تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     11-03-2018

سُرخیاں‘ متن اور خانہ پری

70 سالہ پالیسیوں کے خلاف بغاوت کرتا ہوں : نوازشریف
سابق اور نااہل وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''70 سالہ پالیسیوں کے خلاف بغاوت کرتا ہوں‘‘ لہٰذا اب مجھے کامریڈ کی بجائے باغی کہا جائے جبکہ توہین عدالت کی طرح اب بغاوت بھی کوئی جرم نہیں سمجھی جاتی۔ ساتھ ہی جاوید ہاشمی صاحب سے درخواست ہے کہ وہ بطور باغی اپنا لقب واپس لے لیں کیونکہ قائد کی طرح باغی بھی ایک ہی ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''حق اگر مانگنے سے نہ ملے تو چھین لیا جاتا ہے‘‘ کیونکہ اگر عوام سے ملک کے سارے وسائل چھینے جا سکتے ہیں تو حق کیوں نہیں‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''ہماری ٹانگیں کھینچنے والوں کی ٹانگیں عوام کھینچیں گے‘‘ اور اگر یہی عوام ہیں جنہوں نے میرے حکم پر نہ تو اب تک کسی ادارے پر حملہ کیا ہے نہ بغاوت کرتے نظر آتے ہیں تو وہ ٹانگیں کیسے کھینچیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم نے لوڈشیڈنگ ختم کر دی ہے‘‘ اگرچہ گرمیاں ابھی تک شروع بھی نہیں ہوئی اور غیرعلانیہ لوڈشیڈنگ پھر شروع ہو گئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی ہمارے خلاف سازش ہے۔ آپ اگلے روز بہاولپور میں جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
قومی وسائل لوٹنے والے گریبانوں میں جھانکیں : شہبازشریف
خادم اعلی پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''قومی وسائل لوٹنے والے گریبان میں جھانکیں‘‘ تاہم گریبان سے مراد اپنا گریبان ہے کہیں وہ ہمارے گریبان میں جھانکنا شروع نہ کر دیں جس کے بعد ان کی لوٹ مار کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہ جائے گی کیونکہ اگر ہم نے کچھ باقی چھوڑا ہوتا تب ہی وہ بھی اپنی پھرتیاں دکھاتے؛ تاہم ہمیں ان کے ساتھ ہمدردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ماضی میں حکمرانوں نے زبانی جمع خرچ کیا‘‘ جبکہ ہمارا سارا حساب کتاب بینکوں میں موجود ہے جو رفتہ رفتہ ظاہر ہو رہا ہے اور معصوم افسروں کو گرفتار بھی کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''قومی وسائل لوٹنے والے آج کرپشن کی باتیں کرتے ہیں‘‘ حالانکہ ہم نے کرپشن کے خلاف باتیں سب سے زیادہ کیں اور دال دلیا بھی کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم نے لوڈشیڈنگ کا عذاب ختم کر دیا‘‘ اور اب اگر گرمیوں کی وجہ سے یہ پھر شروع ہو گئی ہے تو اس لیے کہ موسموں پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
سب معلوم ہے پردے کے پیچھے کیا ہو رہا ہے : مریم نواز
سابق اور نااہل وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''سب کو معلوم ہے پردے کے پیچھے کیا ہو رہا ہے‘‘ کیونکہ پردے کے پیچھے ہمارا آدمی بھی بیٹھا سب کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے بلکہ سارے قبل ازوقت لکھے ہوئے فیصلے بھی پڑھ چکا ہے جن میں حسب معمول مکمل ناانصافی سے کام لیا گیا ہے۔ انہوں نے عمران خان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ''آپ کی دشمنی تو نوازشریف کے ساتھ تھی لیکن ہتھیار زرداری کے سامنے ڈال دیئے ہیں‘‘ اگرچہ اس بات میں کوئی منطق نہیں ہے کیونکہ نوازشریف کے سامنے تو ہتھیار ڈالنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا تھا کیونکہ خود جس آدمی کے پاس چند ہفتے ہی باقی رہ گئے ہوں‘ اس کے آگے ہتھیار کون بیوقوف ڈالے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''آپ جھکتے یا بکتے نہیں‘ سیدھا لیٹ جاتے ہیں‘‘ اور لیٹے لیٹے ہی کہہ دیا ہے کہ سینیٹ چیئرمین کے لیے نہ نوازشریف کے امیدوار کی حمایت کروں گا نہ زرداری کے آدمی کی۔ آپ اگلے روز بہاولپور میں جلسہ عام سے خطاب کر رہی تھیں۔
بڑھتی آبادی پائیدار ترقی یقینی بنانے میں بڑا چیلنج ہے : وزیراعظم عباسی
وزیر شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''بڑھتی آبادی پائیدار ترقی یقینی بنانے میں بڑا چیلنج ہے‘‘ اور حکومتی وعدوں کے باوجود کہ تیزرفتار ترقی ہو رہی ہے کے باوجود اگر کہیں ترقی نظر نہیں آتی تو اس کی وجہ بڑھتی آبادی ہے۔ اگرچہ سڑک کے حادثات میں روزانہ کافی افراد جاں بحق تسلیم ہو رہے ہیں لیکن اس سے بھی آبادی میں اضافے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے حالانکہ دوسرے محکموں کی طرح بہبود آبادی والوں کی بھی دال گلتی نظر نہیں آتی۔ آج کل ہمارے سمیت کسی اور کی بھی دال گلتی دکھائی نہیں دیتی‘ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دال ہی ناقص درجے کی ہے۔ بس صرف ہمارا دال دلیا ہو رہا ہے اور یہ بھی عین غنیمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں اٹھایا جائے گا‘‘ کیونکہ اگر ہم لوگ فالتو بچے پیدا کرنا بند کر دیں تو اس کا عوام پر بھی اچھا اثر پڑے گا اور یہ مسئلہ حل ہونے کی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔ آپ اگلے روز پاپولیشن کونسل کے وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔ اور‘ اب آخر میں حسب معمول خانہ پری کے طور پر یہ تازہ غزل :
سمجھا ہے تو کتنا بے اندازہ سمجھا ہے
میں دیوار تھا اور اُس نے دروازہ سمجھا ہے
اُس کو میرے صبر کا اندازہ ہی نہیں تھا‘ جو
میری خاموشی کو بھی آوازہ سمجھا ہے
یہ چالاکیاں اور کہیں جا کر دکھلایا کر
کیا تُونے مجھ کو مُلاّ دوپیازہ سمجھا ہے
وصل معمہ سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا‘ لیکن
اُس نے آ کر سمجھایا ہے لہٰذا سمجھا ہے
یہ جو سزا سنائی گئی ہے آج‘ اُسے ہم نے
جو کچھ نہیں کیا اُس کا خمیازہ سمجھا ہے 
سمجھانے سے مجھے سمجھ ہی نہیں آتی تھی‘ اور
بکھرا ہے تو تب جا کر شیرازہ سمجھا ہے
سوچ رہا ہوں کام اشاروں ہی سے چلائوں کچھ
آخر خود کو بالکل بے الفاظا سمجھا ہے
دل کی خاک ہے یہ‘ اور ٹھیک ہی سمجھا ہے جو وہ
اس غبار کو بھی چہرے کا غازہ سمجھا ہے
چکھنے سے بھی‘ ظفرؔ وہ سمجھ نہیں پایا ہے کچھ
باسی باسی تھا میں‘ اُس نے تازہ سمجھا ہے
آج کا مطلع
پڑے ہوئے بیمار بھی
رہتے ہیں بے کار بھی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved