مندرجہ ذیل شعر ہمارے سیاسی قائدین کی ''اصول پسندی ‘‘کا صحیح عکاس ہے :
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامۂ سیاہ میں تھی
اہلِ ثروت نے سینیٹ کے حالیہ انتخاب میں حسبِ توفیق دولت کا استعمال کیا ،اس میں پسِ پردہ سیاسی جماعتوں کا حوالہ بھی آتا ہے ،اسی کو مروّجہ سیاسی محاورے میں ''تجارتِ اَسپاں‘‘کہاجاتا ہے ۔اس کی خوبی یہ ہے کہ ہر فریق کو دوسرے کا چہرہ کالک زدہ اور اپنا رُخِ زیبانورانی نظر آتا ہے ۔چنانچہ جنابِ بلاول بھٹو نے کہا: ''مسلم لیگ ن ہارس ٹریڈنگ کر رہی ہے ‘‘،ہوسکتا ہے اُن کے پاس کچھ معلومات ہوں،لیکن بظاہر آج کل مسلم لیگ ن مشکل میں ہے ۔ضمنی انتخابات میں پے در پے کامیابیوں کے باوجود اُن کے لیے مقتدرہ کی جانب سے رحم کی کوئی علامت نظر نہیں آرہی۔پیپلز پارٹی نے سندھ، بلوچستان اور پختونخوا میں کمال کردکھایا ،جس پر سب محوِ حیرت ہیں ۔اسی طرح پی ٹی آئی کے چوہدری سرور صاحب نے پنجاب میں مہارت دکھائی ،دوسری جماعتوں کے چودہ اراکین کے ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئے ، مستقبل میں پنجاب کی فتح کی نوید سنائی اور پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت نے بھی اس کا خوب جشن منایا ۔اس کے برعکس جب خیبرپختونخوا میں یہی حربہ پی پی پی نے کامیابی کے ساتھ ان کے خلاف استعمال کیا،تو جنابِ عمران خان نے اسے ضمیر فروشی سے تعبیر کیا ۔ پس ہماری سیاست کی ''اصول پسندی‘‘یہی ہے ،جو درحقیقت ''وصول پسندی‘‘ ہے۔یعنی جو کالک سندھ اور خیبرپختونخوا میں زرداری صاحب کے چہرے پر نظر آرہی ہے ،وہی پنجاب میں پی ٹی آئی کے رخِ زیبا کا جمالِ جہاں آرا ہے ۔ اسی اصول پسندی کا شاخسانہ ہے کہ جو طیورِ سیاست کسی اورسَمت سے اڑ کر آپ کے آشیانے میں آجائیں ، وہ بااصول ہیں ،وہ پَوِتر ہوگئے ، اُن کے دامن کے سب داغ دھل گئے ،اُن کا مَن اُجلا ہوگیا،خواجہ میر درد کے الفاظ میں ان کا ''سیاسی زُہد واِتّقا ‘‘ببانگِ دُہل اعلان کر رہا ہے:
تردامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو!
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
اس لیے میں لکھتا رہتا ہوں ،کوئی آئے ،کوئی جائے ،کوئی اسٹیٹس کو بدلنے کے لاکھ دعوے کرے ،ہم زیادہ سے زیادہ انیس بیس یا اٹھارہ بیس کے فرق کی توقع رکھیں اوربس!۔ہمیںہمیشہ خیرِقلیل پر ہی قناعت کرنی ہوگی ،خیرِ کثیر یا خیرِ غالب دستیاب حالات میں ہمارے مقدر میں نہیں ہے۔ابھی تو سینیٹ کی چیئرمین شپ کا مرحلہ باقی ہے ،دیکھتے جائیے کہ اس میں کیسے نئے ریکارڈ قائم ہوتے ہیں۔دنیا کی مسلّمہ جمہوری اَقدار میں اگر کسی جماعت کو کسی ایوان میں پورا غلبہ حاصل ہو، تواُس ایوان کی سربراہی اس کا استحقاق ہوتی ہے ،لیکن اگر کسی ایک پارٹی کو ایوان میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہ ہو ،توایوان کی واحد بڑی جماعت کوپہلے قسمت آزمائی کاموقع دیا جاتا ہے کہ اگر وہ دوسری جماعتوں سے اتحاد کر کے اکثریت حاصل کرلے تو اس کا حق مقدّم ہے۔ لیکن سینیٹ کے الیکشن سے پہلے بلوچستان میں اکثریتی حکومت کی معزولی اورفردِ واحد کے وزیرِ اعلیٰ بنائے جانے کی سیاسی کرامت دکھائی جا چکی ہے ، ظاہر ہے کہ ایسی کرامات کا صدور طاقتور حلقوں کی آشیر باد کے بغیر نہیں ہوسکتا۔اس کی روشنی میں ایک بھی سو پربھاری ہوسکتا ہے ۔ پس اسی ''زرّیں اصول‘‘ کے تحت ایک زرداری سب پر بھاری بننے کی سیاسی کرامت دکھانے کے موڈ میں ہیں ، اُن کے نمائندے جہازوں میںمختلف مقامات کے چکر لگارہے ہیں اور سودا بازی میں مصروف ہیں ۔ یہ بات سب کو مان لینی چاہیے کہ سیاسی سودے بازی میں جنابِ زرداری کا ہمسر کوئی بھی نہیں ہے ، کیونکہ وہ طبعاً فیاض ہیں، کھلے دل کے آدمی ہیں اور مل بانٹ کر کھانے کاسیاسی کلچر انہی سے شروع ہوکر انہی پر ختم ہوتا ہے۔
لبرل میڈیا کی نظر میں ہماری قومی ترجیحات :
دبئی میں ایک انڈین اداکارہ المعروف ''سری دیوی‘‘کی حادثاتی موت واقع ہوئی ،تویہ سانحہ ہمارے قابلِ افتخار آزاد الیکٹرانک میڈیا کے لیے '' بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا ‘‘کا مصداق بن گیا ،دو تین دن میڈیا نے اس پر اپنی بھرپورتوانائیاں صَرف کیں اور بعض بڑے چینلز کی شہ سرخی چار پانچ منٹ تک یہی رہی ،شاید انہیںاتنا شاندار خراجِ عقیدت انڈین میڈیا نے بھی پیش نہ کیا ہو ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے لبرل میڈیا کی ترجیحات کیا ہیں اوریہ کہ وہ نئی نسل کو کس سَمت لے جانا چاہتے ہیں ۔ایک طرف کشمیرکی لائن آف کنٹرول پر ہندوستانی افواج آئے دن ہماری مسلّح افواج کے جوانوں اور بے قصور شہریوں کو اندھا دھند نشانہ بنا کرشہید کررہی ہیں،جبکہ میڈیا یہ تاثر دے رہا ہے کہ پاکستانی اُن کی محبت میں مرے جارہے ہیں:''تُفو برتو!اے چرخِ گردوں!تُفو‘‘۔
محبّینِ خان:
میں جنابِ عمران خان کے غالی مُحبّین کی تحریریں حتی الامکان سرسری طور پر ہی سہی پڑھتا رہتا ہوں تاکہ موصوف کی شخصیت کے ان پہلووں کے بارے میں آگہی ہو جو ہماری نظروں سے اوجھل رہ گئے ہیں ،کیونکہ ہر پاکستانی تہ دل سے متمنّی ہے کہ ملک وملت کی فلاح کے لیے کہیں سے امید کی کوئی کرن نظر آئے۔ ایک بزرگ تکرار کے ساتھ لکھتے رہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن والے صحافیوں کو خرید لیتے ہیں، میں یہ جاننے میں بھی ناکام ہوں کہ وہ ''اسپانِ تازی‘‘کو خرید کر کون سے اصطبل میں باندھ لیتے ہیں، کیونکہ اینکر پرسنز ،تجزیہ کاروں اور کالم نگاروں کی واضح اکثریت جنابِ عمران خان کی حامی نظر آتی ہے۔ میں تو ن لیگ والوں کی اس دانش پر بھی حیران ہوں کہ وہ عرفان صدیقی صاحب ایسے اپنے مخلص اور صاحبِ طرز لکھاری کو بھی اپنے عہدِ اقتدار میں کسی منصبِ جلیلہ پر فائز کر کے ان کی قلمی حمایت سے محروم ہوجاتے ہیں، سو میڈیا میں خان صاحب کا پلڑا بظاہر بھاری نظر آتا ہے۔
خان صاحب کوکوئی یقین دلائے کہ مخالفین کے نام عرصہ پانچ سال سے ان کا جو دشنام واہانت کا سلسلہ جاری ہے، وہ لوگوں کو ازبر ہوچکا ہے ۔وہ چاہیں تو ہر شہر میں این ٹی ایس کے ذریعے اپنے سامعین کا تحریری ٹیسٹ لے لیں، لیکن ان پر رحم کریں، ان کی سمع وبصر کا مزید امتحان نہ لیں،یہ صرف اللہ تعالیٰ کے کلام کا خاصّہ ہے کہ جتنی بار سنو گے، ہر بار روح کو تازگی ملے گی۔اہلِ نظر جس چیز کو سننے کے لیے بے قرار ہیں، وہ دستیاب وسائل کے اندر ملک کے مسائل کے حل کا حقیقت پسندانہ ایجنڈا ہے، نیز یہ کہ نئے وسائل کیسے پیدا کیے جائیں گے کہ ملک کے لیے مزید قرض لینے کا سلسلہ موقوف ہوجائے، اس سال کے بجٹ کا خسارہ بھی بارہ کھرب روپے ہے ۔
اسی طرح جب پی ٹی آئی کے چیئرمین سینیٹ کے نظامِ انتخاب یا دیگر قوانین کی تبدیلی کا دعویٰ کرتے ہیں، تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ سینیٹ میں بارہ سیٹوں کے ساتھ وہ یہ تبدیلیاں کیسے لے آئیں گے ،کیا انہیں ملک کے آئین میں طے شدہ قانون سازی کا طریقۂ کار معلوم نہیں ہے۔2013سے2018کے دورانیے میں سینیٹ کا کنٹرول جنابِ آصف علی زرداری کے ہاتھ میں رہا، انہوں نے مسلم لیگ ن کو ایسا کوئی قانون بنانے نہیں دیا ،جو اُن کی مرضی یا پالیسی کے خلاف ہو۔ بالفرض اگر قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کواکثریت مل جاتی ہے اور اُن کا وزیرِ اعظم بھی بن جاتاہے ،تو اُن کے ہاتھ بھی اسی طرح سے بندھے رہیں گے ۔اُن کے اندر اگر ضبط وتحمل اور کسی درجے میں دوسروں کو برداشت کرنے کا مادّہ ہوتا ،تو وہ اس دورانیے میں اتفاقِ رائے پیدا کرکے کچھ تبدیلیاں لاسکتے تھے، لیکن اُن کے عُجبِ نفس ،انانیت اور دوسروں کے لیے عدمِ برداشت کی خصلت کے ہوتے ہوئے اس کا نہ کوئی امکان تھا اور نہ ہی یہ وقوع پذیر ہوا۔پس وہ کیسے توقع رکھتے ہیں کہ آنے والے عرصے میں اُن کے اذیّت رسیدہ اور اُن کی زبان کے ڈسے ہوئے اُن کے لیے مَن پسند قانون سازی کی راہ ہموار کریں گے ۔ہمارا یہ تجزیہ دستیاب معروضی حالات کے تحت ہے ،ماورائی تبدیلیوں کی ہمارے ہاں ہمیشہ گنجائش رہی ہے اور رہے گی، کیونکہ ہماری جمہوریت اور سیاسی قائدین کو ابھی تک اپنے ذاتی اور گروہی مفاد سے بالاتر ہوکر سوچنے کا سلیقہ ہی نہیں آیا اور نہ ہی نفرتوں سے آلودہ ہماری سیاسی قیادت سے اس کی امید ہے ۔
بیگم کلثوم نواز ایک عرصے سے گلے کے کینسر میں مبتلا ہیں،اخبارات سے معلوم ہوا کہ ٹیومر آپریشن اورریڈیو تھراپی کے باوجود اُن کا ٹیومر پھر ڈویلپ ہوگیا ہے اور دوبارہ آپریشن تجویز کیا گیا ہے ۔مجھے کینسر کے موذی مرض کا شکار اپنے جواں عمر بیٹے ضیاء الرحمن مرحوم کے کرب کا بخوبی اندازہ ہے ، اللہ کسی کو ایسی پریشانی میںمبتلا نہ کرے ۔عدالتوں کے اپنے میرٹس اور ڈی میرٹس ہوتے ہیں ،لیکن جنابِ خان کو اپنی والدۂ مرحومہ کے کرب کو ذہن میں رکھ کر بڑے پن کا مظاہرہ کر تے ہوئے کہنا چاہیے کہ نواز شریف صاحب کو اپنی اہلیہ اور مریم نواز صاحبہ کو اپنی والدہ کی عیادت کے لیے برطانیہ کے مختصر سفر کی اجازت دی جائے، نیب عدالت میں ان کی حاضری کا ریکارڈ ویسے بھی درست ہے ۔ اگر بالفرض کسی کو اندیشہ ہو کہ واپس نہیں آئیں گے ،تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ پی ٹی آئی کو ہوگاکہ انہیں آئندہ انتخابات میں کھلا میدان ملے گا،اس ناپسندیدہ مشورے پر شیخ رشید صاحب سے پیشگی معذرت ۔
16جنوری کو ایوانِ صدر میں میرے خطاب کی بابت بہت سے احباب نے فرمائش تھی کہ اُسے سوشل میڈیا پر ڈالا جائے تاکہ بڑی تعداد میں خواہش مند لوگ سن سکیں ۔5مارچ کوہمیں اس کاوڈیوریکارڈ جونہی دستیاب ہوا ،ہم نے اُسے اپنے فیس بک پیج''Mufti-Muneeb-ur-Rehman-Office‘‘ پراپ لوڈ کر دیا ہے ، اندرونِ ملک کے علاوہ اسے بیرونِ ملک بھی کئی پیجز سے شیئر کیا گیا ہے اورالحمد للہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ سن چکے ہیں ، سن رہے ہیں اوراس کی تحسین کر رہے ہیں۔میں اُن تمام محبّین کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور اُن سب کے لیے دعا گو ہوں۔