تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     09-03-2018

چیئرمین اندھیرا گھوڑا

یہ میٹنگ مکمل طور پر غیر سیا سی تھی ۔ لیکن پھر بھی اس کا آغاز ہی سیاسی سوال سے ہوا۔ اور وہ یہ کہ آپ بتائیں سینیٹ کا چیئرمین کون ہو گا۔ میں نے دو تین دفعہ ٹالنے کی نا کام کوشش میں پوچھا: مجھے نہیں معلوم‘ چلیں آپ بتا دیں۔ کنگ میکر نے جو نام بتایا اُسے فی الحال ڈارک ہارس کہہ لیتے ہیں۔ 
جس طرح پنجابی زبان اور خاص طور پر صوفیانہ شاعری کی اصطلاحوں کا 100 فیصد با معنی ترجمہ کرنا تقریباً نا ممکن ہے‘ کیونکہ جو گہرائی اور گیرائی پنجابی زبان اور طرزِ بیان میں چاشنی سمیت موجود ہے‘ وہ اس کے ترجمے میں کہاں ۔ اسی طرح انگریزی زبان کے بعض لفظ ہمارے ہاں یوں رچ بس گئے ہیں‘ جیسے عنکبوت کا جالا ۔ اس کی سب سے واضح مثال ہارس ٹریڈنگ ہے ۔ جس کا اُردو ترجمہ ہوا گھوڑوں کی خرید و فرخت کا کاروبار۔ لیکن دو الفاظ کے اس مجموعے میں مفہوم کا جو نشانہ موجود ہے وہ ہارس ٹریڈنگ کے ترجمے میں کہاں ؟ ڈارک ہارس کے اُردو زبان کے لفظی ترجمہ اندھیرا گھوڑا ہو سکتا ہے ۔ لیکن ڈارک ہارس کے الفاظ کا معنوی ترجمہ '' چُھپا رستم‘‘ ہو گا ۔ اگرچہ میں ڈاکٹر صدیق شبلی صاحب اور پروفیسر نذیر صدیقی صاحب جیسے اردو زبان کے عظیم استادوں کا شاگرد رہا ہوں اور عملی طور پر اب بھی ہوں ۔ لیکن زبان دانی کا دعویٰ کسی زبان میں بھی نہیں کر سکتا۔ 
اسی لیے مجھے لفظوں کی دو عدد مزید جوڑیاں بھی تنگ کرتی رہتی ہیں ۔ پہلی ہے بادشاہ گَر اور دوسری ہے نیوز میکر ۔ اگر اردو کا بادشاہ گر انگریزی کا کنگ مِیکر کہلا سکتا ہے تو انگریزی کا نیوز میکر اردو زبان میں خبر گَر کیوں نہیں کہلا سکتا۔ 
میزبان‘ جو نیوز میکر بھی ہیں اور بادشاہ گر بھی بار بار اصرار کرنے لگے تو میں نے ایک سابق چیئرمین سینیٹ کے نام کا تُکا مار دیا ۔ موصوف نے نفی میں گردن ہلا دی، ساتھ بولے: اگلا نام۔میں نے کامریڈ رضا ربانی کا نام لیا۔ جواب پھر بھی نفی میں تھا ۔ یہ منگل کی صبح کا تذکرہ ہے‘ ناشتے کی میز پر ساڑھے آٹھ بجے ۔ تب تک چیئر مین سینٹ کے عہدے کے لیے پارلیمانی اور سیاسی لابنگ شروع نہیں ہوئی تھی۔ 
نہ ہی یہ خبر آئی کہ 'لو خود اپنے دام میں صیاّدِ اعلیٰ آ گیا‘۔ اسے آپ صرف حالات کی ستم ظریفی کہہ لیں ۔ جب سے گاڈ فادر نمبر ایک پانامہ کے پھندے میں آیا ہے‘ تب سے صیاّدِ اعلیٰ نے بڑے بڑے دعوے کرنے کے معرکے مارے۔ مثلاً ایک ٹیڈی‘ پائی کی کرپشن ثابت ہو جائے تو سیاست چھوڑ دوں گا ۔ کبھی کہا ، دھیلے کا سرکاری خزانہ اپنے اوپر لٹانے کا الزام ثابت ہو جائے تو مجھے چوک میںکھمبے پر لٹکا دینا۔ بار بار یہ بھی کہا: اگر ایک قصیرہ نا جائز لگانا ثابت ہو جائے تو قبر سے میری لاش نکال کر لٹکا دینا۔ جس دن صیاّدِ اعلیٰ کے لگائے ہوئے تینوں پھندے اُسے شکار کرنے پہنچے ، میں بھی سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں موجود تھا‘ جہاں محترم چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب ، محترم جسٹس عمر عطا بندیال صاحب‘ اور فاضل جج اعجازالاحسن صاحب نے نون کے نام سے نا اہل لیگ کے کیئر ٹیکر شہباز شریف کو کہہ دیا کہ وہ پانچ ملین سے زاید سرکاری خزانے کا مال واپس خزانے میں جمع کرائے‘ جو اس نے نا جائز طور پر خرچ کر کے اپنی ٹوہر بنائی۔ مجھے لاہور کی صحافی بٹالین نے اس فیصلے پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا۔ عرض کیا: ہم سرِ عام پھانسیوں کے قائل نہیں ہیں ۔ خادمِ اعلیٰ اپنی مخدومِ اعلیٰ پنجاب پولیس سے پوچھ لے کہ لٹکنے والے اعلان پر کیسے اور کہاں عمل درآمد کیا جائے۔ ہاں البتہ پانچ ملین سے زیادہ کی بد عنوانی ملک کی آخری عدالت میں ثابت ہونے کے بعد نا اہل لیگ کے کیئر ٹیکر استعفیٰ دے کر سُرخرو ہو سکتے ہیں۔ 
بلوچی زبان کی ایک کہاوت میں سُرخرو ہونے پر پیٹ اور ناک کی لڑائی بیان کی گئی ہے ۔ پیٹ اپنی فضیلت اپنے سائز اور شکم میں ڈالے جانے والی نعمتوں کو گنِوا کر بیان کرتا ہے ۔ ناک کے محاورے ہم سب جانتے ہیں‘ ناک کٹنا ، ناک کٹوا دینا وغیرہ وغیرہ ۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ناک عزت کی علامت ہے اور آبرو کا نشان بھی۔ پیٹ کی ڈینگیں سُن کر ناک نے کہا: پیٹ کا سائز جتنا بھی بڑا کیوں نہ ہو جائے‘ رہے گا وہ ہمیشہ ناک کے نیچے ہی۔ شاعرِ مشرق حضرتِ علامہ نے یہی مضمون یوں باندھا:
دل کی دنیا شہنشاہی اور شکم سامانِ موت 
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم؟
لاہور کے رپوٹرز نے بھی یہ سوال پوچھا کہ آپ کے خیال میں سینیٹ آف پاکستان کا آئندہ چیئرمین کون ہو گا ۔ میں نے بے دھڑک اپنا مافی الضمیر کھول کر رکھ دیا۔ پاکستان میں کرپشن راج کے تاجداروں اور ہرکاروں نے قومی اداروں پر جس قدر بے رحمانہ حملے کیے‘ اِس قدر حملے 70 سالہ ملکی تاریخ کی آنکھ نے پہلے کبھی نہ دیکھے ۔ بجا طور پر بہت بُرے سمجھے جانے والے نان سٹیٹ ایکٹرز نے عدلیہ، دفاع اور احتساب کے اداروں پر چھپ کر وار تو کیے لیکن کُھلی یلغار کبھی نہیں کی۔ آج ملک کے سب سے بڑے صوبے کے ملازم ریاست کا کھاتے ہیں‘ اور ریاست کو آنکھیں دکھاتے ہیں ۔ قومی اداروں کے لیے رحمت کے سفیر نے بجا طور پر کہا: پبلک سرونٹ ہڑتال نہیں کر سکتے ۔ سیاست کا شوق پالنا ہے تو استعفیٰ دے دو۔ ساتھ ہی موجودہ دلخراش ملکی حالات پر یوں نشتر چلایا کہ کل اگر سپریم کورٹ عوامی نوعیت کے کسی معاملے پر نوٹس لے گی تو کیا تم لوگ پھر عدالتِ عظمیٰ کے خلاف بھی ہڑتال کرو گے؟ لاہور کا ذکر تو بر سبیلِ تذکرہ درمیان میں در آیا۔ اہم معاملہ قومی اداروں میں قومی ضرورتوں سے ہم آہنگ ہو کر چلنے کی اہلیت رکھنے والے اشخاص کی بھرتی ہے۔ پارلیمنٹ ہو یا بیوروکریسی‘ بندگانِ شکم اور خواہشوں کے غلام‘ قوم کا نوکر کہلانے کی بجائے سرمایہ داروں کے غلام بننا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اسی لیے سرکاری دفاتر عام آدمی کے لیے خدمت کے مراکز کی بجائے رشوت کی علامت بن گئے ہیں۔ کیسی علامت؟ اس کا اندازہ مجھے مارگلہ گرین گالف کورس میں ہوا‘ جہاں ایک کیڈی (گالف کھیلنے کا سامان کارٹ یا ٹرالی پر رکھ کر گالفر کے پیچھے گھومنے والا لڑکا) کی گفتگو نے مجھے حیران کر دیا۔ کہنے لگا: آپ کو معلوم ہے سر، اس مُلک میں 2 سب سے بڑی نعمتیں کون سی ہیں؟ پھر میرا جواب سننے کی بجائے از خود بولنے لگا۔ جناب رشوت اور سفارش ہم جیسے لوگوں کے لیے سب سے بڑی نعمتیں ہیں۔ الزام چاہے جیسا ہی ہو، پکڑے جائو قائدِ اعظم دکھا دو با عزت رہائی مِل جائے گی۔ اگر رشوت دینا افورڈ نہیں کر سکتے تو معززینِ علاقہ میں سے کسی کی سفارش کرا لو۔ آئین اور جمہوریت ہماری اتنی مدد نہیں کر سکتے‘ جتنا جلدی اور فوری ریلف رشوت اور سفارش سے مِل جاتا ہے ۔ کیڈی کے دلائل جتنے نا پسندیدہ تھے اتنے ہی جانداربھی تھے۔ زمینی حقائق کیا اس سے مختلف ہیں؟ ہائوس آف فیڈریشن کا نیا چیئرمین بے شک ڈارک ہارس ہو‘ مگر ہارس ٹریڈنگ کی گھاس چرنے والا ہرگز نہیں۔
ضمیر بیچ کے مسند خریدنے والو
نگاہِ اہلِ وطن میں بہت حقیر ہو تُم 
جس طرح پنجابی زبان اور خاص طور پر صوفیانہ شاعری کی اصطلاحوں کا 100 فیصد با معنی ترجمہ کرنا تقریباً نا ممکن ہے‘ کیونکہ جو گہرائی اور گیرائی پنجابی زبان اور طرزِ بیان میں چاشنی سمیت موجود ہے‘ وہ اس کے ترجمے میں کہاں ۔ اسی طرح انگریزی زبان کے بعض لفظ ہمارے ہاں یوں رچ بس گئے ہیں‘ جیسے عنکبوت کا جالا ۔ اس کی سب سے واضح مثال ہارس ٹریڈنگ ہے ۔ جس کا اُردو ترجمہ ہوا گھوڑوں کی خرید و فرخت کا کاروبار۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved