تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     09-03-2018

سبق

نوحہ لکھنا مقصود نہیں۔ گریہ زاری سے کچھ حاصل نہیں ہوتا مگر ماضی سے سبق تو سیکھا جا سکتا ہے۔ 
فردوس عاشق اعوانوں اور رضا حیات ہراجوں کی بجائے عمران خان اگر اپنے لاکھوں کارکنوں پر انحصار کرتا، یہ سوال جمعرات کی شام سوشل میڈیا پہ اٹھایا تو ردّ عمل حیرت انگیز تھا۔ اوّل اوّل کچھ کارکنوں نے تائید کی۔ پھر پیغامات کا ایک طوفان آیا۔ ایک کے بعد دوسری تلقین کہ یہ ناچیز پاکستانی سیاست اور سماج کے حقائق سے بے خبر ہے۔
1946ء میں مسلمانوں کی معاشی حالت کیا تھی؟ شرح خواندگی کیا تھی؟ اگر اس وقت اکثر صوبوں میں 99 فیصد سیٹیں جیت کر قائدِ اعظمؒ نے تخلیقِ پاکستان کا معجزہ کر دکھایا تو نسبتاً اب ایک کمتر جنگ کیوں نہیں جیتی جا سکتی؟ یاد رہے کہ 1936ء کے الیکشن میں مسلم ووٹوں میں سے قائدِ اعظم صرف 24 فیصد حاصل کر سکے تھے۔ 1946ء میں یہ 75.6 فیصد ہو گئے یعنی تین گنا سے بھی کچھ زیادہ۔ دوسری چیزوں کے علاوہ یہ کارکنوں کی تربیت کا ایک طویل عمل تھا، جس نے حالات کو یکسر بدل دیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ قائدِ اعظمؒ غیر معمولی دانش، دیانت اور عزم کے آدمی تھے۔ روز روز ایسے لوگ پیدا نہیں ہوتے لیکن یہ بھی ہے کہ اِس شخص کو ایسا امتحان بھی تو درپیش نہیں۔ قائدِ اعظم کے مقابل موہن داس کرم چند گاندھی تھے، مہاتما گاندھی۔ ہندوستان کی معلوم تاریخ کے سب سے مقبول لیڈر۔ سیاسی رہنما کے علاوہ جو ایک روحانی شخصیت بھی سمجھے جاتے۔ عالمی مدبرین کی صف میں آج بھی جو بیسویں صدی کی عظیم ترین شخصیات میں شمار کیے جاتے ہیں۔ پنڈت جواہر لعل نہرو ایک رئیس خاندان کے کرشماتی فرزند، ایک من موہنی شخصیت۔ بھارتی معاشرے میں برہمن اگرچہ چار فیصد کے لگ بھگ ہیں‘ لیکن اگر کسی پر وہ متفق ہو جائیں تو پورا ہندوستان اس کی پشت پہ آ کھڑا ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں سب سے قد آور شخصیت ابوالکلام آزاد کی تھی، تحریر و تقریر کے بادشاہ۔ عامی تو کیا، بڑے بڑے لیڈر ان کی بارگاہ میں مؤدب کھڑے رہتے۔ برصغیر کی تاریخ کے سب سے بڑے خطیب عطاء اللہ شاہ بخاری، لاہور کے ایک تاجر کو ساتھ لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ڈانٹ کر واپس بھیج دیا تھا۔ 
اردو زبان تو ابوالکلام آزاد کے گھر کی لونڈی ہی تھی۔ آج بھی وہ عظیم ترین نثر نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ عربی اور فارسی پر غیر معمولی دسترس۔ انگریزی کے مزاج آشنا۔ مسلم عوام کے اجتماعی لاشعور کا ادراک اقبالؔ سے کم نہ تھا۔ مسلم تاریخ اور علمی روایت پر پورے اعتماد سے گفتگو کر سکتے۔ اخبار ان کے ہاتھ میں تھا۔ ملک بھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں مداح۔ تقدیس کا ایک وسیع و عریض ہالہ ان کے گرد قائم تھا۔
پختون خوا میں خان عبدالغفار خان سالہا سال زنداں کی آزمائشوں سے گزرے تھے۔ سخت جان، سادہ اور مستقل مزاج۔ جیل خانے کی صعوبتیں ان کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکتیں۔ پختونوں میں ایک قومیت کا تصور ہمیشہ موجود رہا۔ ایک گہرے تعصب میں اسے ڈھال کر اس مزاج کو انہوں نے پختہ کر دیا تھا۔ 1946ء کا الیکشن جیت کر صوبائی حکومت قائم کرنے میں وہ کامیاب رہے تھے۔ جیسا کہ ابوالکلام آزاد نے لکھا ہے، کانگرس کی مستقل مالی پشت پناہی انہیں حاصل تھی۔ کانگرس ہی کی مدد سے یونینسٹ پارٹی نے پنجاب میں پنجے گاڑ رکھے تھے۔ حتیٰ کہ قیامِ پاکستان کا اعلان ہونے کے بعد بھی پہاڑ ایسی مشکلات کا سامنا رہا۔ سندھ میں جی ایم سید دردِ سر تھے تو بنگال میں مولوی فضل الحق، جنہیں شیرِ بنگال کہا جاتا۔ ڈرامہ بازی میں جو لالو پرشاد اور شیخ رشید سے کہیں بڑھ کر تھے۔ ان سب لوگوں کو قائدِ اعظمؒ نے شکستِ فاش سے دوچار کیا۔ کہاں گاندھی، نہرو، ابوالکلام آزاد، عطاء اللہ شاہ بخاری، حسین احمد مدنی اور عبدالغفار خان، کہاں نواز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن۔ سمجھنے کی بات صرف ایک ہے۔ قدرتِ کاملہ کے قوانین کسی کے لیے کبھی بدلتے نہیں۔ تنظیم کا کوئی بدل ہے اور نہ یکسوئی کا۔ جو شخص اپنی ترجیحات طے نہیں کر سکتا، وہ ساحل سے کبھی ہمکنار نہ ہو گا۔ بائیسکل پہ سوار لاہور سے پندرہ دن میں آپ کراچی پہنچ سکتے ہیں لیکن راستے میں اگر کوئی حافظ آباد، فیصل آباد یا خانیوال کا قصد کر لے تو اس کا کیا علاج؟ 
کبھی کبھی 2005ء کا ایک منظر یاد آتا ہے۔ کپتان کے دوست راشد خان کے وسیع و عریض مکان میں وہ اپنے بچوں قاسم اور سلیمان کو غسل دے رہا تھا۔ دوری محبت کو بھڑکاتی ہے۔ بہت دن کے بعد وہ آئے تھے اور پدرانہ شفقت کی جگہ اب ممتا نے لے لی تھی۔ ان دنوں میں جس اخبار سے میں وابستہ تھا، مشکل سے ہفتے میں وہ میرے دو کالم چھاپتا۔ فرصت فراواں تھی، گاڑی موجود اور وسائل میسر۔ چند ہفتے قبل جہانگیرہ نام کے ایک قصبے میں خلقت امنڈ کر آئی تھی۔ ان کی آنکھوں میں روشنی اور امید تھی۔ ایک نظر میں آدمی دیکھ سکتا کہ فصل اگائی جا سکتی ہے۔ میں نے اسے پیشکش کی کہ پورے صوبے کا دورہ کر کے ایک رپورٹ لکھنے کی میں کوشش کر سکتا ہوں، جس کے بعد عہدیدار نامزد کرنے میں اسے آسانی ہو جائے۔ وہ خاموش رہا۔ ہفتوں میں نے انتظار کیا اور وہ خاموش ہی رہا۔ اس سے پہلے پروفیسر احمد رفیق اختر اسے یہ پیشکش کر چکے تھے کہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں پچیس ہزار آدمی وہ جمع کر دیں گے۔ اس پیشکش کا بھی کوئی جواب نہ ملا۔ 1995ء سے 30 اکتوبر 2011ء تک اپنی زندگی کے سولہ برس میں نے اسے دئیے۔ لوگوں کا خیال اگر یہ ہے کہ میں پکنک منا رہا تھا تو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اخبار نویس اور سیاستدان کا تعلق مشکل اور پیچیدہ ہوتا ہے۔ اس کے ضبط کی میں داد دیتا ہوں کہ میری تنقید وہ گوارا کرتا رہا۔ میرے ساتھ ہمیشہ وہ شائستگی سے پیش آیا۔ تھوڑی سی داد مجھے بھی ملنی چاہئے کہ بارہا اس کی بے اعتناعی میں نے برداشت کی۔ اصرار اس پر ہے کہ یہ وقت کارکنوں کی شناخت اور ان کی تربیت میں صرف ہونا چاہئے تھا۔ مردم شناسی اس میں پائی نہیں جاتی۔ تمام لیڈر سبھی اوصاف سے بہرہ ور نہیں ہوتے۔ علاج اس کا یہ ہے کہ مشورہ کیا جائے اور ضرورت پڑے تو مشاورت کو وسعت دے دی جائے۔ افسوس کہ اکثر اس نے ناقص مشیروں کا انتخاب کیا۔ تحریکِ انصاف کے کارکن پڑھے لکھے تھے۔ کم از کم دس پندرہ لاکھ۔ بی اے، ایم اے، پی ایچ ڈی اور ایم بی اے کی ڈگریاں رکھنے والے۔ کسی دوسری جماعت کو ایسے کارکن میسر نہ تھے۔ تصور کیجیے کہ کمیٹیاں اگر بنی ہوتیں۔ دس بارہ نوجوان ریلوے پر تحقیق کرتے تو آسانی سے جان لیتے کہ ٹریڈ یونین کو محدود کرنے اور مال گاڑیوں پر انحصار کرنے میں اس ادارے کی نجات ہے۔ پی آئی اے، سٹیل مل اور بجلی کمپنیوں کے لیے بھی ایسے ہی ماہرین پیدا کیے جا سکتے تھے۔ کچھ تو میسر بھی تھے۔ 
2012ء میں ہارون خواجہ سے جب میں نے اس کی ملاقات کرائی تو بجلی، تعلیم، نوکر شاہی، تجارت اور صنعت پر درجنوں ماہرین کی خدمات سہولت سے مل گئیں۔ ان سے مگر فائدہ نہ اٹھایا جا سکا۔ وہ تو ڈاکٹر سڈل سے بھی فائدہ نہ اٹھا سکا، جو سول انٹیلی جنس کو فعال، پولیس کو جدید اور نوکر شاہی کو منظم کرنے کے علاوہ ٹیکس وصولی کو دوگنا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ایسا لگتاہے کہ قدرت نے عمران خاں کو بدعنوان لیڈروں کو تباہ کرنے کے لیے پیدا کیا تھا۔ اس کے سوا شاید کچھ بھی نہیں۔ اب اگر اسے اقتدار ملا بھی تو محدود اور مختصر ہو گا۔ 
نوحہ لکھنا مقصود نہیں۔ گریہ زاری سے کچھ حاصل نہیں ہوتا مگر ماضی سے سبق تو سیکھا جا سکتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved