ایک سوال گھوم پھر کر سامنے آتا رہتا ہے۔ اور اب پھر سامنے آگیا ہے، بلکہ اس بار تو ماہرین بھی تحقیق کی بساط جما بیٹھے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ خواتین زیادہ کیوں جیتی ہیں؟
بظاہر یہ سوال پیچیدہ ہے مگر اِس سوال کا آسان سا جواب تو یہ ہے کہ وہ چونکہ ہر معاملے میں ''جیتتی‘‘ ہیں اس لیے زیادہ جیتی ہیں! اب یہ مت پوچھیے گا کہ وہ ہر معاملے میں کیوں جیتتی ہیں۔ اگر ہر سوال کے جواب میں جوابی سوال داغا جاتا رہا تو سمجھ لیجیے گئی بھینس پانی میں۔
تمسخر برطرف، ایک ہم ہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر مرد کسی نہ کسی مرحلے پر یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ خواتین کی اوسط عمر زیادہ کیوں ہوتی ہے۔ عام مردوں کی تو خیر بساط ہی کیا ہے، اچھے اچھے ماہرین بھی اب تک ڈھنگ سے معلوم نہیں کر پائے کہ خواتین طویل مدت تک کیوں جیتی ہیں۔
اب ماہرین دور کی کوڑی لائے ہیں کہ خواتین کا مدافعتی نظام چونکہ دیر سے بوڑھا ہوتا ہے اس لیے وہ زیادہ عرصہ زندہ رہتی ہیں۔ معروف جریدے ''امیونٹی اینڈ ایجنگ‘‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں سائنس دانوں نے کہا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مردوں کا مدافعتی نظام تیزی سے کمزور ہوتا چلا جاتا ہے جو اُن کے جسم کو تیزی سے کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے اور یوں اُن کی عمر گھٹتی جاتی ہے۔ مدافعتی نظام جسم میں سرطان اور انفیکشن کے خلاف مزاحمت کی قوت پیدا کرتا ہے۔ اس نظام کے کمزور پڑنے سے مختلف عوارض جسم پر حملہ آور ہونے لگتے ہیں۔ مزید یہ کہ مدافعتی نظام میں رونما ہونے والی شکست و ریخت کو بنیاد بناکر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان اندازاً کتنے برس تک جیے گا۔
دیکھا آپ نے؟ ماہرین نے پھر باریک کام کر دکھایا۔ خواتین کی اوسط عمر زیادہ ہونے کا معاملہ انہوں نے کتنی خوبصورتی سے قوتِ مدافعت کے کھاتے میں ڈال دیا۔ ماہرین کہتے ہیں تو ہم مان لیتے ہیں کہ خواتین میں مدافعتی نظام زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور دیر سے بوڑھا ہوتا ہے مگر یہ بات پڑھ کر دنیا کے ہر مرد کے ذہن میں ایک بنیادی سوال ضرور ابھرے گا کہ آخر خواتین ہی میں یہ نظام دیر سے بوڑھا کیوں ہوتا ہے۔ ماہرین اِس کا سبب بھی تو معلوم کریں۔ جب تک اس سوال کا جواب نہیں مل جاتا تب تک مرد و زن میں مدافعتی نظام کے فرق سے متعلق تحقیق ادھوری اور غیر بار آور رہے گی۔
ہم کوئی جینیات کے ماہر ہیں نہ عمرانیات کے۔ اور نہ ہی نفسیات میں شُدبُد کا دعویٰ ہے۔ پھر بھی مرد تو ہیں اِس لیے خواتین کو اللہ کی طرف سے بخشے گئے ''استثنائِ عمر‘‘ کے بارے میں اکثر سوچا کرتے ہیں۔ ویسے تو خیر ابنِ انشاؔء مرحوم نے اپنی مشہورِ زمانہ تصنیف ''اردو کی آخری کتاب‘‘ میں محض ایک جملے میں مرد کی ''تاریخ‘‘ یوں بیان کی ہے کہ کوزے میں دریا بند کردیا ہے۔ جو کچھ انہوں نے لکھا ہے اُس کا مفہوم یہ ہے کہ مرد وہ جانور ہے جو اپنی مادہ کی خدمت کے حوالے سے اس قدر سرگرم رہا ہے کہ بے چارے دُم جھڑ گئی ہے اور کُھر گِھس گئے ہیں!
ہم اور ابن انشاؔ جیسی نابغۂ روزگار ہستی سے اختلافِ رائے کریں! ع
یہ تاب، یہ مجال، یہ جرأت نہیں ''ہمیں‘‘
جو رائے اُنہوں نے مردوں کے بارے میں دی ہے اُس سے ہم سو فیصد متفق ہیں۔ ہمارا خیال ہے اِسی رائے کے راستے پر تھوڑی دور اور چلیے تو ہمیں اپنے سوال کا جواب بھی مل جائے گی۔ جس طور مردوں کی دُم جھڑ گئی ہے اور کُھر گِھس گئے ہیں بالکل اُسی طور مدافعتی نظام بھی تیزی سے ''ایکسپائری‘‘ کی منزل تک پہنچ گیا ہے۔
مدافعتی نظام کا مطلب ہے دفاع کا نظام۔ دفاع کی ضرورت اُس وقت پیش آتی ہے جب حملے ہو رہے ہوں۔ مرد کی زندگی میں حملے کب نہیں ہوتے؟ شادی سے پہلے اور شادی کے بعد یہ کیفیت برقرار رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مرد کی پوری زندگی سو طرح کے حملوں سے اپنے دفاع ہی میں گزر جاتی ہے۔ شادی سے پہلے کا معاملہ یہ ہے کہ گھر سے تعلیمی ادارے ادارے یا ورک پلیس تک ہر جگہ خواتین کا سامنا رہتا ہے۔ اِن سے نمٹنے میں اُس کے وقت اور صلاحیتوں کا بڑا حصہ یوں صرف ہو جاتا ہے کہ اِس حوالے سے صرف تاسّف ہی کا آپشن رہ جاتا ہے! سوال شادی شدہ ہونے نہ ہونے کا نہیں، معاملہ فرمائشی پروگرام کی تکمیل کا ہے۔ شادی سے پہلے ماں کا حکم، بہنوں اور بھابیوں کے مطالبات ... اور اگر دل مانے تو دفتر یا کسی اور ورک پلیس میں لیڈی کولیگز کی فرمائشیں۔ اِن تمام مراحل سے گزرتے ہوئے بھی مرد بے چارے نفسی اور معاشی طور پر اَدھ مُوئے ہوچکے ہوتے ہیں۔ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق آخری اور فیصلہ کن ہتھوڑا شریکِ حیات کی شکل میں پڑتا ہے اور اِس کے بعد مردوں کے چراغوں میں روشنی نہیں رہتی!
شادی شدہ مرد ایک حد تک ہی مزاحمت اور مدافعت کرسکتے ہیں۔ ہر معاملے میں مزاحمت اور مدافعت کا حق ادا کرنا بڑے بڑوں کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ عام مرد تو بے چارے تین چار حملوں ہی میں ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور محاذ آرائی پر لعنت بھیجتے ہوئے پسپائی اختیار کرتے ہیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ دوسروں کے تجربے سے انہوں نے یہ سیکھ لیا ہوتا ہے کہ جب آگے چل کر بھی ہمت ہارنا ہے اور پسپا ہی ہو جانا ہے تو وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ پہلی فرصت میں وہ ہمت ہار کر تھوڑا بہت سکونِ قلبی جیتنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں!
ہم نے جب اِس موضوع کے انتہائی ایکسپرٹ مرزا تنقید بیگ سے رجوع کیا تو اُنہوں نے ہماری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی بیان داغ دیا ''خواتین کا مدافعتی نظام اگر دیر سے بوڑھا ہوتا ہے تو اِس میں اُن کا کمال کیا ہے؟ اُنہیں مدافعت کرنی ہی کب پڑتی ہے؟ زندگی بھر اُن کی طرف سے صرف حملے ہوتے ہیں اور دفاعی پوزیشن مردوں کو اختیار کرنا پڑتی ہے۔ جو زندگی بھر دفاع کرتا رہے گا دفاعی نظام اُسی کا تو جلد بوڑھا ہوگا۔‘‘
ہم نے ''نکتۂ اعتراض‘‘ پر کہا کہ موقع ملتے ہی آپ اپنی کہانی سنانا شروع کردیتے ہیں۔ خدارا آپ بیتی مت سُنایا کیجیے۔ اِس پر مرزا نے کہا ''ہماری تمہاری کیا، یہ تو سبھی کی کہانی ہے۔ سب کا یہی فسانہ ہے۔ کوئی قبول کرتا ہے، کوئی نہیں کرتا۔ ہمیں بھی یہ تسلیم کرنے میں کچھ عار نہیں کہ ہمارا مدافعتی نظام تقریباً جواب دے چکا ہے۔ حد یہ ہے کہ کھانسنے اور چھینکنے کے لیے بھی بیگم کی طرف دیکھنا پڑتا ہے کیونکہ قوتِ مدافعت گھٹ جانے کے باعث کھانسی اسٹارٹ لیتی ہے تو دور دور تک بریک دکھائی نہیں دیتا اور چھینکیں آتی ہیں تو آتی ہی چلی جاتی ہیں!‘‘
ہمارا ذاتی اور خاصا پختہ و مستند مشاہدہ ہے کہ رنڈوے جلد مر جاتے ہیں اور بیوائیں طویل عمر پاتی ہیں۔ ہم سمجھتے تھے کہ مرد کو بیوی کا غم چاٹ جاتا ہے اور عورت کو شوہر کے جانے کی چنداں پروا نہیں ہوتی! مگر اب ماہرین نے مدافعتی نظام کا ٹنٹا کھڑا کرکے خواتین کی آبرو بچانے کی کوشش کی ہے! گویا ع
جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
چلیے، یوں ہی سہی۔ ع
سرِتسلیم خم ہے، جو مزاجِ یار میں آئے!
اہلیہ سمیت تمام خواتین سے ہم یہی کہیں گے کہ ہم ہوں نہ ہوں، ہمارے بعد ... تم جیو ہزاروں سال!