تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     10-03-2018

کاش عدلیہ اپنی حدود سے تجاوز کرتی

ہم خوشی سے پھول نہ جاتے اگر واقعی یہ گمان ہوتا کہ عدلیہ ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے حدود سے تجاوز کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔ حدود کیا پھلانگنا تھیں اعلیٰ عدلیہ نے تو دو تین اقدام ہی کیے ہیں اور مخصوص مخلوقِ سیاست چیخ اُٹھی ہے کہ پارلیمنٹ کی بالا دستی کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
اِن کا تصورِ پارلیمانی بالا دستی بھی عجیب ہے۔ جو جی میں آئے کرتے پھریں اور اِن سے کوئی کچھ نہ پوچھے‘ تو اِن کی نظروں میں یہ جمہوریت اور پارلیمان کی بالا دستی ہے۔ نام پانامہ پیپرز میں آئیں، بیرون ملک جائیدادوں کا کوئی جواز پیش نہ کر سکیں۔ قانون اور آئین کے تحت اِن سے سوالات پوچھے جائیں تو اِن کی حساس نظروں میں جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے‘ اور پارلیمان کی بالا دستی مشکوک ہو جاتی ہیں۔ اسرائیل میں برسر اقتدار وزیر اعظم سے پولیس پوچھ گچھ کرتی ہے اور اُن کے گھر جا کے سوال کیے جاتے ہیں۔ وہاں کوئی نہیں کہتا کہ جمہوریت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ امریکی صدر کو دنیا کا طاقتور ترین شخص سمجھا جاتا ہے۔ وہاں پہ صدر نِکسن سے تفتیش ہوتی ہے۔ بِل کلنٹن کو بطور صدر مواخذہ (Impeachment) کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گرینڈ جیوری کے سوالوں کا جواب ویڈیو لنک سے دینا پڑتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے روس کے ساتھ روابط کے بارے میں سپیشل پراسیکیوٹر نامزد ہوتا ہے اور وہ سارے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی آواز نہیں اُٹھتی کہ جمہوریت خطرے میں ہے یا جسٹس ڈیپارٹمنٹ اپنی حدود سے تجاوز کر رہا ہے۔ ہمارے جمہوریت پسندوں کا ملاحظہ ہو۔ تھوڑی سی پوچھ گچھ ہو تو آسمان سر پہ اُٹھا لیتے ہیں اور یہ لایعنی شوشہ اُٹھتا ہے کہ اداروں میں ٹکراؤ کا خطرہ ہے۔ 
اور تو اور‘ نہال ہاشمی، دانیال عزیز، طلال چوہدری، اپنے آقاؤں کی خوشنودی کیلئے جو منہ میں آئے کہہ ڈالیں۔ ٹی وی کیمروں کے سامنے اعلیٰ عدلیہ کو مغلّظات سے نوازیں‘ لیکن اُن سے کوئی کچھ نہ کہے۔ وہ تمام قوانین اور اخلاقیات کی حدود سے مبّرا ہیں۔ لیکن سپریم کورٹ نوٹس لے تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ مشاہداللہ خان جیسے پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کے فرماتے ہیں کہ اداروں کو اپنے دائرہ اختیار کا خیال رہے‘ ورنہ پارلیمنٹ قوانین تبدیل کر سکتی ہے۔ کتنا بڑا منہ اور کیسی بات۔ یعنی جج صاحبان ہوش میں آئیں ورنہ پاکستان کے عظیم پارلیمنٹیرین کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ 
