جمہوریت کا عیب یہی ہے کہ اس میں ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول سکتا ہے۔ یہ اپنی ‘عیب جوئی کرنے والوں کو بدزبانیوں کے مواقع بھی دیتی ہے۔ شکایت کرنے والوں کی بھی سنتی ہے۔ اگر کوئی اس کے حق میں کچھ کہنا چاہے‘ تو اسے بھی قبول کرتی ہے۔ نہ یہ اپنے نقادوں کو برا کہتی ہے۔ نہ سراہنے والوں کی نازبرداری کرتی ہے اور نہ ہی دشنام طرازی کرنے والوں کو گھورتی ہے۔ بعض نام نہاد دانشوروں‘ مفکروں اور مدبروں کو ‘ جمہوریت سے ہمیشہ گلہ رہتا ہے کہ یہ ان کی قدر نہیں کرتی۔وہ علامہ اقبال کے اس شعر کو بار بار دہراتے ہیں جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے ایسے لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ وہ اپنی عقل و دانش اور فہم و فراست کے حوالے سے سینکڑوں ہزاروں عام آدمیوں پر بھاری ہیں۔ لیکن جمہوریت میں سینکڑوں ہزاروں کا ووٹ ‘ ان کی فضیلت پر غالب آ جاتا ہے اور عوام کی اکثریت ان کی ذہانت اور دانش مندی کے سامنے سر نہیں جھکاتی۔ ایسے لوگ اس پر یقین رکھتے ہیں کہ بزعمِ خود ایک عقل مند ‘ہزاروں عام آدمیوں کو تولنے کا حق رکھتا ہے۔ جبکہ جمہوریت میں تولنے کا حق ہزاروں کو ملتا ہے اور پھر معاشرے میں بیٹھے ہوئے دو چار دانائوں کو چن کر ان سے کام لے لیا جاتا ہے۔- ایک ہزاروںکو کیوں تولے؟ ہزاروں ایک کو کیوں نہ تولیں؟ جب موجودہ جمہوری دور شروع ہوا‘ تو چند مہینوں کے بعد ہی‘ وہ جو اپنے آپ کو تول میں بھاری سمجھتے تھے‘ جمہوریت کی بساط لپیٹنے‘ نکل کھڑے ہوئے تھے۔ ہر کوئی اپنی پیش گوئی لے کر سامنے آ رہا تھا۔ کسی پیش گوئی میں حکومت کو ہفتوں کی مہلت دی جاتی۔ کسی میں مہینوں کی اور کسی میں باقاعدہ تاریخ لکھ کر اعلان کیا جاتا کہ فلاں دن یہ حکومت ختم ہو جائے گی اور میں بار بار اپنے کالم میں اونٹ کے ہونٹ کی مثال دہرایا کرتا کہ ایک نیم حکیم نے طبی سائنس‘ پڑھ کر یہ جانا تھا کہ کوئی شے تادیر معلق نہیں رہ سکتی۔ اپنی تعلیم مکمل کر کے جب یہ حضرت گائوں کی طرف روانہ ہوئے‘ تو فوراً ہی ایک اونٹ پر نگاہ جا پڑی۔ انہوں نے اونٹ کے لٹکتے ہونٹ کو دیکھ کر سوچا کہ یہ چیز جو ہوا میں معلق ہے‘ زیادہ دیر تک اپنی جگہ نہیں رہ سکتی۔ یہ کسی بھی وقت گر جائے گی۔ چنانچہ حکیم صاحب اونٹ کے پیچھے اس انتظار میں چل دیئے کہ کہیں نہ کہیں تو اس کا ہونٹ گرے گا۔ وہ چلتے چلتے ہانپ گئے۔ ہانپ کے گر گئے۔ گر کے بے ہوش ہو گئے۔ مگر اونٹ اپنے راستے پر چلتا رہا اور اس کا ہونٹ بھی آج تک نہیں گرا۔ہماری جمہوریت کے خاتمے کی تاریخیں دینے والے بھی چلتے چلتے ہانپ گئے۔ ہانپتے ہانپتے گر گئے اور گرے گرے بے ہوش ہو گئے۔ لیکن جمہوریت اپنا پانچ سال کا پڑائو پار کر کے اگلے پڑائو کی طرف گامزن ہے اور قراـئن سے لگتا ہے کہ چلتی ہی رہے گی۔ لیکن ان نیم حکیموں کا کیا بنے گا؟ جو اس کے خاتمے کی پیش گوئیاں کیا کرتے تھے۔ ایک بقراط تو ایوانِ صدر کے بیرونی گیٹ پر جا کر روزانہ پوچھا کرتے تھے کہ ’’صدر صاحب ایمبولینس میں گئے ہیں یا ابھی ایوانِ صدر کے اندر ہیں؟‘‘ ان صاحب کا تو پتہ نہیں کہ وہ خود کسی ہسپتال میں ہیں یا اپنا منہ حجاب کے اندر چھپائے ہمارے درمیان گھوم رہے ہیں؟ بعض تو ایسے تھے جو جنرل کیانی پر دانت پیستے ہوئے باربار ہدایات دے رہے تھے کہ وہ فوراً اقتدار پر قبضہ کر کے اسمبلیوں کو چلتا کریں۔ چند ماہ ناکام رہنے کے بعد یہ ہدایات‘ مشوروں میں بدلیں۔ پھر تجاویز کی شکل اختیار کر گئیں۔ پھر یہ لوگ التجائوں پر اتر آئے۔ آخر میں منتیں کرنے لگے کہ خدا کا واسطہ ‘ حکومت کو ختم کریں۔جمہوریت نے اپنے پانچ سال پورے کر لئے۔ اب یہ لوگ گالی گلوچ پر اتر آئے ہیں اور اپنا سر پیٹنے کی بجائے‘ ان لوگوں پر پتھر پھینک رہے ہیں‘ جو انہیں جہالت سے روکا کرتے تھے۔ انہیں بتایا کرتے تھے کہ عقل کے ناخن لیں‘ ہمارے مسائل کا حل صرف جمہوریت میں ہے۔ دوسرا کوئی بھی طرزِ حکومت مسائل کو مزید الجھا سکتا ہے۔ انہیں حل نہیں کر سکتا۔ مگر یہ لوگ کچھ سمجھنے کو تیار نہیں۔ اب ایک خواجہ سرا کی آڑ لے کر ‘ جمہوریت کے خلاف نیا کیس بنا کر میدان میں اترے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ایک شی میل نے اپنی خوشی کے اظہار کے لئے جو دھمال ڈالی تھی‘ وہ مجرا تھا۔ جس نے ہمارا کلچر تباہ کر دیا۔ ہماری اقدار ملیامیٹ کر دیں۔ ہماری شرافت کا دامن تارتار کر دیا۔ اس جمہوریت کا ختم ہو جانا ہی بہتر ہے۔ خواجہ سرا یا شی میل‘ وہ بدنصیب مخلوق ہے جسے کسی گناہ کے بغیر ہی سزا دے دی جاتی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان اس مظلوم طبقے کی مدد کو آئے اور حکم جاری کر دیا کہ انہیں برابر کا شہری شمار کیا جائے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں انہیں شناختی کارڈ بھی ملنے لگے۔ ان کے ووٹ بھی بن گئے اور انہیں نمائندوں کے چنائو میں حصہ لینے کا حق بھی مل گیا۔ جب یہ حق ملا‘ تو خواجہ سرائوں نے اظہار مسرت کے لئے شہر شہر‘ گائوں گائوں‘ گلی گلی رقص کیا اور چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری کو دعائیں دیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر اظہارمسرت کے لئے ہونے والے رقص نے تو کسی کا ایمان خراب نہیں کیا؟ نہ کلچر تباہ ہوا۔ نہ اخلاق برباد ہوئے۔ لیکن اپنا شناختی کارڈ بننے کے بعد سیاسی پارٹی میں شمولیت کا حق ملنے پر ایک خواجہ سرا نے اپنی پارٹی کی ایک تقریب میں‘ اظہار مسرت کے لئے دھمال ڈال دی‘ توجمہوریت دشمنوں کے اخلاق کے پرخچے اڑ گئے اور وہ بلبلا کر دہائیاں دینے لگے کہ ہمیں جمہوریت سے بچائو۔ تحقیقاتی صحافت کے دعوے کرنے والے عین اپنی ناک کے نیچے دھمال ڈالنے والے کے بارے میں یہ بھی معلوم نہ کر سکے کہ وہ کوئی خاتون تھی یا شی میل؟ جو چیف جسٹس آف پاکستان کی مہربانی سے ایک سیاسی پارٹی کی رکنیت لے کر ‘ اس کی ایک تقریب میں باعزت شہری کی حیثیت سے پہنچ پایا اور وہاں دھمال ڈال کر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ تفتیشی صحافی کے اسلام کو ایک ٹھمکے سے خطرے میں ڈالنے والی ’’دوشیزہ‘‘کا نام ہاشم خان ہے۔ اسلام کو بھی کیسے کیسے محافظ ملتے ہیں؟ جھاڑی پر دوپٹہ ڈال دیں ‘ تو ان کا اسلام خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ دوپٹے والی جھاڑی کو ہلا دیں‘ تو انہیں ڈانس اور فحاشی سے خوف آنے لگتا ہے۔ہوا کے جھونکے سے دوپٹہ اڑنے پر جھاڑی دکھائی دینے لگے‘ تو روتے ہیں کہ انہیں دھوکا دیا گیا۔ جمہوریت ‘ عوامی راج کا نام ہے۔ عوام کس طرح راج کرتے ہیں؟یہ معاشرے کی اس تاریخی اور سماجی حالت پر منحصر ہوتا ہے‘ جس سے وہ اس وقت گزر رہا ہو۔ پاکستانی معاشرہ ابھی قبیلہ داری اور جاگیرداری کے درمیانی درجے پر ہے۔ مشینی ذرائع پیداوار سے ہماری معیشت کا بہت تھوڑا حصہ استفادہ کر رہا ہے۔ قدیم تجارتی ذہنیت کو ‘ جدید انتظامی ہنرمندیاں ‘ضرور حاصل ہو گئی ہیں لیکن نفع خوری کی سطح‘ بنیاگیری سے اگلے درجے تک نہیں پہنچی۔ پیداوار کی تقسیم کا نظام انتہائی فرسودہ اور غیرمنصفانہ ہے۔ ایسے نیم سرمایہ دارانہ نظام میں‘ سب سے زیادہ بے بس اور محروم طبقہ وہ ہوتا ہے‘ جس کے پاس سب سے کم پیسہ ہو اور سب سے زیادہ طاقتور وہ طبقے ہوتے ہیں‘ جو زیادہ پیسے کے مالک ہوں۔ ملکیت کا یہ تصور اس طبقے کے وجود پر حاوی ہو جاتا ہے۔ وہ ہرچیز کو اپنی ملکیت میں لینا چاہتا ہے۔ تمام آسودگیوں‘ خوشیوں‘ عیاشیوں اور عیش و عشرت کے تمام مظاہروں پر اجارہ داری چاہتا ہے۔ غریبوں کے گھر میں شادی بیاہ کے گیت بھی گائے جا رہے ہوں تو اسے فحاشی لگتی ہے اور بنگلوں اور فارم ہائوسز میں بے حیائی کے مظاہرے بھی کلچر کہلاتے ہیں۔ محروم طبقوں سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد ‘ اشرافیہ کی محفل میں جا دھمکے‘ تو وہ کلچر کے لئے خطرہ بن جاتا ہے۔ ایک خواجہ سرا کا اعلیٰ درجے کی سیاسی محفل میں دھمال ڈالنا‘ اسی طرح کی بدتمیزی تھی‘ جو ناقابل معافی ہے۔ مگر کیا کریں؟ جمہوریت میں یہی کچھ ہوتا ہے۔ اقتدار کے مقفل ایوانوں میں کچلے ہوئے طبقوں کی دھیرے دھیرے رسائی ہونے لگتی ہے۔ابتدا میں وہ حکمران طبقوں کے اربابِ نشاط ہوتے ہیں مگر آہستہ آہستہ اقتدار میں اپنا حصہ مانگنے لگتے ہیں۔ ہمارے ملک میں 65سال کے بعد یہ عمل شروع ہوا ہے۔ مگر محروم طبقوں کی آزادیاں کچلنے کے لئے حکمران طبقوں نے ان گنت محافظ کھڑے کر دیئے ہیں۔ مسلح گروہوں سے لے کر فرقہ پرست تنظیموں تک‘ ان گنت طاقتیں عوامی جدوجہد کی کمر توڑنے کے لئے لنگرلنگوٹ کس رہی ہیں۔ایک تاریخی لڑائی کا میدان سجنے والا ہے۔ میں نہیں جانتا‘ اس لڑائی میں کب تیزی آئے گی؟ لیکن فطری طور پر ایک دوسرے سے ٹکرانے والی طاقتیںقدم بقدم آگے بڑھ رہی ہیں۔یہ لڑائی جمہوری نظام کے اندر رہے تو لڑائی کا ارتقائی عمل پرامن ہو سکتا ہے۔ مگر بے تاب استحصالی طاقتوں میں صبر نہیں ہوا کرتا۔ پاکستان کے کوتاہ اندیش استحصالی طبقے ‘ جمہوریت کے صبر آزما عمل سے گزرنے پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ تیزی کے ساتھ اپنے شکنجے کو تنگ سے تنگ تر کرنے کے خواہش مند ہیں۔ جس سے جمہوریت کو ہر وقت خطرہ لاحق رہے گا۔ ٭٭٭٭٭
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved