یہ دریا ہے
یا تیرے شاعر کا سینہ ہے
جس میں مہا رنگ موتی ہے
اس گہرے دریا پہ
کیسے
ستاروں کی جھلمل ہے
کس دُودھیا روشنی کی طربناک لرزش ہے
اندھی‘ اندھیروں بھری گہری پاتال میں
اک اُبھرتا ہوا
کیسا مہتاب ہے
تیرے شاعر کے شفاف لفظوں کی صورت
اُفق کے سیہ رنگ سینے سے
باہر نکلنے کو
مہتاب بیتاب ہے
اقتدار جاوید کا شمار اُن شعرا میں ہوتا ہے جن کے دم قدم سے جدید اردو نظم کا بھرم قائم ہے۔ یہ ایک طرح کا اجتہاد بھی ہے کیونکہ ہمارے ہاں (آزاد) نظم کا چلن ابھی بوجوہ عام نہیں ہوا ہے اور نظم کو اس ذوق و شوق سے نہیں پڑھا جاتا جس آمادگی سے ہمارے ہاں غزل پڑھی جاتی ہے اور جس کے اپنے اسباب ہیں جو کہ ایک اچھی خاصی بحث ہے جس کی یہاں پر گنجائش نہیں ہے بلکہ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ نظمیں صرف نظم گو شعراء ہی پڑھتے ہیں۔ شاعری تو ہمارے ہاں ویسے ہی کم بکتی ہے جبکہ غزل سے نظم کی طرف آتے ہوئے یہ اوسط مزید کم ہو جاتی ہے‘ جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
اس کا ایک سبب قاری کی آسانی بھی ہے کیونکہ غزل کا شعر محض دو مصرعوں کی مار ہوتا ہے جس کی وجہ سے شاعر کا وقت بھی کم خرچ ہوتا ہے اور وہ فوراً اس نتیجے پر بھی پہنچ جاتا ہے کہ غزل اس نے پوری پڑھنی بھی ہے یا نہیں یعنی یہ بڑا کام صرف غزل کا مطلع ہی سرانجام دے دیتا ہے جبکہ نظم چاہے پچاس مصرعوں کی ہی کیوں نہ ہو‘ اس کی پوری قرأت ہی قاری کو کسی نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ یہ نظم اسے پڑھنی چاہیے تھی یا نہیں۔ شعروادب کے لیے تو وقت ہمارے پاس پہلے ہی نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے اور ہم افورڈ ہی نہیں کر سکتے کہ پوری نظم پڑھنے کے بعد مایوسی کا شکار ہو جائیں اسی لیے میں کہا کرتا ہوں کہ نظم جہاں تک ہو سکے مختصر ہونی چاہیے۔ اقتدار جاوید جن کی نظم اوپر درج کی گئی ہے جو ان کے تازہ مجموعے کی پہلی نظم ہے جو اس کتاب کی سب سے چھوٹی نظم ہے اور شاید پیش لفظ کے طور پر شامل کی گئی ہے کیونکہ نہ اس پر کوئی عنوان ہے اور نہ ہی یہ فہرست میں شامل ہے‘ کتاب کا نام ہے ''عین سر پہ ستارہ‘‘ جسے کلاسک لاہور نے چھاپا اور اس کی قیمت 500 روپے رکھی ہے۔ یہ خاصی قد آور نظمیں ہیں جن کی تعداد 30 ہے جن میں ایک طویل نظم بھی شامل ہے جس کا عنوان ''دیو مالا‘‘ ہے اور جو پندرہ چھوٹی نظموں پر مشتمل ہے جو خود بھی کوئی اتنی چھوٹی نہیں ہیں۔ کتاب کا انتساب ڈاکٹر وزیر آغا کے نام ہے۔ دیباچہ بزبان انگریزی سینئر شاعر سید افسر ساجد نے لکھا ہے جو پہلے ''پاکستان ٹوڈے‘‘ میں شائع ہو چکا ہے اور جس کا ایک حصہ پس سرورق بھی درج کیا گیا۔ اندرون سرورق ارشد نعیم کے قلم سے ہے جو سہ ماہی مجلہ ''فنون‘‘ کے شکریے کے ساتھ چھاپا گیا ہے۔ ارشد نعیم کے مطابق :
''نظم میں اقتدار نے ابتداً اپنی ذات کے ساتھ جڑی ہوئی زندگی کو موضوع بنایا ہے اور پھر نظم آہستہ آہستہ اپنا پھیلائو دائرہ در دائرہ آگے بڑھاتی ہے اور ہماری اجتماعی زندگی کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے، اسی طرح ان نظموں میں بننے والے چھوٹے چھوٹے تخلیقی دائرے ایک بڑے کینوس سے ہمکنار ہوتے ہیں اور ایک بڑی تخلیقی واردات کا حصہ بنتے ہیں اور یوں ذرہ ذرہ اُڑتی ہوئی زندگی ایک بڑے ہیولے کی صورت میں ہمارے تخلیقی شعور میں اُبھرتی ہے جس میں بہت سے رنگ، بہت سے احساسات باہم مل کے ایک وسیع منظرنامہ بناتے ہیں۔
اقتدار جاوید کے ہاں نظم کے رنگا رنگ موضوعات شعری تجربے اور تخلیقی واردات کا پوری طرح حصہ بن کر اُبھرتے ہیں اور نظم میں موضوع کے رنگ تخلیقی عمل کے ساتھ پوری طرح مربوط دکھائی دیتے ہیں۔ یہ عمل ان کو دیگر جدید نظم نگاروں سے ممتاز اور منفرد بھی بناتا ہے اور ثابت کرتا ہے کہ وہ اس عہدے کا نمائندہ نظم نگار ہے‘‘۔
اقتدار جاوید کی نظم کی ایک خوبی بلکہ خوبصورتی یہ بھی ہے کہ یہ قاری کو اپنے ساتھ رکھتی ہے اور ادھر ادھر نہیں ہونے دیتی۔ پھر وہ بالعموم قوافی سے بھی کام لیتے ہیں جو نظم میں ایک طرح کی نغمگی پیدا کرنے کا بھی سبب بنتا ہے۔ ہمارے قارئین کے لیے اقتدار جاوید ایک جانا پہچانا نام ہے اور میں ان کی بے شمار نظمیں پیش بھی کر چکا ہوں۔ ان کی دوسری خوبی یہ ہے کہ یہ نظم کو معمہ بنانے کی کوشش نہیں کرتے کیونکہ انہیں اس کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ وجہ یہ کہ نہ صرف ان کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہوتا ہے بلکہ کہنے کا ایک دلآویز ہُنر بھی۔ ہمارے بعض شعراء اور شاعرات جان بوجھ کر نظم کو ایک چیستان بنا دیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا اور یہ زیادہ تر نثری نظموں میں ہوتا ہے اور ناقابل فہم ہونا ہی ان کی اصل پناہ گاہ بھی ہے۔
اقتدار جاوید کی نسبتاً لمبی نظم بھی قاری کو اُکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتی مثلاً یہ نظم دیکھیے :
ترسیل
میں کوئی شے دوبارہ نہیں لکھ رہا؍ صرف دُہرا رہا ہوں؍ کوئی پیش‘ جزم اور زیر اور زبر تک؍بدلنے نہیں جا رہا؍ یہ حکایت قدیمی ہے؍ یُگ ریت کے دانوں کی طرح اُڑتے ہیں لیکن؍ حکایت کہ ذرہ برابر بھی تبدیل ہوتی نہیں؍ اس حکایت کا سُننا سُنانا؍ زمانے کو دھکا لگانا ہے؍ زمانے کو آگے بڑھانا ہے)؍رسیا وہی لوگ ہیں اس حکایت کے جو؍ اس سے معنی نیا اخذ کرنے پہ قادر ہیں؍ لذت سے بھرپور ہے اُن کی طبع؍ پھلوں سے بھری ٹوکری ہے حکایت؍ حکایت وہ رنگلا کبوتر ہے جو ؍ پیڑ کے شاخچوں پر نہیں بیٹھتا ہے؍ مزاروں پہ اُڑتا ہے؍ لوگوں سے جڑتا ہے؍ دریا ہے کوئی کہ جس نے؍ پہاڑوں کو اور سبز میدانوں کو؍ چیرتے ڈیلٹے میں اُترنا ہے؍ رنگوں کا معمورہ ہے یہ حکایت؍ حکایت کا اک لفظ بھی جس کے اندر اترتا ہے؍ وہ رنگین ہوتا ہے؍ رنگین تر ہونے والے کے اندر؍ کوئی جین ہوتا ہے؍ جو دوبارہ حکایت کی تشکیل کرتا ہے؍ اور آنے والے زمانوں کی جانب؍ حکایت کی ترسیل کرتا ہے!
نوٹ:شعیب زمان کا درست شعر یہ ہے۔
جسے چٹکی بجانا کہہ رہے ہو
ہماری انگلیوں کی گفتگو ہے
آج کا مقطع
سب اُنگلیاں ہی چاٹتے رہ جائیں گے‘ ظفرؔ
پکوان ہی کچھ ایسا کرارہ بنایا ہے