بات کرتے ہیں تو اُس پہ قائم تو رہیں۔ توہین عدالت کے نوٹس کیا ملے ساری ہوا ان تینوں مُسکٹیرز (musketeers) سے نکل گئی۔ دو دن ہوئے نہال ہاشمی کی حالت چیف جسٹس صاحب کے رُوبرو دیدنی تھی۔ بس پیروں کو نہیں پکڑا اور سب کچھ کر دیا۔ یہاں تک کہا کہ وکالت کا لائسنس روزی روٹی کا مسئلہ ہے‘ میرے پاس تو چوّنی نہیں‘ لائسنس گیا تو بچوں کا کیا بنے گا۔ بات یہاں تک پہنچنی تھی تو اتنی بڑھک نہ مارتے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے پرویز رشید کے ساتھ ہوا۔ ڈان لیکس کے معاملے سے پہلے کیا کیا تقریریں نہیں فرماتے تھے۔ لیکس کی پاداش میں مسندِ وزارت چھوڑنی پڑی اور فوج کے تیور دیکھ کے وہ سابقہ مجاہدانہ کیفیت ماند پڑ گئی۔ 
نون لیگ والوں کا عجیب مسئلہ ہے۔ ڈھیل ملے تو ہر کسی پہ چڑھ دوڑتے ہیں۔ کوئی دبک جائے تو اُن سے بڑا دلاور دیکھنے کو نہیں ملتا۔ آگے سے کوئی کھڑا ہو جائے اور مُڑ کے اُن کی طرف کو دیکھے تو یکدم اخلاقیات، جمہوریت اور آئینی تقاضے یاد آ جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ پہ ہی 1997ء میں نون لیگی کارکن اور درمیانے لیول کے قائدین چڑھ دوڑے تھے۔ تب کے چیف جسٹس صاحب کو بچنے کیلئے بینچ سے فرار ہونا پڑا۔ فاتحانہ انداز ایسا تھا‘ جیسے لال قلعے پہ قبضہ کیا ہو۔ اب حالات چونکہ بدل چکے ہیں اور گمشدہ ماضی کی دلیرانہ کارروائی ممکن نہیں تو پیشیاں بھگتنی پڑ رہی ہیں۔ اور کچھ کر گزرنا بس میں نہیں رہا تو شور اُٹھ رہا ہے کہ جمہوریت کے خلاف سازش ہے اور ادارے اپنی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں۔ اِن کا حملہ سپریم کورٹ پہ ہو اور اِن کے محترم ملک عبدالقیوم جیسے ذاتی جج اِن کے حق میں فیصلوں کی لمبی قطار دیتے رہیں تو یہ جمہوریت ہے۔ اِن سے سوال جواب ہو تو یہ اِن پہ وار نہیں جمہوریت پہ حملہ ہے۔ 
سپریم کورٹ زیادہ جارحانہ انداز اپناتی تو اب تک اِن کے ہوش ٹھکانے آ چکے ہوتے۔ حدیبیہ ملز کا کیس ختم نہ کیا جاتا۔ ملک سے فرار ہونے سے پہلے جنابِ اسحاق ڈار کا نام ای سی ایل پہ لگ چکا ہوتا۔ حسن اور حسین نواز کو ملک سے بھاگنے کا موقع نہ ملتا۔ لندن فلیٹس کا مسئلہ تو کھلا ہوا ہے، لیکن درجنوں اور کیسز اِن کے خلاف آ گئے ہوتے۔ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ہے لیکن حدود سے تجاوز کرنا ہوتا تو ماڈل ٹاؤن سانحے پہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ بن جاتی، متعلقہ افسران اور حکومت پنجاب کے بڑوں پر فردِ جُرم عائد ہوتیں اور چند ہی روز میں سزائیں سنائی جاتیں۔ تب تو یہ کہنا بجا ہوتا کہ معزز جج صاحبان حدود سے تجاوز کر گئے۔ پینتیس سالوں کے بعد، جو کہ پاکستانی تاریخ میں سب سے لمبا دورانیۂ سیاست و اقتدار ہے‘ پہلی بار ہلکی پھلکی پوچھ گچھ کی جا رہی ہے تو شور آسمانوں تک اُٹھ رہا ہے کہ زیادتی ہو گئی، سازش ہو گئی اور ہم معصوم مظلومِ زمانہ ٹھہرے۔ ملٹن (Milton) کی پیراڈائز لاسٹ (Paradise Lost) میں آدم خُلد سے نکلتے ہیں تو اتنا شور نہیں مچتا جتنا کہ پانامہ کی جعل سازی کی پاداش میں شریفوں نے اُٹھا رکھا ہے۔ کبھی قطری خطو ط، کبھی صحرا کے اونٹ اور الحمدللہ کا وِرد۔ کچھ نہیں بنتا تو جمہوریت کو خطرہ اور پارلیمان کی بالا دستی کا سوال۔
جج صاحبان نے حدود عبور کرنا ہوتیں تو اَب تک اصغر خان کیس دوبارہ کھل چکا ہوتا۔ جنرل اسد دُرانی کو بلایا جاتا اور کھلی عدالت میں پوچھا جاتا کہ حلفاً بتاؤ 1990ء کے انتخابات میں کن کن سورماؤں کو رقوم دی گئیں۔ پارساؤں کو طلب کیا جاتا اور پوچھا جاتا کہ پیسے لیے یا نہیں۔ پھر حالت دیکھنے کے قابل ہوتی۔ ابھی تو محض شروعات ہیں۔ ایک کیس بھی مکمل نہیں ہوا۔ احتساب عدالت کی کارروائی جاری ہے اور سپریم کورٹ نے دو ماہ کی مزید مہلت دے دی ہے۔ لیکن جن کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے کیسی تاویلیں دینا شروع ہو گئے ہیں۔ 
اِن سے پوچھا جائے کہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ جمہوریت آزادی دیتی ہے کہ ملک کو جتنا ہو سکے لُوٹو، ناجائز طریقوں سے لوٹی ہوئی رقوم باہر لے جاؤ اور پھر لندن میں ایسی جائیدادیں ہتھیا لو جو برطانیہ کے شاہی خاندان کا ہر شہزادہ نہیں خرید سکتا۔ کسی عام سی فرم میں ہونہار فرزندان کو ڈھنگ کی نوکری نہ ملے۔ لیکن پاکستان سے آئی ہوئی دولت کے بل پر لندن کے مالدار سیٹھوں میں شمار ہو جائیں۔ یہ ہے پاکستانی جمہوریت اور پارلیمان کی بالا دستی۔ 
اَبھی تو جج صاحبان نے کچھ کیا ہی نہیں۔ ایک دو ہسپتالوں کا دورہ کیا ہے اور صاف پانی کی فراہمی کے بارے میں چیف منسٹروں سے سوال کیے ہیں اور اُن رُستموں کا پسینہ چھوٹ گیا ہے۔ ریفرنڈم کروا لیں۔ ملک کی بھاری اکثریت کہے گی کہ جو چیف جسٹس صاحب اور دیگر جج صاحبان کر رہے ہیں ٹھیک تو ہے لیکن ناکافی ہے۔ مجرموں کی گردنوں پہ اُن کے ہاتھ زیادہ بھاری ہونے چاہئیں۔ گیلپ کے جائزوں پہ مت جائیے۔ گیلپ تو گھر کی باندی ہے۔ منشاء کے مطابق ہی اُس کے جائزے ہوں گے۔ حقیقی معنوں میں عوام سے پوچھیے تو وہ کہیں گے کہ جج صاحبان کو اور بہت کچھ کرنا چاہیے۔ 
پس تحریر: حدود سے تجاوز کا واویلا تب کوئی مچائے اگر سپریم کورٹ وزیر اعظم کو طلب کرے اور سامنے کھڑا کرکے پوچھے کہ کس بنیاد پہ علی جہانگیر صدیقی کو امریکہ میں بطور سفیر نامزد کیا جا رہا ہے۔ موصوف کے والد گرامی وزیر اعظم کی ائیر لائن کمپنی میں رقم انویسٹ کرتے ہیں‘ اور موصوف کو وزیر اعظم کا معاون بنا دیا جاتا ہے۔ اور اب اُن کی بطور سفیر تقرری کی تیاری ہو رہی ہے۔ یہ کوئی ریاست ہے یا کسی کا ماسی وَیڑا؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved