تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     08-03-2018

مجھ سے بہتر کون؟

آج عدالتوں میں بڑے زبردست کیس آئے۔ ایک تو ہمارے مشہور و معروف اینکر صاحب تھے‘ جو حسب عادت ایک نیا پھڈا ڈال بیٹھے۔ وہ یہ ہے کہ انہوں نے قصور کی ایک معصوم بچی زینب کے ساتھ زیادتی کے کیس پر‘ اپنے سٹوڈیو میں بیٹھے بیٹھے دیکھے بغیر‘ ٹانگ اڑا دی۔ جہاں جا کر وہ اڑی‘ وہ منصف اعلیٰ‘ میاں ثاقب نثار صاحب کی عدالت تھی۔ دوستوں نے انہیں سمجھایا کہ وہ غلط بیان جاری کر بیٹھے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے کسی کی بھی نہیں مانی۔ وہ پاکستان کے منصف اعلیٰ کے ساتھ‘ ضد لگا بیٹھے کہ ان کا دعویٰ جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ منصف اعلیٰ میاں ثاقب نثار نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔ جس طرح بعض لوگ اپنے دفترمیں بیٹھے‘ کسی قابل احترام شخصیت کو بلاوجہ چیلنج کردیں کہ وہ جو دعویٰ کر رہے ہیں‘ اسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا‘ اسی طرح ڈاکٹر صاحب نے کیا۔ دعویٰ یہ تھا کہ قصور شہر میں معصوم زینب کے قاتل کے‘ دنیا بھر میں ان گنت بینک اکائونٹس ہیں۔ ان میں کروڑوں کی غیر ملکی کرنسیاں پڑی ہیں۔ ظاہر ہے ڈاکٹر صاحب کے اس دعوے پر‘ ہر معقول آدمی یہی کہتا کہ ایک خستہ حال ویہڑھے میں چارپائی پر بیٹھا مجرم‘ اندھا دھند زرمبادلہ کیسے کما سکتا ہے؟ وہ بینکوں کی تعداد بھی بتا رہے تھے جن میںمبینہ اکائونٹس تھے۔ ڈاکٹر صاحب کو بڑی محبت اور نیک دلی سے سمجھایا گیا کہ اپنے دعوے سے دستبردار ہو جائیں۔ ورنہ جس طرح ڈاکٹر صاحب نے بے فکری سے‘ منصف اعلیٰ کو امتحان میں ڈال دیا‘ اس میں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں؟ وہ باز نہ آئے۔ اڑتی سی اک خبر ہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنے نادرخیال سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔
وہ یقینا اپنے خیال میں‘ دنیا بھر کے بیشتر بینکوں سے خاموشی کے ساتھ آٹھ دس بڑے بڑے بینک اکائونٹس سے‘ کسی نہ کسی طرح اربوں‘ کروڑوں کی رقوم نکلوا کر‘ بلوچستان میں قومی اسمبلی کے حلقے سے امیدوار بن جائیں گے۔ کامیابی حاصل کرنے کے بعد‘ باقی ماندہ امیدواروں سے ڈیل کریںگے اور پوری ٹیم ساتھ لے کر قومی اسمبلی کا رخ کریں گے۔ اپنے دس اراکین کو ''بول کیا مانگتا ہے؟‘‘ کی طرز پر‘ اچھی سی ایک وزارت لے کر‘ وزرا کے لئے مخصوص بہترین رہائش گاہ حاصل کر لیں گے۔ بطور وزیر‘ ا پنے عملے کو جمع کر کے ایک مختصر سی وزارتی میٹنگ کریں گے۔ اپنے سٹاف کو رازداری سے بتائیںگے کہ دنیا کے ستر سے زیادہ بینک اکائونٹس میں ان کی بھاری رقوم محفوظ ہیں۔ میرا خیال تھا کہ اتنی بے انتہا دولت آجانے کے بعد‘ مجھے قومی خزانے سے کچھ لینے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ میں تو دونوں ہا تھو ں سے دولت خرچ کرنے آیا ہوں۔ اس میں سے آپ لوگوں کو بھی کچھ نہ کچھ دیتا رہوں گا، لیکن چند ہی روز میں‘ سب کچھ دیکھنے کے بعد‘ اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دولت بٹورنے کے لئے ایک وزارت ہی کافی ہے۔
ابھی تک میرا مشاہدہ ایک ٹی وی چینل کا تھا۔ ایک ٹی وی چینل چلانے کے لئے جتنی بھی دولت مطلوب ہو گی‘ وہ میں اپنی وزارت سے آسانی کے ساتھ حاصل کر لوں گا اور ایک نیا ٹیلی ویژن نیٹ ورک قائم کر لوں گا۔ جہاں تک سٹاف کا تعلق ہے۔ مجھے اس کی ضرورت ہی نہیں۔ صرف ٹیکنیشنز درکار ہوں گے‘ ان میں خواتین کو بھرتی کرکے ٹرانسمیشن شروع کر دوں گا۔ میں پاکستان کے نشریاتی نظام کو دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اینکرز کے گروپ میں ایک بھی ایسا نہیں‘ جسے میں اپنے باعزت پیشے کے اہل سمجھوں۔ یہی بات میرا دل برا کرتی ہے کہ میرا اپنا ذاتی ٹی وی نیٹ ورک ہونے کے باوجود‘ دوسرے اینکرز بھی سامنے دکھائی دیتے رہیں۔ یہ چیز بہت تکلیف دہ ہے۔ پاکستان میں جس پیشے کو میں نے عظمت کی بلندیوں تک پہنچایا۔ چھوٹے چھوٹے‘چھوٹے چھوٹے ٹیلی ویژن نیٹ ورکس نے‘ پتا نہیں کہاں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے اینکرز لا بٹھائے‘ جنہیں دیکھ کر مجھے کوفت ہوتی ہے۔ یہی میرا مسئلہ ہے۔ میں اپنے معیار کا پروگرام نشر کروں یا ان بالشتیوںکو دیکھ کر سر درد خریدوں؟ میرے دوست اور پرستار یہی کہتے ہیں کہ آپ ٹی وی میڈیا کی منڈی میں چاند کی طرح دمک رہے ہیں۔ آپ کی روشنی نے پاکستانی میڈیا میں دھوم مچا رکھی ہے۔ آپ کو کیا ضرورت پڑی ہے؟ کہ ہاتھ لگی بے انتہا دولت لٹا کر‘ اپنا ٹی وی نیٹ ورک قائم کریں اور دوسروں سے مقابلہ کرتے پھریں۔ اس وقت بھی دنیا بھر کے ٹیلی ویژن میری نقل اتار رہے ہیں۔ مجھے کیا ضرورت ہے کہ اپنے ہی پیسے سے‘ 
اپنے ہی مقابلے میں‘ اینکرز کو کھڑا کروں اور پھر پتا نہیں کیا ہو؟ میرے حریف ٹیلی ویژن نیٹ ورک بھانت بھانت کے پروگرام چلا کر ناظرین کو پریشان کر رہے ہیں۔ مجھے بھی کرتے رہتے ہیں۔ کیوں نہ چین کے لئے اردو فلمیں بنا کر وہاں چلایا کروں۔ بھارت نے بھی تو یہی راستہ اختیار کر کے خوب دولت کمائی ہے۔ وہ مجھ سے بہتر پرفارمنس تو نہیں دے سکتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved