تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     11-03-2018

بے نیاز

آسمان دور ہے
اور اللہ بے نیاز ہے
مگر آسمان ایسا بھی دور نہیں
اور اللہ ایسا بھی بے نیاز نہیں
عمران خان سے اگر کوئی توقع وابستہ کی تھی تو اس لیے کہ قوم بدعنوان قیادت سے نجات پا لے۔ آج بھی اتنی سی امید تو ہے کہ اگر اس کا بس چلا تو ذاتی کاروبار بہرحال نہ چمکائے گا۔ بڑے پیمانے کی سرکاری کرپشن سے نمٹے گا۔ مردم شناس نہ سہی لیکن سرکاری عہدے ریوڑیوں کی طرح نہیں بانٹے گا۔ پولیس اور پٹوار کو بہتر بنائے گا۔ اگر وہ صرف معیشت کو دستاویزی بنانے میں کامیاب ہو جائے‘ سرکاری کارپوریشنوں کی نجکاری کر دے‘ زراعت کو بہتر بنا دے۔ کان کنی کے ماہرین تلاش کرے تو پاکستان ادبار سے نجات پا لے گا؛ باایں ایک شخص نہیں‘ یہ پوری قوم پہ منحصر ہوتا ہے۔ لیڈر سے فرق پڑتا ہے‘ قائداعظم نے کہا تھا: آدھی جنگ موزوں رہنما کے انتخاب سے جیت لی جاتی ہے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ زندہ اور بیدار قومیں ہی اچھے لیڈروں کا انتخاب کرتی ہیں وگرنہ آصف زرداریوں اور نواز شریفوں کی بھینٹ چڑھتی ہیں۔
شاہین صہبائی نے پوچھا ہے کہ کیا عسکری قیادت علی جہانگیر کے تقرّر پہ ناشاد ہے۔ جی ہاں‘ جس طرح باقی تمام ہوش مند لوگ۔ روایت یہ ہے کہ بھارت‘ افغانستان‘ برطانیہ اور امریکہ ایسے ممالک میں سفیر کا تقرر کرتے ہوئے‘ جی ایچ کیو سے مشورہ کیا جاتا ہے۔ علی ترین کے باب میں مشاورت کا یہ عمل بروئے کار نہیں آیا۔ ایک تقریب میں‘ اس کا تعارف جنرل سے کرایا گیا۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ صاحبزادے کے تقرّر پر‘ ان کا ردّعمل یہ تھا: اگر کوئی نوجوان صحافت میں ہارورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر آئے تو کیا ایک اخبار اسے ایڈیٹر کی کرسی سونپ دے گا؟ ظاہر ہے کہ تجربے کا کوئی بدل نہیں۔ امریکہ سے معاملات کی نوعیت‘ ایسی پیچیدہ اور حسّاس ہے کہ ایک نوجوان کو نہیں‘ یہ ذمہ داری کسی جہاندیدہ سفارت کار کے سپرد ہونی چاہیے۔ امریکہ ہی نہیں‘ برطانیہ‘ فرانس اور جرمنی کی قیادت میں‘ ملک کو دبائو کا سامنا ہے۔ امریکی افغانستان میں ہزیمت سے دوچار ہیں اور ملک میں مسلح گروہوں پر ابھی قابو نہیں پایا جا سکا‘ ایک نوجوان کو امریکہ میں سفیر مقرر کرنا بالکل ایسا ہے‘ جس طرح موہوم امید پر قومی کرکٹ ٹیم کسی نوجوان کھلاڑی کے سپرد کر دی جائے۔
جن لوگوں نے یہ فیصلہ صادر کیا‘ ان میں سے ایک کا وہ کاروباری شریکِ کار ہے۔ اس کے دونوں مشہور سرپرست سابق وزیراعظم کے ساجھے دار ہیں۔ ان میں سے ایک کو پچھلے چند برس میں‘ سرکاری بینکوں سے تین ارب روپے کے قرضے ملے۔ شہرت اس کی یہ ہے کہ قرض کبھی وہ واپس نہیں کرتا۔ اپنی دولت کا بڑا حصہ وہ بیرون ملک منتقل کر چکا۔
1996ء میں نگران وزیراعظم ملک معراج خالد نے یہ کہا تھا کہ 2012ء تک پاکستان ختم ہو جائے گا تو یہ ان کی خواہش تھی اور نہ فقط مایوسی کا اظہار۔ فی الواقع کچھ بڑی طاقتیں منصوبہ بنا چکی تھیں۔ نائن الیون کے بعد جو زیادہ شدّت کے ساتھ بروئے کار آیا۔ بتدریج جب بھارت امریکہ کا تزویراتی حلیف بن گیا۔ جب چین کو محدود کرنے کا حتمی ارادہ کر لیا گیا۔ الطاف حسین ان کا مہرہ تھا اور کچھ دوسرے لوگ بھی۔ وہ سیاسی لیڈر جو اپنا سرمایہ سمندر پار پہنچا رہے تھے‘ براہ راست خواہ شریک نہ تھے مگر ذہنی طور پر اس کے لیے تیار۔ الطاف حسین کی طرح وہ بھی انگریزوں کے لاڈلے ہیں۔ ایک مرحلے پر خود چینیوں کا اندازِ فکر یہ تھا کہ خدانخواستہ‘ پاکستان اگر ٹوٹ جائے تو افغانستان کے راستے گوادر پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ سی پیک یکایک بروئے کار آنے والی کوئی سکیم نہیں۔ برسوں سے اس پر غور و فکر جاری تھا۔ کراچی میں الطاف حسین کے علاوہ‘ قبائلی پٹی میں دہشت گردوں کی نمود‘ اس منصوبے کا حصہ تھی۔ 60 ہزار سے زیادہ دہشت گردوں کو سمندر پار سے ہر طرح کی امداد مل رہی تھی۔ بھارتی ''را‘‘ اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں کا اتحاد‘ اس منصوبے کا شاخسانہ تھا۔ آج بھی بلوچستان میں وہ تخریب کاری پر تلی ہیں۔
ہمیشہ عرض کرتا ہوں کہ اپنے تجزیوں میں تمام دوسرے عوامل کو ہم ملحوظ رکھتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کائنات کا کوئی خالق بھی ہے۔ انسانوں کے اپنے منصوبے ہیں اور پروردگار کے اپنے۔ ''انہوں نے چال چلی اور اللہ نے بھی چال چلی اور وہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘‘۔ پاکستانی فوج نے ماضی میں سرزد خوفناک غلطیوں کے تدارک کا فیصلہ کیا۔ سر ہتھیلیوں پر رکھ لیے۔ سیاچن کے علاوہ‘ جو مستقل دبائو رکھنے کا بھارتی حربہ تھا‘ قبائلی پٹی‘ بلوچستان اور کراچی میں وہ خوں ریز جنگ لڑی‘ دشمن کے عزائم جس نے خاک میں ملا دیئے۔ کسی بھی ملک کو آئین اور سیاسی عمل جوڑے رکھتا ہے۔ مگر ان دونوں سے بڑھ کر یہ پاک فوج کے چھ ہزار شہیدوں کا لہو تھا‘ جس نے ہر عفریت کو خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا۔
یہ 2012ء تھا‘ جب دبئی کے آواری ہوٹل میں مقیم الطاف حسین نے عادل صدیقی‘ فروغ نسیم‘ سینیٹر مصطفی کمال اور وزیرداخلہ رحمن ملک کو مدعو کیا۔ یہ راز آشکار ہونے کے بعد کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ سے وہ مالی مدد حاصل کرتا ہے‘ ایم آئی سکس نے اس سے تفتیش کی تھی۔ ناقابلِ تردید شواہد کی موجودگی میں اپنے جرم کا اس نے اعتراف کر لیا تھا۔ ان لوگوں سے اس کی استدعا اب یہ تھی کہ وہ اسے بچانے کی کوشش کریں۔ اور تو کوئی بروئے کار نہ آیا مگر بھارتی حکومت پریشان ہو گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الطاف حسین کو تو لوگ بھول جاتے‘ مقدمہ اجاگر ہونے کے بعد‘ بھارتی حکومت کٹہرے میں کھڑی ہو جاتی‘ عشروں سے جو پاکستان کی تخریب کے لیے سرگرم تھی۔ صرف الطاف حسین ہی نہیں‘ سیاسی محاذ پر عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمن ایسے حلیف بھی جسے میّسر تھے۔ کشمیر سمیت بھارتی درندگی پر جنہیں کبھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا‘ پاک فوج‘ ہمیشہ جن کا ہدف رہتی ہے۔ کراچی اور بلوچستان کے علیحدگی پسندوں پہ جو کبھی برہم نہ ہوئے مگر ان کے خلاف کارروائی کے ہنگام انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر‘ چیخ چیخ کر آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں۔ ملک بھر میں امریکہ نے این جی اوز کا جال پھیلا دیا تھا‘ جن میں سے بعض مغرب کے لیے جاسوسی کے فرائض بھی انجام دے رہی تھیں۔
اس مرحلے پر دہشت گردوں کے خلاف ڈٹ کر کی جانے والی کھلی کارروائیوں کے علاوہ‘ دو بڑے اہم واقعات رونما ہوئے۔ جنرل ناصر جنجوعہ‘ شمالی کمان کے سربراہ بنا دیئے گئے اور ایم کیو ایم کے مصطفی کمال نے بغاوت کا فیصلہ کیا۔ چار سال تک کراچی کا میئر رہنے کے بعد‘ جس میں غیر معمولی کامیابیاں اس نے حاصل کیں‘ اب وہ سینیٹ آف پاکستان کے ممبر تھے۔ ابھی چھ ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ خاموشی کے ساتھ وہ بیرون ملک چلے گئے۔ 3 مارچ 2016ء کو وہ واپس آئے اور ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کا اعلان کیا۔ خون ریزی سے اکتائے ہوئے ایم کیو ایم کے بہت سے نوجوان ان کی طرف لپکے۔ صرف چھ ماہ میں الطاف حسین کی ذہنی حالت ایسی ہو گئی کہ انہوں نے ''پاکستان مردہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا۔ کراچی سے چترال تک‘ ردّ عمل کا ایک طوفان اٹھا۔ میڈیا پر الطاف حسین کی گرفت ٹوٹ گئی‘ دیکھتے ہی دیکھتے‘ اسٹیبلشمنٹ یکسو ہو گئی۔
تین سال کے مختصر عرصے میں ناصر جنجوعہ نے بلوچستان کو بدل ڈالا۔ ان شہروں میں‘ جہاں پاکستان کا جھنڈا نہ لہرایا جا سکتا تھا۔ پے درپے‘ خواتین اور بچوں کی تقریبات منعقد ہونے لگیں۔ 2016ء کے یوم آزادی پر حبیب اکرم کے ساتھ میں نے کوئٹہ سے زیارت اور زیارت سے کوئٹہ تک کا سفر کیا۔ راستے میں کوئی کار‘ بس اور موٹرسائیکل ایسا نہ تھا‘ جس پر قومی جھنڈا نہ لہراتا ہو۔ یہ دلوں کو فتح کرنے کی جنگ تھی‘ جو ایک جنرل نے جیتی۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فتح حاصل کر لی گئی۔ کراچی شہر اب آزاد ہے‘ بلوچستان اور قبائلی پٹی میں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی۔ اب سیاسی معرکہ درپیش ہے۔
نوازشریف غلط فہمی کا شکار ہیں کہ وہ دوسرے شیخ مجیب بن سکتے ہیں۔ بیک وقت عدالت‘ فوج اور اپنے حریفوں کو وہ بلیک میل کر سکتے ہیں۔ تذبذب کی ماری یہ ایک منقسم قوم ہے‘ مگر ایسا بھی نہیں کہ وہ انارکی پھیلانے والوں کی آلہ کار بن جائے گی۔
آسمان دور ہے
اور اللہ بے نیاز ہے
مگر آسمان ایسا بھی دور نہیں
اور اللہ ایسا بھی بے نیاز نہیں

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved