تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     08-03-2018

چاہو تو مانو‘ چاہے انکار کر دو

دس ماہ کی میری نورِ نظر میری آنکھوں کے سامنے کھیل رہی تھی ۔ خوشی سے وہ نامعلوم زبان میں ایک گیت گنگنا رہی تھی ۔میز کے سہارے وہ کھڑی تھی ۔ اچانک اس کا پائوں پھسلا ۔ابھی اس بیچاری کو چلنا بھی کہاں آتا ہے ۔ اس کا سر شیشے کی نوکدار میز سے ٹکرانے لگا۔برق رفتاری سے میں نے شیشے پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ زخمی ہونے سے بچ گئی ۔ وہ اسی طرح کھیلتی رہی ۔ اسے کچھ معلوم نہیں تھا کہ اسے کس تکلیف سے میں نے بچا یا۔ وہ شکر گزار بھی نہیں تھی ۔میں سوچتا رہ گیا۔ اس نیلے سیارے پر خدا کا ہاتھ ہم انسانوں کو کس کس تکلیف سے بچاتا ہے ، ہمیں اس بات کا کوئی اندازہ ہی نہیں ۔ جب انسان دوسرے سیاروں کے حالات دیکھتا ہے تو خوف زدہ ہو جاتا ہے۔ کسی سرزمین پر آکسیجن موجود نہیں ، جو ہمارے جسم اور دماغ کی بنیادی توانائی ہے ۔ دماغ تین سیکنڈ سے زیادہ آکسیجن اور گلوکوز سے محرومی برداشت نہیں کر پاتا۔ وہ کومے میں چلا جاتاہے ۔ اسے فالج ہو جاتاہے ۔ 
ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ کان کے درمیان ایک ایسا نظام خدا نے نصب کر رکھا ہے، جس کے ذریعے انسان اپنا توازن برقرار رکھتا ہے۔ اس میں خرابی ہو توآدمی گرتا ، لڑکھڑاتا رہتاہے۔وہ تیزی سے گردن بھی نہیں موڑ سکتا۔ اسے چکر آتے رہتے ہیں ۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہمارے جسموں میں ہزاروں کلومیٹر طویل خون کے پائپ موجو دہیں ۔ ہزاروں کلومیٹر طویل Nervesموجود ہیں ۔ یہ آپس میں گڈ مڈ نہیں ہوتے ۔ یہ جسم کے ایک ایک خلیے تک خون کے ذریعے آکسیجن اور غذا لے کر جاتے ہیں ۔ انہی nervesکے ذریعے ہم اپنے جسموں کو حرکت دیتے ہیں ۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارے دماغوں میں خلیات کے باہمی ربط کرانے والے کیمیکلز خارج ہونا بند ہو جائیں تو ہماری زندگیاں جہنم بن سکتی ہیں ۔دنیا کی کوئی چیز ایسے شخص کو خوشی نہیں دے سکتی۔ ہر جاندار نے اپنی زندگی میں آکسیجن کا جو ایٹم استعمال کرنا ہے ، گندم کا جو دانہ کھانا ہے ، اس پر اس کی مہر لگی ہوئی ہے ۔ اگر یہ مہر موجود نہیں تو باوجود دولت کے باوجود،غلے کے بھرے ہوئے گوداموں کے باوجود، میرا جسم اسے قبول کر نے سے انکار کر دے گا۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو آپ اپنے اردگرد دیکھ لیں ۔ بے شمار لوگ آپ کو مل جائیں گے ، جن کے پاس دولت کے ڈھیر ہیں لیکن ڈاکٹر نے انہیں گنی چنی چیزوں کے علاوہ ہر شے کھانے سے منع کر رکھا ہے ۔ ماں باپ ہاتھ جوڑتے ہیں لیکن بچّے کچھ نہیں کھاتے۔بے شمار غریب ایسے ہیں ، جو افلاس کی زندگی گزارتے ہیں لیکن کھانے کے وقت تین تین روٹیاں مزے لے کر کھا جاتے ہیں ۔
ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ بھاری آب و ہوا (Atmosphere)اورسمندروں سے محروم چاند پر جہاں دن میں درجہ ٔ حرارت مثبت100 درجے سینٹی گریڈ ہوتا ہے ، وہاں رات کو وہ منفی 100ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتاہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ زمین کے نیچے پگھلے ہوئے لوہے سے خدا نے مقناطیسی میدان بنا رکھے ہیں ، جو سورج کی تابکار شعاعوں سے ہمیں بچاتے ہیں ۔ ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں اوزون کی حفاظتی تہہ بھی کہیں نظر نہیں آتی ۔ یہ سب حفاظتی تہیں خدا نے زندگی کی حفاظت کے لیے بنائیں ۔ سب جانداروں کو آنکھیں ، کان ، ناک ، سمیت حسیات دیں ، جن سے ڈیٹا اس کے دماغ تک جاتاہے اور وہ زندگی گزارنے، اپنی خوراک حاصل کرنے کے قابل ہوتاہے ۔کبھی کسی ایسے شخص سے ملیے ، جس کے گردے خون صاف کرنے سے انکاری ہوں، آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ہر امیر اور ہر غریب کو خدا نے ایک قدرتی مدافعاتی نظام دیا ۔ یہ نظام اگر نہ ہوتا تو پوری زندگی ہم بیمار ہی رہتے ۔ اس نظام کا پوچھنا ہو تو کسی ایسے شخص سے پوچھیے، جس نے گردہ یا جگر ٹرانسپلانٹ کرایا ہو ۔ پھر یہ کہ خدا نے دماغ کو اس انداز سے تشکیل دیا ہے کہ بڑے سے بڑا صدمہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مندمل ہو جاتاہے ۔ کبھی ایک لمحہ جس کی جدائی گوارا نہ کی جاتی ،آج اس کی موت کی خبر بھی انسان کو رلاتی نہیں ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ایک بار کسی حادثے کا شکار ہوجانے والا ساری زندگی اس شاک سے باہر نہ نکل سکتا۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ حادثات ہوتے ہی کیوں ہیں ؟جواب، آزمائش کے لیے ۔ یہ دنیا آزمائش کے لیے بنی ہے ۔ یہ تکلیف کی دنیا ہے ۔ جتنا بڑا انسان ہوتاہے ،جتنی اسے استطاعت دی جاتی ہے ، اسی حساب سے اس پر آزمائش ڈالی جاتی ہے ۔ کئی لوگ تو طویل بیماری کے باوجود خدا کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں ۔ کئی معمولی تکلیف پر ہمت ہار جاتے ہیں ۔ 
پانچ ارب مخلوقات، کرّئہ ارض کی تاریخ میں اندازاً پانچ ارب مخلوقات زندگی گزار چکی ہیں ۔ ان پانچ ارب میں سے ایک ، ہم انسانوں کو خدا نے عقل دی ۔ ہم نے اپنا ،کرئہ ارض کا، کائنات کا جائزہ لیا۔ خدا کو جانچنے کا ایک ہی اوزار (Tool)ہمارے پاس تھا اور وہ علم اور عقل تھی ۔ جب ہم ہر چیز کا جائزہ لے چکے تو ہم نے ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کر دیا : کیا ضروری ہے کہ انسان خدا پر ایمان لائے ؟ اچھا، اگر ضروری ہے تو چلو مان لیتے ہیں لیکن خدا تو بہت پابندیاں لگاتا ہے ۔ کہتا ہے کہ نماز پڑھو، زنا نہ کرو ، پھر کیسے زندگی گزرے گی ۔ مغرب نے تو صاف کہہ دیا کہ ہم خدا کو مان لیں گے لیکن وہ ہمیں ہماری زندگی آزادی سے گزارنے دے۔ کبھی کبھار ہم چرچ چلے جائیں گے لیکن ہمیں ہر خواہش بشمول ہم جنس پرستی کی آزادی د ی جائے ۔ 
اگر آپ مغرب کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ خاندانی نظام کس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ بچّے جب اپنے بوڑھے باپ کو اولڈ ہوم داخل کرانے جاتے ہیں تو ان سے کوئی پوچھے کہ آپ اپنے باپ کو غیروں کے حوالے کیوں کر رہے ہیں ۔ بیٹے کا جواب یہ ہوتاہے: یہ میری ماں کا تیسرا شوہر ہے۔ دوسرا مر گیا تھا۔ پہلا ، جو کہ میرا سگا باپ تھا، اس کا تو مجھے نام ہی معلوم نہیں ۔ نہ اس نے میری ماں سے باقاعدہ شادی کی۔ پتہ نہیں زندہ بھی ہے یا مرچکا۔مجھے ریاست (State)نے پالا ہے ، ماں باپ نے نہیں۔ مجھے ان سے کوئی شکایت نہیں ۔ انہوں نے اپنی زندگی گزاری ۔ میں اپنی جی رہا ہوں۔ انسان پھر اپنا معاشرہ دیکھتا ہے تو خدا کا شکر بجا لاتا ہے۔ 
خدا بے نیاز ہے۔وہ بادشا ہ ہے ، ہم سب فقیر۔خدا کبھی کسی سے درخواست نہیں کرتا کہ حضور مجھ پر ایمان لے آئیے۔ اگر اسے آپ کے ایمان کی اس قدر ضرورت ہوتی تو اپنی بے شمار مخلوقات کی طرح ، آپ پر بھی ایمان کو وہ جبر کر دیتا۔ اس نے آپ کو آزادی دی۔ چاہو تو مجھ پر ایمان لائو، چاہو تو انکار کر دو ۔ دنیا کا جواز باقی رکھنے کے لیے تو صرف ایک مسلمان کافی ہے ، جو اللہ کا نام لینے والا ہو ۔جو خدا پر واقعی ایمان رکھتے ہیں ، و ہ جانتے ہیں کہ خدا Ultimateخوبصورتی ہے ، ultimateحسن اور ultimateعلم ۔وہی تواس قابل ہے کہ اسے سجدہ کیا جائے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved