تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     11-03-2018

عوام کے دہکتے جذبے

پندرہ سولہ برس‘ ہم مسلسل دہشت گردی کی لپیٹ میں رہے۔ اب بھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ مختلف وقفو ں میں دہشت گرد دائو لگانے سے باز نہیں آتے۔ ہمارے بچوں‘ ہمارے نوجوان‘ ہماری خواتین‘ ہماری مساجد میں آئے نمازی‘ غرض معاشرے کا کون سا طبقہ ایسا ہے جو دہشت گردوں کی خون ریزی‘ تباہ کاری اور بموں یا بارود سے محفوظ رہ سکا۔ یہ پاک فوج ہی کی شجاعت اور جانبازی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا وطن‘ مسلسل خون ریزی کی لہروں سے محفوظ ہوتا نظر آرہا ہے۔ ہمیں کب مکمل امن دیکھنا نصیب ہو گا؟ اس کے بارے میں ابھی کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ ہمارے قریبی اور امن دشمن پڑوسی سے لے کر‘ دنیا میں صف اول کی سپر پاور تک‘ دونوں ہی ہمارے امن کے در پے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں امن ہو گا تو دہشت گردوں سے کام لینے والے استحصالی طبقے‘ کسی بھی وقت متحرک ہو سکتے ہیں۔ میںآنے والے انتخابات میں بھی تشدد‘ خون ریزی اور فساد ‘وطن عزیز کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ یوں لگتا ہے کہ حکمران اقتدار کی طاقت سے‘ ملک اور عوام دونوں کو لوٹنے کی عادت سے اب اتنا مجبور ہو چکے ہیں کہ امن کا کوئی لمحہ‘ پاکستان کی طرف آتے ہوئے دیکھ کر انہیں خو ف ہونے لگتا ہے۔ تھوڑا ہی عرصہ پہلے جب عدالت عظمیٰ نے لٹیروں اور ڈاکوئوں کی اندھا دھند کارروائیوں پر کنٹرول پانے کیلئے‘ قانون کا استعمال شروع کیا تو حکمران طبقے اشتعال میں آ گئے۔ ہم نے دیکھا کہ پاکستان میں عدلیہ کا ''احترام‘‘ کرنے والے اچانک آپے سے باہر ہو گئے۔ وہ عدلیہ کے سامنے سرخ جبڑے کھول کر‘ تیز دانتوں کی نمائش کرنے لگے ہیں۔
آج خون ریزی اور فساد کی پہلی جھلک نظر آئی تو مجھ پر دہشت کا خوف طاری ہو گیا۔ ایک طرف بھارت میں انتخابات کا وقت نزدیک آ رہا ہے۔ وہاں کے خونخوار حکمران طبقے‘ ہر انتخابی مہم کے دوران فسادات اور خون ریزی کے مناظر دکھانے لگتے ہیں۔ جیسے جیسے انتخابی مہم زور پکڑتی ہے‘ سب سے پہلا ہدف بے چارے مسلمان ہی بنتے ہیں۔ اس کے بعد دلت وحشیانہ جذبات کا نشانہ بنتے ہیں۔ آخر میں ضرورت پڑے تو سکھوں پر بھی حملے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس مرتبہ یہ بھی اندیشہ ہے کہ پاکستان کے خلاف سرحدوں پر‘ مستقل اشتعال انگیزیاں شروع کر دی جائیں گی۔
میںآنے والے خطرات کے اندیشوںسے فکر مند ہوں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ حکمرانوں‘ محنت کشوں اور متعصب طبقوںکے تیور‘ اچھے نظر نہیں آرہے۔ اچانک میں نے ٹی وی آن کیا تو عمران خان تقریر کرتے دکھائی دیئے۔ ان کی تقریر دو تین منٹ ہی سن پایا تھا کہ دائیں بائیں اور سٹیج کے اردگرد پراسرار لوگ حرکت کرتے نظر آئے۔ وہ مختلف طریقوں سے کیمرے کے سامنے آتے۔ کبھی کبھی عمران خان کے کندھوں کے پیچھے سے طرح طرح کے منہ بناکر گزرتے۔ اندازہ ہوا کہ وہ خان صاحب کو ڈسٹرب کرنا چاہتے ہیں۔ کراچی کے ایک صاحب تو باقاعدہ برابر کھڑے ہو کر تقریر کرنے لگے۔ ان کی آواز بند کر دی گئی۔ اس کے بعد مسلسل کوششیں ہوتی رہیں۔ عمران خان کی تقریر روکنے کے لئے اچانک ٹی وی سکرین دو حصوں میں بٹ گئی۔ بائیں طرف خان صاحب تھے اور دائیں طرف''نقد وزیراعظم‘‘ بولتے نظر آئے۔ مگرمائیک کی آواز بند تھی۔ عمران خان کے نوجوان حامیوں نے نعرے بازی شروع کی۔ فوراً ہی خان صاحب نے ''بیرونی‘‘ مہمانوںکی بے چینیاں اور تیور بھانپ لئے۔ انہوں نے اپنی تقریر نامکمل چھوڑ دی۔ بعد میں پتا چلا کہ اسی طرح کے چند چھوٹے چھوٹے غضبناک ٹولے‘ ادھر ادھر لائوڈ سپیکر پر اظہار جذبات کر رہے تھے۔ ''نقد وزیراعظم‘‘ نے کسی طرح کی بے چینی ظاہر نہیں کی۔ چند منٹ کے لئے وہ مائیک کے سامنے بولے‘ جیسے ہی انہیں معلوم ہوا کہ مائیک سے آواز نہیں جا رہی تو اطمینان سے عقب میں رکھی کرسیوں میں سے ایک پر جا بیٹھے۔
چند مناظر کی جھلکیاں دیکھنے کے بعد مجھے فکر پڑ گئی ہے کہ انتخابات کے ایام میں امن و امان خطرے میں نہ پڑ جائے۔ پُراشتعال سیاسی سرگرمیوں کے دوران ماحول کسی بھی وقت‘ کوئی بھی رنگ اختیار کر سکتا ہے۔ ملک کے اندر جو صورتحال ہے‘ اس میں غضبناک اور اشتعال میں دہکتے ہوئے لیڈر ایک طرف ہیں اور عمران خان دوسری طرف۔ ایسے طاقتور سیاسی فریق غیظ و غضب میں سلگ رہے ہوتے ہیں۔ جو فریق انہیں کمزور نظر آتا ہو‘ اسے موقع سے فائدہ اٹھا کرکچل ڈالنے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ سرمایہ دار حکمرانوں کا کوئی مضبوط ووٹ بینک نہیں ہوتا۔ وہ سیاسی کارندوں کی جیبیں بھرتے ہیں۔ دوسری طرف پولیس اور پٹواریوں کی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ کمزور فریق کو سمجھانے اور دھمکانے کے بعد‘ گھروں کی طرف واپس کر دیں۔ یہی موقع ہوتا ہے جس سے فائدہ اٹھا کر طاقتور فریق‘ کمزور اور بھوک کے مارے مزدوروں اور کسانوں کو ممکنہ حد تک کچل دیتے ہیں۔ ایوب خان کے دس برس کے ظلم و جبر میں مظلوموں خصوصاً مشرقی پاکستان میں‘ عوام کو بری طرح سے کچلا گیا۔ موجودہ فوجی قیادت اپنے نہتے‘ کمزور اور بھوکے عوام پر طاقت آزمائی نہیں کرے گی۔ لیکن حکمران اپنی ہر طاقت آزمانے کی کوشش کریں گے۔ یہی وہ تاریخی صورتحال ہوتی ہے‘ جس میں انقلابی جذبے دہکنے لگتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved