تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     08-03-2018

جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں

ہم جس کائنات کا حصہ ہیں اُس میں ہر طرف نظم و ضبط کار فرما دکھائی دیا ہے۔ فطرت میں ہر شے ایک طے شدہ ضابطے کی پابند ہے اور اُسی کے مطابق حرکت کر رہی ہے یا سُکون کی حالت میں ہے۔ سورج، اُس کے سیارے، چاند، ستارے، کہکشائیں سبھی مقررہ راستوں پر گامزن رہتے ہیں۔ ع 
جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں 
کوئی بھی شے اپنے طے شدہ راستے پر چلنے سے گریز نہیں کرتی۔ اگر ایسا ہو تو کائنات کا نظام ہی درہم برہم ہو جائے۔ ذرا سوچیے کہ ہماری زمین اگر اپنے محور سے ہٹ کر مدار سے نکل جائے تو کیا ہو؟ ظاہر ہے ہم اِس زمین سمیت کسی بھی طرف نکل جائیں گے! اور اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا؟ یہی کہ دنیا کسی نہ کسی سیارے یا ستارے سے جا ٹکرائے گی اور اپنے ساتھ ساتھ ہمارے وجود کو بھی ختم کر بیٹھے گی! 
زندگی کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ اگر ہم واضح نظم و ضبط کو اپنے وجود کا، زندگی کا حصہ بنائے بغیر زندگی بسر کرتے رہیں تو مشکلات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ہر معاملے کو کسی نہ کسی سطح پر نظم اپنائے جانے کی صورت میں بہتر طریقے سے نمٹا جاسکتا ہے۔ 
اگر ہم کامیاب افراد کی زندگی کا جائزہ لیں تو ان میں اور عام لوگوں میں ایک فرق نمایاں نظر آئے گا اور یہ فرق نظم و ضبط کا ہوگا۔ جو لوگ نظم و ضبط کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں ان کی زندگی میں غیر معمولی توازن اور استحکام پایا جاتا ہے۔ یہ توازن اور استحکام ہی اُن میں اور دوسروں میں فیصلہ کن فرق پیدا کرتا ہے۔ ایسے لوگ ہر کام کو ایک طے شدہ طریقے سے انجام دیتے ہیں۔ اِس روش پر گامزن رہنے 
کی صورت میں وہ نتائج کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ حقیقت ہے کہ نظم و ضبط کو اپنانے کی صورت میں کام کا معیار بلند ہوتا ہے اور لوگ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ جب ہم نظم و ضبط کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں تو بہت سی اُلجھنیں خود بخود دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہ الجھنیں دراصل نظم و ضبط کو اپنانے سے گریز کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ فطرت کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ جو لوگ واضح نظم و ضبط کے بغیر زندگی بسر کرتے ہیں ان کے لیے مشکلات بڑھتی جاتی ہیں۔ پہلے سے طے کئے بغیر، معاملات کو بس حالات کے رخ پر چھوڑنے کی صورت میں ہماری زندگی مستقل خرابیوں اور پریشانیوں کی زد میں رہتی ہے۔ ایسے میں بنا بنایا کام بھی بگڑ جاتا ہے۔ جب کوئی خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دے اور کسی بھی طرح کے نظم و ضبط کو گلے لگانے کے لیے آمادہ نہ ہو مشکلات بڑھتی چلی آتی ہیں۔ نظم و ضبط کو اپنانے سے گریز ہمارے لیے صرف مسائل کا مآخذ ثابت ہوتا ہے۔ زندگی کا توازن اسی وقت بحال ہوتا اور رہتا ہے جب ہم نظم و ضبط کو اپناتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نظم و ضبط کو اپنانے سے ہماری سوچ میں حقیقی استحکام پیدا ہوتا ہے اور ہم ایک واضح راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ ہر کام کے لیے ایک خاص وقت مقرر کرنے کی صورت میں ہماری زندگی آسانیوں اور سہولتوں سے ہمکنار ہوتی ہے۔ 
جن کی زندگی میں نظم و ضبط ہوتا ہے انہیں لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جو لوگ نظم و ضبط کو اپناتے ہیں وہ اِس روش پر گامزن ہونے والوں کی قدر کرتے ہیں کیونکہ اُنہیں اِس کی مشکلات کا خوب اندازہ ہوتا ہے۔ اور جو لوگ نظم و ضبط کے بغیر جی رہے ہوتے ہیں اُنہیں اپنی گوناگوں مشکلات کا خوب اندازہ ہوتا ہے اِس لیے وہ بھی طے شدہ راستوں پر سفر کرنے اور اس معاملے میں اپنی بہت سی خواہشات کو دبانے یا ترک کرنے والوں کو قدر اور رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ 
اگر آپ اپنی زندگی کو حقیقی کامیابی سے ہمکنار اور بے مثال ذہنی سُکون و قلبی مسرت پانے کی تمنا کو بار آور دیکھنا چاہتے ہیں تو نظم و ضبط کو اپناکر تمام بے قاعدگیوں کی راہ مسدود کیجیے۔ بے ترتیب زندگی بسر کرنے سے معاملات صرف بوجھل ہوتے ہیں اور صلاحیتوں کو بہتر انداز سے بروئے کار لانے کی راہ ہموار کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ ایک طے شدہ حساب کتاب سے زندگی بسر کرنے کی شعوری کوشش کرتے ہیں ان کے لیے آسانیاں تیزی سے پیدا ہوتی جاتی ہیں اور وہ خود بھی اس بدلتی ہوئی صورت حال سے خوب محظوظ ہوتے ہوئے اپنی صلاحیت اور سکت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں۔ نظم و ضبط ہی ہمیں زندگی کے بیشتر اور اہم معاملات میں سنجیدگی اختیار کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ جب ہم بیشتر معاملات میں ایک منظم سوچ اپناتے ہیں تو بہتر نتائج کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ نتائج بہتر ہوں تو زیادہ کام کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ یہ سب کچھ شعوری سطح پر ہوتا ہے اِس لیے ہمیں اِس کا احساس بھی پوری شدت سے ہوتا ہے۔ نظم و ضبط ہی سے اِنسان منظم سوچ اپنانے کی طرف مائل ہوتا ہے۔ جب چند ایک امور میں واضح نظم و ضبط اپنایا جاتا ہے تو بہت سے دوسرے امور بھی خود بخود نظم و ضبط کے دائرے میں آتے جاتے ہیں۔ 
نظم و ضبط کو زندگی کا جُز بنانے میں کسی بھی نوع کی ہچکچاہٹ سے نجات پانے کے لیے اِس بات کو ذہن نشین رکھیے کہ غیر منظم زندگی بسر کرنے سے ہر معاملہ الجھتا ہے اور ہمارے بیشتر مسائل غیر منظم سوچ اور بے ہنگم طرز زندگی اپنانے ہی کا نتیجہ ہیں۔ جب آپ نظم و ضبط کے بغیر زندگی بسر کرنے کے نقصانات کا جائزہ لیں گے تو اندازہ ہوگا کہ اِنسان کے لیے بہتر یہی ہے کہ سوچے سمجھے بغیر زندگی بسر کرنے کے بجائے ہر معاملے میں ایک واضح سوچ اور عمل کا طے شدہ ڈھانچا اپنائے تاکہ زندگی کو پیچیدگیوں کی نذر ہونے سے روکنا ممکن ہو۔ 
اگر آپ اپنے وجود کو مفید بنانے کے معاملے میں سنجیدہ ہیں اور مختصر سی زندگی میں کوئی ڈھنگ کا کام کرنے کے خواہش مند ہیں تو نظم و ضبط کو اپنانا پڑے گا۔ جب تک زندگی چند ضابطوں کی پابند نہ ہو تب تک انسان دنیا کے لیے مفید ہونے کی پوزیشن میں نہیں آتا۔ کوئی بھی بڑا کام زندگی کو ایک خاص سانچے میں ڈھال کر ہی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ نظم و ضبط سے معمور زندگی بسر کرنے پر ہم وقت کو زیاد سے زیادہ کارآمد اور مفید انداز سے بروئے کار لانے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ یہی ہماری زندگی کا بنیادی مقصد ہے۔ 
اس وقت پاکستانی معاشرہ شدید بے ڈھنگے پن کا شکار ہے۔ بیشتر معاملات random کے اصول کو بروئے کار لاتے ہوئے نمٹائے جارہے ہیں۔ لوگ منصوبہ بندی کے قائل ہیں نہ نظم و ضبط کے۔ یومیہ معمولات ہوں یا زندگی کے بڑے فیصلوں سے متعلق سوچ، بیشتر معاملات میں سوچے سمجھے بغیر کام کرنے کا چلن عام ہے۔ لوگ نظم و ضبط سے یوں بھاگتے ہیں جیسے یہ کوئی بیماری ہو۔ اس حوالے سے عوامی سطح پر شعور عام کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشروں کا چلن راتوں رات تبدیل نہیں ہوا کرتا یعنی اس حوالے سے کی جانے والی مساعی میں تواتر کے ساتھ ساتھ تحمل بھی بنیادی شرط ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved