تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     10-03-2018

ڈکیتی در ڈکیتی در ڈکیتی

اللہ جانے وہ کون (یہاں لکھنے کیلئے جو نہایت مناسب الفاظ تھا وہ ہے نہایت ہی مناسب مگر بہت سی چیزیں مناسب ہونے کے باوجود بعض اوقات لکھی نہیں جا سکتیں لہٰذا آپ جو چاہیں تصور کر لیں آپ کی مرضی۔ میں یہ جگہ آپ کی سہولت کیلئے خالی چھوڑ رہا ہوں) تھے جنہوں نے پنجاب میں گنے کی کاشت کی اجازت دی اور ستر سالوں میں قریب چار درجن شوگر ملز لگانے کی اجازت بھی دے دی۔ اگر گنے کی فصل کی ہیئت ترکیبی اور دیگر معاملات کو دیکھا جائے تو گنا پنجاب جیسے علاقوں کے موسم کیلئے نہایت ہی غیر موزوں فصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ گنے کا کاشتکار بھی رو رہا ہے اور مل مالک بھی رو رہا ہے۔ یہاں کوئی اور نقد آور فصل کاشت کی جاتی اور چینی درآمد کی جاتی تو ملک و قوم کا بھی فائدہ ہوتا اور کسان بھی اس طرح برباد نہ ہوتا۔ 
گنا مرطوب علاقے کی فصل ہے اور اس کی بہترین فصل اسی علاقے میں اگتی ہے اور اچھے نتائج دیتی ہے۔ گنے کی فصل کی سب سے ضروری چیز جو اسے کمرشل بنیادوں پر فائدہ مند بناتی ہے‘ وہ گنے سے چینی کی ریکوری کی شرح فیصد ہے۔ یہ شرح جتنی زیادہ ہو گی گنے سے چینی کی مقدار اسی قدر زیادہ حاصل ہوگی اور چینی کی یہی زیادہ مقدار ملوں کیلئے فائدہ مند ہے۔ پاکستان میں چینی کی مقدار کے حوالے سے زیریں سندھ کا علاقہ سب سے بہتر شمار ہوتا ہے اور اس کے بعد جتنا اوپر آتے جائیں‘ یہ شرح کم سے کم ہوتی جاتی ہے۔ ہمارے ساتھ بنیادی طور پر گنے کی فصل کے دو بڑے مسائل ہیں۔ پہلا یہ کہ ہماری فی ایکڑ پیداوار دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے اور دوسری یہ کہ ہمارے ہاں گنے سے چینی کی پیداوار بہت کم ہے۔
اس بات کا اندازہ صرف ایک چیز سے لگالیں کہ پاکستان اور تھائی لینڈ میں گنے کی کاشت کا رقبہ تقریباً برابر ہے‘ شاید دو تین فیصد کا فرق ہوگا لیکن اس کے مقابلے میں چینی کی پیداوار میں اتنا زیادہ فرق ہے کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے۔ پاکستان میں چینی کی پیداوار پچاس لاکھ ٹن کے لگ بھگ جبکہ تھائی لینڈ کی پیداوار اڑسٹھ لاکھ ٹن سے زائد ہے۔ یعنی تقریباً ایک جتنے رقبے سے تھائی لینڈ پاکستان کی نسبت اٹھارہ فیصد زائد چینی حاصل کر رہا ہے۔ اس کی درج بالا وجوہات ہیں۔ تھائی لینڈ میں فی ہیکڑ گنے کی فصل ستر ٹن سے زائد ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں فی ہیکٹر گنے کی فصل باون ٹن ہوتی ہے۔ برازیل میں یہ اسی ٹن، فلپائن میں ترانوے ٹن، کولمبیا میں ایک سو اٹھارہ ٹن حتیٰ کہ بھارت میں یہ چھیاسٹھ ٹن فی ہیکڑ ہوتی ہے۔
گزشتہ دو سالوں میں یعنی سال 2014-15 اور سال 2015-16 میں پنجاب میں گنے سے چینی کی پیداوار علی الترتیب 9.97 اور 9.94 فیصد رہی جبکہ سندھ میں یہ پیداوار انہی سالوں میں 10.53 اور 10.65 فیصد رہی۔ اس کی واحد وجہ صرف یہی تھی کہ سندھ کے زیریں علاقوں میں پیدا ہونے والے گنے میں یہ مقدار موسم کے مرطوب ہونے کے باعث زیادہ تھی جس نے پورے سندھ کی فصل کی مجموعی شرح فیصد بڑھا دی۔ برازیل میں گنے سے چینی کی پیداوار سترہ فیصد کے قریب ہے۔
اگر ہم حساب لگائیں تو پنجاب میں ایک من گنے سے چار کلو سے کم چینی پیدا ہوتی ہے جبکہ برازیل میں ایک من گنے میں سے پونے سات کلو گرام چینی پیدا ہوتی ہے۔ آج چینی کا ریٹ دو روپے کلو بڑھ کر اڑتالیس روپے پچاس پیسے ہو گیا ہے۔ یعنی ایک من گنے میں سے نکلنے والی چینی کی قیمت ایک سو نوے روپے کے لگ بھگ ہے۔ اب اس پر ایک سو اسی روپے کا گنا خرید کر چینی بنانا ''وارے‘‘ ہی نہیں کھاتا۔ رحیم یار خان جیسے علاقے میں پھر بھی ریکوری بہتر ہے۔ وسطی اور بالائی پنجاب میں تو یہ سراسر نقصان کا کام ہے۔
اس سال پاکستان بھر کا گنے کا کاشتکار برباد ہوگیا ہے تاہم زیادہ فائدے میں ملز بھی نہیں رہیں‘ سوائے ان کے جنہوں نے کسانوں کو لوٹا ہے اور زیادہ تر ملوں نے کسان کو جی بھر کر لوٹا ہے۔ جھنگ، سرگودھا، فیصل آباد‘ بھکر وغیرہ میں لوٹنے کا معاملہ زیادہ سنگین تھا لیکن کسر کہیں بھی نہیں چھوڑی گئی۔ رحیم یار خان میں صرف جے ڈی ڈبلیو گروپ یعنی جہانگیر ترین کی ملوں نے ریٹ پورا دیا اور کوالٹی پر کاٹ بھی بڑی معمولی کاٹی۔ دیگر ملوں نے کچھ گنا تو کسانوں سے براہ راست خریدا لیکن کافی مقدار میں گنا آڑھتیوں کے ذریعے خرید کر کسان کو لوٹا۔
جنوبی پنجاب میں کسی زمانے میں صرف سات شوگر ملیں تھیں۔ گنے کی ''زوننگ‘‘ تھی۔ یعنی علاقے سے باہر سے گنا خریدنا ممکن نہ تھا۔ ہر مل اپنے علاقے کے کاشتکار کو گنے کی فصل میں رہنمائی، مالی مدد، اچھا بیج اور تکنیکی مدد فراہم کرتی تھی۔ یہ سات ملیں یعنی یونائیٹڈ شوگر ملز بخش آباد (اب یہ ملز جہانگیر ترین نے خرید لی ہے اور اس کا نام جے ڈی ڈبلیو II ہے) حئی سنز شوگر ملز بھٹہ خان پور (یہ ملز اب حمزہ شوگر ملز کے نام سے چل رہی ہے) اشرف شوگر بہاولپور، آدم شوگر ملز چشتیاں، فیٹکو شوگر ملز دریا خان بھکر‘ لیہ شوگر ملز لیہ اور کمالیہ شوگر ملز کمالیہ تھیں۔ پھر ایک مرتبہ شوگر ملوں کی ہاہاکار مچی اور یہاں چار شوگر ملز یعنی پنجاب شوگر ملز میاں چنوں (یہ چودھری شجاعت اینڈ کمپنی کی ملز تھی جو دوسرے ہاتھ سے بکتی جہانگیر ترین کے ہاتھ آ گئی ہے) فاطمہ شوگر ملز کوٹ ادو، شیخو شوگر ملز سناواں مظفر گڑھ اور انڈس شوگر ملز راجن پور مزید لگ گئیں۔
پھر ایک بار غلغلہ مچا اور یہاں اتحاد شوگر ملز رحیم یار خان، حاجرہ رحمان شوگر ملز مظفر گڑھ، جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز، جمال دین والی رحیم یار خان لگ گئیں۔ ان کی دیکھا دیکھی حکمران خاندان والوں نے اپنی تین شوگر ملیں دیگر علاقوں سے اکھاڑ کر بلا اجازت جنوبی پنجاب میں لگا لیں۔ اس کیلئے نہ کوئی اجازت لی گئی اور نہ قانون کے تقاضے پورے کئے گئے۔ گوجرہ سے چوہدری شوگر ملز اکھاڑ کر رحیم یار خان میں شفٹ کر دی۔ پاکپتن سے اتفاق شوگر ملز اکھاڑی اور ضلع بہاولپور میں اور ننکانہ صاحب ضلع سے حسیب وقاص شوگر ملز کو مظفر گڑھ منتقل کر دیا۔ اس پر جو کھپ پڑی وہ ایک علیحدہ قصہ ہے؛ تاہم ہائی کورٹ نے یہ ملز اپنے حکم کے ذریعے بند کر دی۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے چند شرائط پر یہ ملز بقیہ سیزن کیلئے کھول دیں تاکہ کاشتکار کا استحصال بند ہو سکے مگر ایسا نہ ہو سکا اور جنوبی پنجاب کا کاشتکار بھی خوب لٹا۔ ان تین ملوں کو کھلوانے کا سہرہ بظاہر تو ''کسان اتحاد‘‘ کے سر جاتا ہے لیکن میری کسان اتحاد کے بہت بڑے لیڈر سے چند دوستوں کی موجودگی میں فون پر بات ہوئی تو اس نے کھلے لفظوں میں یہ اقرار کیا کہ اس مقدمے کیلئے سپریم کورٹ میں مرحومہ عاصمہ جہانگیر کو انہوں نے نہیں بلکہ ان تین ملز کے مالکان (شریف فیملی) نے ہی انگیج کیا تھا اور اس کی فیس بھی انہوں نے ہی ادا کی تھی۔ بقول اس کے (کسان اتحاد کے لیڈر کے) اس نے تو عاصمہ جہانگیر کی شکل بھی اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی۔ خیر ملز چل پڑیں لیکن کاشتکار کا نصیب نہ کھل سکا۔ 
جہانگیر ترین کی ملز کے علاوہ سب نے لگتی کا دائو لگایا۔ مظفر گڑھ میں واقع شوگر ملز‘ جس کے مالکان میں ایک سینیٹر اور ایک وفاقی وزیر کا سٹیٹس رکھنے والا وزیر اعظم کا معاون خصوصی ہے‘ نے کاشتکاروں کو ایسے رگڑا کہ اللہ کی پناہ۔ اس کے علاوہ شور کورٹ کے قریب واقع ایک شوگر ملز نے بھی یہی کچھ کیا۔ کاشتکار کو 153 روپے کا ریٹ دیا گیا اور 180 روپے کی رسید پر دستخط لئے گئے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ گنا کہاں لے کر جاتا؟ مجبوراً 153 روپے لئے اور رسید پر سرکاری ریٹ کی وصولی پر انگوٹھا لگایا۔ آٹھ سے دس فیصد کٹوتی کروائی۔ اور آخری ظلم یہ ہوا کہ اسے نقد رقم کے بجائے 53 روپے کلو کے حساب سے چینی دے دی گئی۔ کاشتکار چینی کہاں اٹھا کر لے جاتا اور کیسے بیچتا؟ ملز کے باہر مالکان کے ایجنٹ کھڑے تھے انہوں نے تریپن روپے میں زبردستی سر منڈھ دی جانے والی چینی سینتالیس روپے فی کلو کے حساب سے خرید لی۔ یعنی پہلے ایک سو اسی روپے من والے گنے سے دس فیصد کٹوتی کی‘ پھر اس گنے کو ایک سو تریپن روپے من کے حساب سے خرید کر اس رقم کی چینی پکڑا دی۔ دی جانے والی چینی تریپن روپے فی کلو کے حساب سے دی گئی اور مل کے ریٹ پر ہی سینتالیس روپے کلو کے حساب سے خرید لی۔ اسے کہتے ہیں ڈکیتی در ڈکیتی در ڈکیتی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved