کر اسلام نے انہیں اسی نور کی زنجیر کا حصہ قرار دیا جس کی آخری کڑی حضور اکرم ﷺ تھے۔ ایمان اور اس پر عمل کا یہی تقاضا تھا جس کی بنیاد پر بیت المقدس (یروشلم) جیسے شہر پر امت موسویؑ اور امت عیسویؑ کا حق اس وقت بھی تسلیم کیا گیا جب یہ مقدس شہر مسلمانوں کے مکمل قبضے میں تھا۔ یہ مسلم تہذیب ہی تھی جس نے تینوں مذاہب کے ماننے والوں کے لیے اس شہر کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے ، یہ الگ بات ہے کہ جب اس شہر پر خود اہل کتاب کا غلبہ ہوا تو اس میں مسلمانوں کا جینا دوبھر ہوتا چلا گیا۔ مسلمانوں نے اندلس پر صدیوں حکومت کی۔ انہوں نے وہاں عیسائیو ں کو ہر طرح کی مذہبی آزادی دی اور ملک کا انتظام مجموعی طور پر سیکولر طرز پر استوار کیا تاکہ اس ملک میں بسنے والا ہر شخص بلا خوف و خطر اپنے دین کی پیروی کرسکے۔ ہمہ مقتدر ہونے کے باوجود کبھی کسی شخص کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ حتٰی کہ اندلس میں عیسائی پادریوں نے رسول اکرم ﷺ کی شان میں گستاخیوں کا سلسلہ شروع کیا تو بھی اس کی سزا اصل ملزموں کو ہی دی گئی۔ اہل کتاب کو بطور طبقہ نشانہ نہیں بنایا گیا۔ علامہ طاہر اشرفی کے ساتھ ایک ٹی وی پروگرام میں شرکت کی تو انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کے ایمان کا تقاضا ہے کہ جہاں وہ اکثریت یا حکومت میں ہوں اہل ذمہ ( دوسرے مذاہب کے لوگ) کے حقوق کا خیال رکھیں۔ انہوں نے اس کی وجہ بتائی کہ حضوراکرم ﷺ نے نجران کے عیسائیوں کو جو پروانہ لکھ کر دیا تھا اس میں تحریر تھا کہ ان کے کلیساؤں کی گھنٹیوں کی حفاظت کی ذمے داری بھی مسلمانوں پر ہوگی۔ یہ معاہدہ جو چودہ سو سال پہلے لکھا گیا آج تک نافذالعمل ہے۔الشیخ جہانگیر محمود سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ’ آپ ﷺ اہل ذمہ کے بارے میں اتنے فکرمند تھے کہ فرمایا ’اگر کسی مسلمان نے ان کے ساتھ معمولی زیادتی بھی کی تو روزِ قیامت اس کے خلاف میں خود استغاثہ پیش کروں گا‘۔ اب سوال یہ ہے کہ جن کے معاملے میں نبی کریم ﷺ نے خود استغاثہ لے کر آنے کا کہا ان کے گھر بادامی باغ کی جوزف کالونی میں کس نے جلائے؟ اگرچہ مروجہ قانون ان مجرموں تک شاید پہنچ جائے اور انہیں سزا مل بھی مل جائے لیکن کیا تعزیرات پاکستان کے تحت دی گئی چار چھ مہینے کی سزا کافی ہوگی؟ ہم بحیثیت قوم زود فراموش واقع ہوئے ہیں۔ گوجرہ کے واقعات کی طرح سانحہ جوزف کالونی کو بھی بد انتظامی کا نتیجہ قرار دے کر بھلا سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سانحہ بدانتظامی سے کچھ آگے کی چیزہے۔ معاشرے میں آنے والے بگاڑ سے لے کر گلی محلے کی سطح تک پھیلے ہوئے مافیا اور اس کے ساتھ مذہبی عناصر کا گٹھ جوڑ ایسے عناصر نہیں جنہیں ہم آسانی سے نظر انداز کرسکیں۔ ہمیں یہ جاننے کی بھی کوشش کرنی ہے کہ جب ساون مسیح پر توہین رسالت ﷺ الزام لگایا گیا تھا تویہ کس نے کہا تھا کہ سزا صرف ساون کو نہیں جوزف کالونی کے مکینوں کو ملنی چاہیے؟ کس مولانا نے ایک مسلمان کہلانے والے مسلمان شرابی کی روایت کو ثقہ مان کراسے لاؤڈ سپیکر سے نشر کیا تھا؟ میں نے ہمت کرکے یہ سوالات الشیخ جہانگیر محمود اور علامہ طاہر اشرفی کے سامنے رکھے تو دونوں کا یہی کہنا تھا کہ ہمارے مولانا حضرات کی روش کے بارے میں یہ سوالات درست ہیں۔ میں نے عرض کی کہ آخر مولانا حضرات کا یہ مسئلہ حل کس نے کرنا ہے؟ اس سوال کا جواب آنے سے پہلے ہی گفتگوکا موضوع بد ل گیا۔ ہمارے ہاں یہی ہوتا ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved