بطور ایک قوم کے ، ہم پاکستانی دنیا سے اتنا پیچھے کیوں ہیں ۔ اس کا جواب بعد میں، پہلے تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان سے میں اپنے دل کی بات کہنا چاہوں گا۔ 2013ء میں میں نے کپتان کو ووٹ دیااور 2018ء میں بھی یہی ارادہ ہے ۔ اس لیے کہ باقیوں کو تو موقع مل ہی چکا ہے ، اب ایک بار تحریکِ انصاف کو بھی مرکز میں حکومت ملنی چاہئے۔ پتہ تو چلے اس میں کتنا دم ہے ۔
تحریکِ انصاف کی ناکامی کی دو بڑی وجوہات ۔ آ پ نے دیکھا کہ کپتان سینیٹ میں تحریکِ انصاف کے ممبران کی طرف سے رشوت لینے پر حیران پریشان ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ عمران خان کا یہ نظریہ تھا کہ چونکہ میں خود مالی طور پرصاف شفاف ہوں ‘ اس لیے جو بھی میری پارٹی میں شامل ہوگا، وہ میرے نظریے کو قبول کر کے اس کا حصہ بنے گا اور وہ کرپشن نہیں کرے گا۔ یہ نظریہ غلط ثابت ہوا۔ ایک شخص جو کہ بدنام اور کرپٹ ہے ، جو کئی سیاسی پارٹیاں بدل چکا ہے ،اگر وہ تحریکِ انصاف میں شامل ہو کر غلط ہتھکنڈوں سے اور پیسے لٹا کر پارٹی الیکشن جیتتا ہے‘ اس کے بعد اسے عام انتخابات میں ٹکٹ بھی مل جاتاہے اور وہ جیت بھی جاتاہے ‘ اب جیسے ہی اسے کرپشن کا موقع ملے گا ، جیسا کہ سینیٹ الیکشن میں ملا تو وہ کروڑوں روپوں کی پیشکش کبھی بھی نہیں ٹھکرا سکے گا ۔انسانی فطرت آسانی سے بدلتی نہیں ۔ یہ اسی طرح ہے کہ جیسے اگر ایک بہت نیک شخص کیکر کا پودا لگائے تواس کی نیکی کی وجہ سے اس درخت پر انگور یا سیب نہیں لگ سکتے ۔ اصل خرابی تبھی پیدا ہوگئی ، جب کرپٹ ، بدنام اور بار بار پارٹیاں بدلنے والے لوگوں کو جماعت میں قبول کیا گیا ۔ ان کی جگہ فوزیہ قصوری یا جسٹس وجیہ الدین احمد ہوتے، وہ کبھی مر کے بھی رشوت نہ لیتے ۔ جسٹس وجیہ الدین احمد نے پارٹی الیکشن کے حوالے سے جو سفارشات دی تھیں ، اگر ان پر عمل کیا جاتا تو بھی یہ مسائل حل ہو جاتے لیکن الٹا انہیں اور ان جیسے دوسرے مخلص لوگوں کو ایک ایک کر کے نکال باہر کیا گیا۔ان حالات میں تحریکِ انصاف کی قیادت کو اب سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ جماعت کے اندر صفائی کی شدید ترین ضرورت ہے ۔ جسٹس وجیہ الدین احمد اور ان جیسے دوسرے لوگوں کو منانے اور منصب سونپنے کی ضرورت ہے ۔وقت بہت نازک ہے ۔ الیکشن سر پہ کھڑا ہے ۔
دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے حامیوں میں سے جو سوشل میڈیا پر غالب ہیں ، ان میں شدید بدتمیزی کا رجحان پایا جاتاہے ۔چار پانچ سال پہلے نصرت جاوید صاحب نے کپتان پر ہلکی پھلکی تنقید کی تو ایک طوفان بدتمیزی انہوں نے برپا کر دیا۔ مسلسل گالم گلوچ اور بدتمیزی کے نتیجے میں میڈیا کے وہ لوگ ، جن کے دلوں میں عمران خان کے لیے نرم گوشہ ہوتا ہے ، وہ الٹا کپتان کے کٹر دشمن بن جاتے ہیں ۔ عمران خان سے بہت بڑی غلطیاں سرزد ہوتی رہی ہیں لیکن ان لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ کپتان کے سارے اقدامات درست ہوتے ہیں اور ان پر کسی قسم کی تنقید بھی نہیں کی جا سکتی۔ اگر وہ قاف لیگ، نون لیگ اور پیپلزپارٹی میں اقتدار کے مزے لینے کے بعد تحریکِ انصاف میں آنے والی محترمہ فردوس عاشق اعوان کو قبول کرتے ہیں تو ایک لفظ بھی ان کے خلاف لکھا اور بولا نہیں جا سکتا۔اب فردوس عاشق اعوان صاحبہ کا عمران خان کے نظریے سے کتنا تعلق ہے ، یہ بات کسی وضاحت کی محتاج نہیں ۔
عمران خان نے پچھلے کچھ عرصے میں جو غلطیاں کیں ، اگر ان کی نشاندہی نہیں کی جاتی اور'سب اچھا‘ کا نعرہ لگا کر ہم آگے بڑھ جاتے ہیں تو معاملات ٹھیک کیسے ہوں گے ؟ کیا ان کی اندھی تقلید کرنے والے اور کرپٹ ترین لوگوں کو شامل کرنے پر بھی تحسین کے ڈونگرے برسانے والے 2018ء کے الیکشن میں ان کی شکست کی راہ ہموار نہیں کر رہے ؟ گو کہ پانامہ لیکس کے نتیجے میں نواز شریف کی نا اہلی کے بعد کپتان کی فتح کے امکانات بھی موجود ہیں لیکن غلطیوں کو سدھارنا ازحد ضروری ہے ۔ اگر نہیں تو پھر اقتدار ملنے کے بعد بھی ناکامی ہو گی۔ جیسا کہ سینیٹ الیکشن میں آپ نے دیکھا ۔
حال اور ماضی قریب میں عمران خان نے کیا غلطیاں کیں ۔ان میں سے چند ایک یہ ہیں ۔ میانوالی کے ایک حلقے میں پارٹی میں نووارد ایک خاندان کو ٹکٹ دینے پر اصرار سے اپنے خاندان کے اندر ایک ایسی تقسیم پیدا کی، جس کی قیمت ابھی تک چکانا پڑ رہی ہے ۔ یہی نہیں ، وہ حلقہ بھی ہاتھ سے گیا ، جہاں عمران خان نے جیت کر سیٹ خالی کی تھی ۔ سیاسی تاریخ میں ایسا شاذ ہی ہوتا ہے کہ ایک پارٹی جیتا ہوا حلقہ دوبارہ الیکشن میں ہار جائے ۔ پھر دھرنے کے ہنگام عمران خان نے سول نافرمانی کا اعلان کیا۔ اس سے انہیں پیچھے ہٹنا پڑا اور جنگ ہنسائی الگ ہوئی ۔ سول نافرمانی غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف آزادی کی تحریک میں کی جاتی ہے ۔ پھر یہ کہ شادی ایک ایسی مبارک سنت ہے، جو کہ پاک دامنی کے لیے اختیار کی جاتی ہے ۔ یہ بہت خوشی اور نیکی کا کام ہے لیکن خان صاحب نے دوسری اور تیسری شاد ی کے معاملات اس طرح طے کیے ، کہ یہ شادیاں اوّل خفیہ رہیں ، پھر سکینڈل کی طرح سامنے آئیں۔ پھر تردیدہوئی۔ پھر تسلیم کیا گیا ۔ پھر شادی ختم ہوئی ۔ پھر جس طریقے سے تیسری شادی کے معاملات ہوئے ، وہ سب کے سامنے ہے۔ اگر معاملات احتیاط سے طے کیے جاتے تو یہ عین ممکن تھا کہ خان صاحب دھوم دھڑکے اور ڈنکے کی چوٹ پر شادی کرتے اور کسی مخالف کے پاس ان پر فقرہ کسنے کا کوئی موقع نہ ہوتا ۔
گالم گلوچ والا معاملہ اور بھی سنگین ہے ۔ فیس بک پر جو صاحب پارٹی کے سب سے بڑے حمایتی ہیں ،ہزاروں لوگ جن کو followکر رہے ہیں ، انہوں نے چار سال پہلے مجھ سے رابطہ کیا ۔ ایک پوسٹ میں یہ لکھ کر مجھے Tagکیا اور تحریکِ انصاف کے درجنوں کارکنوں کو کہ بلال الرشید کو لکھنا نہیں آتا اور وہ صرف اور صرف ہارون الرشید کا صاحبزادہ ہونے کی وجہ سے کالم نگار بنا بیٹھا ہے ۔ساتھ بات کو بیلنس کرنے کے لیے یہ بھی لکھ دیا کہ فلاں کو بھی لکھنا نہیں آتا اور وہ بھی اپنے والد کی وجہ سے میڈیا میںبراجمان ہے ۔ وجہ صرف اتنی سی تھی کہ میرے والد نے کپتان پر کچھ تنقید کر دی تھی۔مجھے تو آج تک یہی فیڈ بیک ملا ہے کہ آپ اچھا لکھتے ہیں اوراپنے والد سے ہٹ کر بھی آپ نے اپنی شناخت بنائی ہے ۔چلیے، فرض کیجیے کہ میں نا اہل اور سفارشی ہی ہوں لیکن میں ایک قومی اخبار میں لکھ رہا ہوں ۔ تحریکِ انصاف والے میرے خلاف گالم گلوچ کر کے اگر مجھے اپنے خلاف کر لیتے ہیں تو اس سے جماعت کو کون سا فائدہ حاصل ہوگا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا یہ کپتان کے نادان دوستوں کا ایک ٹولہ ہے ، جو ان کے لیے شدید مشکلات کھڑی کر رہا ہے ۔ میں تو ایک معمولی کالم نگار ہوں لیکن بہت سے بڑے لکھنے اور بولنے والوں کو بھی انہوں نے معمولی تنقید کے جواب میں گالم گلوچ کر کے عمران خان کا دشمن بنا دیا ہے ۔اس معاملے پر اوراس سوال پر کہ پاکستانی قوم دوسروں سے اتنا پیچھے کیوں ہے، ضروری معروضات اگلے کالم میں عرض کروں گا۔
(جاری )