حضرت سید علی ہجویری رحمہ اللہ تعالیٰ کے عہد میں بھی مُسْتَصوِفِین تصوف کے نام پر دامِ ہمرنگِ زمیں بچھا کرلوگوں کو اپنی عقیدت میں پھنساتے تھے ،اب توتقریباً ایک ہزار سال اور گزر چکے ہیں ،تو آپ اندازہ لگاسکتے ہیں زوال کا عالَم کیا ہوگا۔روحانیت کے جدید علمبردار بھی میدانِ عمل میں موجود ہیں اورمختلف شعبوں سے وابستہ کئی جدید تعلیم یافتہ افراد بالخصوص کالم نگار اُن کی عقیدت کے اسیر ہیںاور وقتاً فوقتاًاُن کا ذکرِ خیر کرتے رہتے ہیں ۔در اصل بات یہ ہے کہ تشرُّع و تدیُّن یعنی سنت کے مطابق دینی وضع قطع سے جدید اذہان کواجنبیت سی محسوس ہوتی ہے ،وہ اسے ایک بار محسوس کرتے ہیں ،انہیں دین اور روحانیت کا ایک نرم وملائم ایڈیشن چاہیے ، جس میںکچھ فوائد مل جائیں لیکن کرنا اور دینا کچھ نہ پڑے،یہ اب مارکیٹ میں دستیاب ہے ۔جو بات دینی وضع قطع میں ایک عالمِ دین کرتا ہے ،اگر وہی بات کوئی جدید تعلیم یافتہ شخص اپنے انداز میں کرے تو وہ انہیں زیادہ پرکشش محسوس ہوتی ہے ۔ ایک بزرگ کالم نگار نے ''روحانیت کے سپر اسٹار‘‘اور ''فقیر کیا کہتا ہے ‘‘ کے عنوان سے لکھے ہوئے کالموں کی طرف متوجہ کیا ہے ،جن میں ہلکے پھلکے انداز میں کچھ سوالات اٹھائے گئے ہیں ۔ ہمیں ایسے صاحبِ علم، جو جدید فلسفے اور نظریات سے بھی کما حقہٗ آگاہ ہو اور تقابلی جائزہ پیش کرسکتا ہو، کی فضیلت سے انکار نہیں ہے ۔ لیکن جس طرح مغربی فلسفے کو سمجھنے کے لیے انگریزی زبان اور جدید علوم کی ضرورت ہے ، اسی طرح دینی علوم کو پوری جامعیت کے ساتھ سمجھنے کے لیے کم از کم کوئی معیارِ علم ہونا چاہیے ،ایسا نہیں کہ دین کو بازیچۂ اطفال بنادیا جائے ،جیساکہ آج کل اس کے مظاہر دیکھنے میں آرہے ہیں ۔
کئی حضرات کی بابت بتایا جاتا ہے کہ وہ بندے کو دیکھتے ہی اسّی نوّے فیصد تک اس کی شخصیت کے بارے میں بہت کچھ بتادیتے ہیں۔ گزارش ہے کہ قیافہ شناسی ایک الگ علمی شعبہ اورنفسانی ملکہ ہے،جسے جدیداصطلاح میں فزیانومی (Physiognomy) کہاجاتا ہے، فزیانومسٹ کے لیے صوفی ہونا لازم نہیں ہے ،یقینا کوئی کامل صوفی بھی اس مہارت کا حامل ہوسکتا ہے ، غیر صوفی بھی ہوسکتا ہے اور غیر مسلم بھی ہوسکتا ہے۔ قیافہ شناس سے مراد نفسانی ملکہ اور مہارت کا حامل فرد جو کسی شخص کی قامت وجسامت ، رنگت ، خدوخال اورحرکات وسکنات کو دیکھ کر اس کے نسبی پسِ منظر، جبلّت اور عادات کے بارے میں حقیقت سے قریب تر رائے قائم کرسکے ، اس کا تناسب ہر شخص کی مہارت کے اعتبار سے کم یا زیادہ ہوسکتا ہے۔ اس میں قیافہ شناس کی قوتِ حافظہ، مشاہدے ،تجربے اور ذہانت کا بھی بڑا دخل ہوتاہے، ہمیں عہدِ رسالت مآب ﷺ میں بھی ایسی نظیریں ملتی ہیں:
ہم صحیح البخاری :6770-71اور صحیح مسلم:1459کی اِن روایات کو یکجا کر کے بیان کر رہے ہیں:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ایک دن رسول اللہ ﷺ (گھر میں)داخل ہوئے ،آپ بہت خوش تھے اور خوشی آپ کے چہرۂ انور سے جھلک رہی تھی ،آپ ﷺ نے فرمایا:اے عائشہ! تمہیں معلوم ہے کہمجزِّز مُدلجی آیا اور اس نے دیکھا :(دو اشخاص یعنی) زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما ایک چادر اوڑھ کرلیٹے ہوئے ہیں ،اُن کے بدن کا بالائی حصہ ڈھکا ہوا تھا اور پائوں نظر آرہے تھے ، اس نے کہا:یہ پائوں ایک دوسرے کا جزو ہیں‘‘۔ یعنی چادر لپیٹ کر لیٹے ہوئے یہ اشخاص مجھے باپ بیٹا لگتے ہیں ۔ اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:حضرت زید بن حارثہ کا رنگ گورا تھااور اُن کے صاحبزادے حضرت اسامہ بن زید کا رنگ کالا تھا ، رنگت کے اس تضاد کی وجہ سے زمانۂ جاہلیت میں بعض لوگوں نے اُن کے نسب کی صحت پر طعن کیا ۔پس آپ ﷺ کو خوشی ہوئی کہ اس قیافہ شناس کی ماہرانہ رائے نے اس طعن کو دور کردیا ۔حضرت اسامہ بن زید تو ثابت النسب تھے اور کسی کو اس میں شک نہ تھا ،لیکن اہلِ عرب چونکہ قیافہ شناسی پر یقین رکھتے تھے ،اس لیے اُن پر حجت قائم ہوگئی اور اس سے آپ ﷺ کو مسرّت ہوئی ، کیونکہ حضرت اسامہ بن زید کا لقب ''حِبُّ رَسولِ اللّٰہ‘‘ یعنی محبوبِ رسول تھا۔
اس حدیث کی روشنی میں امام شافعی اوربعض علماء نے ثبوتِ نسب کے لیے قیافہ شناسی کو حجت قرار دیا ہے ،اُن کی دلیل یہ ہے کہ اگر یہ استدلال آپ ﷺ کے نزدیک حق نہ ہوتا تو آپ اس پر مسرّت کا اظہار نہ فرماتے ،جبکہ امام اعظم ابوحنیفہ کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ طعن کرنے والوں کے نزدیک قیافہ شناسی حجت مانی جاتی تھی ،اس لیے مجزِّز مُدلجی کا قول اُن کے خلاف حجت ہوگیا، لیکن قیافہ شناسی یا الہامات یا مکاشفات سب ظنی امور ہیں ،ان کو معاون شہادت کا درجہ تو دیا جاسکتا ہے، لیکن یہ قطعی ناقابلِ تردید شہادت قرار نہیں دی جاسکتی،(مفتاح السعادۃ،ج:1،ص:330)۔
نیز یہ کہ باپ بیٹے میں محض رنگت کے اختلاف کے سبب نسب پر طعن کرنا درست نہیں ہے ،حدیث پاک میں ہے:'' ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یارسول اللہ! میرے ہاں ایک سیاہ فام بیٹا پیداہواہے (غالباً وہ خودسفید رنگ کا تھا ، اس بنا پر اُسے اپنے بیٹے کے نسب کے بارے میں شبہ ہوا)،آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ ،اُس نے جواب دیا: جی ہاں !، آپ ﷺ نے پوچھا: اُن کے رنگ کیسے ہیں ؟، اُس نے عرض کی: سرخ،آپ ﷺ نے فرمایا: کیا اُن میں کوئی خاکستری رنگ کا بھی ہے ؟ ، اُس نے عرض کی: جی ہاں !، آپ ﷺ نے فرمایا:تو سرخ اونٹوں میں خاکستری رنگ کا اونٹ کہاں سے آگیا ؟، اُس نے عرض کی: شاید(اُس کے نسبی آباء میں سے) کسی کی رگ نے اُسے کھینچ لیا ہو ، آپ ﷺ نے فرمایا: شاید تمہارے بیٹے کو بھی (تمہارے آباء واجداد کی )کسی رگ نے کھینچ لیا ہو، (بخاری: 5305)‘‘۔
حضرت رباح روایت کرتے ہیں :رسول اللہ ﷺ نے اُن سے پوچھا: تمہارے ہاں کیا پیدا ہوا، اُنہوں نے جواب دیا:میرے ہاں بیٹاپیدا ہوگا یا بیٹی ،آپ ﷺ نے پوچھا: وہ بچہ صورت میں کس سے مشابہ ہوگا؟، اُس نے عرض کی: یارسول اللہ! یقینااپنے باپ یا ماں میں سے کسی ایک کے مشابہ ہوگا ، آپ ﷺ نے فرمایا: ذرا رکو، اس طرح نہ کہو، (بات یہ ہے کہ )جب نطفہ ماں کے رحم میں قرار پاتا ہے ،تو اللہ تعالیٰ اُس کے اورآدم علیہ السلام کے درمیان اُس کے سلسلۂ نسب کوحاضر فرمادیتا ہے (اور وہ اُن میں سے کسی سے مشابہت اختیار کرلیتا ہے)، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں پڑھا: ''وہ جس صورت میں چاہتا ہے ،تمہاری تشکیل فرمادیتا ہے ،(المعجم الکبیر للطبرانی: 4624)‘‘۔چنانچہ اس طرح کی نظیریں ہمیں اپنے گرد وپیش میں مل جاتی ہیں کہ والدین اور اولاد کی رنگتوں اور نقوش میں فرق ہوتا ہے،یہی اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت اور مصوری ہے اور اس کا تکوینی نظام ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے اجدادِ عالی نسب بھی ایسی ہی شاہکار ذہانتوں کے حامل تھے ،ہم ذیل میں امام محمد بن یوسف صالحی کی روایت کا خلاصہ بیان کر رہے ہیں:
رسول اللہ ﷺ کی بیسویں پشت پر حضرت نزار آتے ہیں ،انہوں نے اپنا مال اولاد میں تقسیم کردیا اور وصیت کی کہ تم میں کوئی اختلاف پیدا ہو تو شاہِ نجران افعی سے فیصلہ کرانا۔ وہ افعی کے پاس جارہے تھے کہ ایک شخص ملا جس کا اونٹ گم ہوگیا تھا، اس نے ان سے پوچھا: آپ لوگوں نے میرا اونٹ دیکھا ہے ؟۔ ایک بھائی نے پوچھا: کیا تمہارا اونٹ کانا ہے ،دوسرے نے پوچھا: کیا تمہارا اونٹ لنگڑا ہے، تیسرے نے پوچھا: کیا وہ دم کٹا ہے ،اس نے تینوں باتوں کا جواب اثبات میں دیااور کہا:بتائومیرا اونٹ کہاں ہے؟،انہوں نے کہا: ہم نے نہیں دیکھا، اس نے کہا: آپ لوگوں نے دیکھا ہے، کیونکہ آپ ساری علامتیں درست بتارہے ہیں۔ پس وہ بھی شکایت کرنے کے لیے ان کے ساتھ افعی جرہمی کے پاس چلا گیااور سارا ماجرا بیان کیا۔افعی نے ان سے پوچھاکہ اگر آپ لوگوں نے نہیں دیکھا تو یہ ساری علامتیں کیسے درست بتادیں۔ ایک نے کہا: ہم نے دیکھا کہ ایک طرف کی گھاس چری ہوئی ہے اور دوسری طرف بالکل منہ نہیں لگایاتو ہم نے اندازہ لگایا کہ یہ اونٹ کانا ہے ، دوسرے نے کہا:ہم نے دیکھا کہ مینگنیاں اکٹھی پڑی ہیں ،تو ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ دُم کٹا ہے ، تیسرے نے کہا: ہم نے دیکھا کہ ایک پائوں کے نشانات زمین پرثبت ہیں اور دوسرا گھسٹتا ہوا نظر آیا، تو ہم سمجھے کہ یہ اونٹ لنگڑا ہے۔ بادشاہ اُن کی ذہانت کو دیکھ کر حیران ہوگیا اور کہا کہ آپ لوگ خود اپنا فیصلہ کریں ۔بادشاہ نے اُن کی ضیافت پرایک خادم کو مامور کردیا ،شراب ، گوشت اور روٹی سے اُن کی تواضع کی ۔ان میں سے ایک نے کہا: یہ شراب اُس انگور سے کشید کی گئی ہے جو قبر پر اگا ہوا ہے، دوسرے نے کہا: یہ گوشت اس بکری کا ہے جسے کتیا کا دودھ پلایا گیا ہے ،تیسرے نے کہا: بادشاہ صحیح النسب نہیں ہے، جب بادشاہ تک یہ تبصرہ پہنچا تو اس نے ان سے ان آراء کا سبب معلوم کیا۔ انہوں نے بتایا: ہمارے قیافے کی بنیاد یہ ہے کہ عمدہ شراب سرور عطا کرتی ہے اور غم کو زائل کرتی ہے لیکن اس نے یہ اثر نہیں دکھایا،لگتا ہے کہ یہ انگور قبر پر اگا ہے اور قبرستان مقامِ سرور نہیں ہے۔ اسی طرح حلال جانور کی چربی گوشت کے اوپر ہوتی ہے ،جبکہ کتے کی چربی گوشت کے نیچے ہوتی ہے اور شوربے میں چربی نیچے تھی ، اس سے ہم نے قیاس کیا کہ اس بکری نے کتیا کا دودھ پیا ہے، ماضی میں جب والد کے ہمراہ ہم نے بادشاہ کی ضیافت کھائی تو بادشاہ اکرام کے طور پر مہمانوں کے ساتھ بیٹھا تھا، لیکن موجودہ بادشاہ نہیں بیٹھا ،اس سے معلوم ہوا کہ اس کے نسب میں خرابی ہے اور بعد میں اس کی تصدیق ہوگئی۔