پاناما کیس کا فیصلہ سنانے والے سپریم کورٹ کے بینچ نے شریف فیملی کے خلاف ریفرنسز نمٹانے کی مدت میں دو ماہ کی توسیع کر دی ہے۔ جمعرات کی صبح نیب کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں معزول وزیراعظم کا کہنا تھا‘ چھ ماہ میں ہمارے خلاف کچھ نہیں نکلا تو مزید دو ماہ میں کیا نکل آئے گا؟ مزید فرمایا‘ یہ سب کچھ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔
28 جولائی کے فیصلے میں وزیراعظم نوازشریف کو ''پاناما‘‘ میں نااہل قرار نہیں دیا گیا تھا‘ یہ نااہلی اپنے صاحبزادے کی کمپنی سے ''ریسیو ایبل‘‘ امائونٹ اپنے اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے پر ہوئی تھی۔ فیصلے میں پاناما والے لندن فلیٹس سمیت تین ریفرنسز نیب کورٹ کے سپرد کرنے کا حکم دیا گیا۔ ریفرنسز کی تیاری کے لیے نیب کو چھ ہفتے جبکہ نیب کورٹ کو ان کے فیصلے کے لیے چھ ماہ کی مدت دی گئی تھی۔ اس کیس کی سماعت کرنے والے فاضل بنچ کے ایک معزز رکن کو خاص ان ریفرنسز کے لیے مانیٹرنگ جج بھی مقرر کر دیا گیا۔
چھ ماہ کی مدت کا تعین اور سپریم کورٹ کے فاضل جج کا بطور نگران تقرر بیشتر آئینی ماہرین کے لیے حیرت کا باعث تھا۔ ان کے بقول‘ دبائو کے اس ماحول میں انصاف کے تقاضے پورے نہ ہو سکیں گے۔ ان ہی دنوں چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا ایک بنچ عمران خان کے خلاف کیس کی سماعت بھی کر رہا تھا جس میں جناب چیف جسٹس ایک مسلمہ اصول کی یاددہانی کرا رہے تھے‘ "Justice hurried, Justice burried" ان کا کہنا تھا کہ حقائق تک رسائی کے لیے وہ تمام معاملات کا گہرائی میں جا کر جائزہ لیں گے کہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ کیس کے آخری مرحلے میں تو یوں بھی ہوا کہ خان کے وکیل نے صفائی میں پیش کئے گئے گزشتہ بیانات اور دستاویزات کو نامکمل اور ناقص یادداشت پر مبنی قرار دیتے ہوئے انہیں ایک طرف رکھنے اور نئے ثبوت اور دستاویزات پیش کرنے کی اجازت چاہی۔ انہیں یہ اجازت مرحمت بھی ہو گئی۔
چھ ہفتے کی پابندی کے پیشِ نظر نیب نے شریف فیملی کے خلاف تینوں ریفرنسز مقررہ مدت میں عدالت میں پیش کر دیئے۔ آپا دھاپی میں پیش کئے گئے ان ریفرنسز کی سپورٹ میں‘ بعد میں ضمنی ریفرنسز پیش کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
چھ ماہ کی مدت میں ان ریفرنسز کے فیصلے کے لیے نیب کورٹ عملاً سپیڈی کورٹ بن گئی تھی۔ اُدھر لندن میں بیگم صاحبہ کینسر جیسے موذی مرض سے نبردآزما تھیں‘ اِدھر ان کا جیون ساتھی اور لاڈلی بیٹی عدالت میں پیشیاں بھگت رہے تھے۔ ایک مرحلے پر انہوں نے دو ہفتے استثنیٰ کی اجازت چاہی (یہ کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی نہیں‘ ملزموں کو حاضری سے استثنیٰ دینے کی درخواست تھی) کہ وہ لندن جا کر مریضہ کی عیادت کر سکیں‘ لیکن وہ اس اجازت سے محروم رہے۔ اب صورت یہ تھی کہ ڈے ٹو ڈے سماعت میں باپ بیٹی دونوں عدالت میں موجود ہوتے۔ (جمعرات کی صبح ان کے وکیل کہہ رہے تھے‘ جناب! آپ تو جج صاحب سے بھی پہلے عدالت میں آ موجود ہوتے ہیں) البتہ ان دنوں عدالت نے اتنی مہربانی فرمائی کہ ''بڑے ملزم‘‘ کی ناسازی طبع کے باعث اسے حاضری لگا کر چلے جانے کی اجازت دے دی۔ باقی کارروائی اس کی عدم موجودگی میں جاری رہتی...اس دوران مریم نواز کی پیش کردہ دستاویزات کو جعلی ثابت کرنے کے لیے کیلیبری فونٹ کا معاملہ بھی آیا...اور دلچسپ بات یہ کہ استغاثہ کا گواہ ریڈلی (ویڈیو لنک پر) جرح کے دوران ''ملزمہ‘‘ کے حق میں بیان دے گیا۔
20 اپریل کے فیصلے کے مطابق قائم ہونے والی چھ رکنی جے آئی ٹی نے دو ماہ کی مقررہ مدت میں اپنا کام مکمل کر لیا تھا۔ (فاضل بنچ نے اس کے لیے ''ہیروں‘‘ پر مشتمل جے آئی ٹی کے الفاظ بلاوجہ استعمال نہیں کئے تھے) صرف آٹھ ہفتوں میں دس ضخیم جلدوں پر مشتمل رپورٹ کی تیاری یقیناً ایک محیر العقول کارنامہ تھا۔ اس دوران اس کے کچھ ارکان لندن اور دبئی بھی ہو آئے (لیکن دوحہ جا کر قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ کرنے کی صورت پیدا نہ ہو سکی) استادِ محترم ایاز امیر کے بقول ''معاملے کی تفتیش جے آئی ٹی کرنے بیٹھی تو اس کے ممبران تک فزیکل رسائی نون لیگ کی قیادت کے لیے ناممکن بنا دی گئی۔ ممبران کو حفاظت کہیں اور سے مہیا ہوئی‘‘۔ صرف آٹھ ہفتوں کے اندر پہاڑ سا یہ کام کر گزرنے پر بعض بدگمانوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا یہ سب کچھ بھی بہت پہلے ''کہیں اور‘‘ تیار شدہ تھا جسے اب ''شاملِ نصاب‘‘ کر دیا گیا۔
جمعرات کی دوپہر‘ جب یہ سطور لکھی جا رہی تھیں‘ جے آئی ٹی کے سربراہ جناب واجد ضیاء نیب عدالت میں پیش ہو چکے تھے۔ میڈیا میں بعض ''غیر ذمے دار عناصر‘‘ نے اُن ہی دنوں اس بات کو بھی سکینڈلائز کرنے کی کوشش کی کہ جے آئی ٹی نے شریف فیملی کے اثاثوں کی جانچ پرکھ کے لیے لندن کی جس فرم کی خدمات حاصل کیں‘ وہ جناب واجد ضیاء کے کزن اختر راجا کی تھی۔ ادھر ہمارے رفیقِ کار حبیب اکرم نے لاہور میں بیٹھے بیٹھے سات سمندر پار سے مزید تفصیلات حاصل کر لیں‘ مثلاً یہ کہ کوئسٹ سولیسٹر نامی یہ فرم صرف دو افراد پر مشتمل ہے‘ ایک جناب اختر راجا اور دوسری ان کے ساتھ کام کرنے والی ایک خاتون (یہ شاید ان کی سیکرٹری یا اسسٹنٹ ہوں) یہ عظیم الشان فرم جس آفس سے آپریٹ کرتی ہے‘ 49 دیگر کمپنیاں بھی یہی پتا استعمال کرتی ہیں۔ اپنے اکائونٹ میں سات ہزار ایک سو ستر پائونڈ کی خطیر رقم رکھنے والی یہ فرم آٹھ ہزار پائونڈ سے زائد کی مقروض تھی۔ اب جے آئی ٹی نے اس کی خدمات انچاس ہزار پائونڈ کے عوض حاصل کی تھیں (پاکستانی کرنسی میں یہ رقم چھیاسٹھ لاکھ روپے بنتی تھی) اللہ بھلا کرے‘ واجد ضیاء صاحب کا جنہوں نے وضاحت فرمانے میں تاخیر نہ کی کہ ان خدمات کا اصل معاوضہ تو زیادہ بنتا تھا لیکن راجا صاحب (اپنے کزن کے منہ کو) مروت اور لحاظ سے کام لیتے ہوئے 35 فیصد ڈسکائونٹ دے دیا۔ انچاس ہزار پائونڈ کی یہ رقم اس ڈسکائونٹ کے بعد تھی (اللہ معاف کرے‘ ہم لوگ بھی کیسی ناشکری قوم ہیں)۔
بات کسی اور طرف نکل گئی۔ دو ماہ کی توسیع کے بعد‘ نیب کورٹ کو یہ ریفرنسز نمٹانے کے لیے وسط مئی تک مہلت مل گئی ہے (نیب کورٹ کے جج بشیر احمد کو بھی تین سال کی ایک اور توسیع مل جائے گی)۔ جب فیصلہ آئے گا‘ وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومتیں اپنے آخری دو اڑھائی ہفتے پورے کر رہی ہوں گی۔ عام انتخابات کے انعقاد میں دو اڑھائی ماہ باقی ہوں گے(بعض بداندیشوں کے تبصروں اور تجزیوں کے برعکس اگر یہ آئین کے مطابق ساٹھ دنوں میں ہو گئے) ۔ انتخابی مہم پورے زوروں پر ہو گی۔ ایسے میں نوازشریف اور مریم کو سزا‘ نون لیگ کے حق میں ہمدردی کی لہر کو کہیں سے کہیں لے جائے گی...اکانومسٹ لندن جیسے معتبر جریدے سمیت‘ عالمی ذرائع ابلاغ ابھی سے جس کی مقبولیت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔
گزشتہ شب ایک ٹی وی ٹاک شو میں فرزندِ لال حویلی کہہ رہا تھا‘ قوم گڑھے میں گرنا چاہتی ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں؟ پھر اس نے کروٹ لی اور کہا‘ ایسے نہیں چلے گا۔ ''ان‘‘ کے خلاف ڈنڈا استعمال کرنا پڑے گا‘ نمک مرچ والا ڈنڈا۔ انہیں ''پھکی‘‘ دینا پڑے گی۔