تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     13-03-2018

ایک درخواست بابا رحمتے کے نام

جناب ثاقب نثار چیف جسٹس آف پاکستان نے عوام کے پیسوں سے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف عرف خادم اعلیٰ کو سرکاری پراجیکٹس از قسم ہیلتھ کارڈ وغیرہ پر اپنی تصویر چھپوانے سے منع کر دیا ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ یہ وہ قدم تھا جس کے بارے میں کم از کم ہزار بار سوچ چکا ہوں کہ آخر میرے پیسوں سے شروع ہونے والے سرکاری پراجیکٹ پر خادم اعلیٰ کی تصویر کیوں چھپتی ہے؟ میرے اور آپ کے پیسوں سے تکمیل پانے والے کسی پراجیکٹ کی افتتاحی تقریب پر اخبارات پر پورے پورے صفحے کے اشتہار پر وزیر اعلیٰ کی فوٹو کیوں لگی ہوتی ہے ؟ عوام کے پیسوں سے مکمل ہونے والی موٹروے کا سارا کا سارا کریڈٹ صرف حکمران کیسے سمیٹ لیتے ہیں اور اسے صرف اپنا کارنامہ کیسے قرار دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ محلے کی گلیاںبنانے والے کونسلر نالی پکی کروانے اور گلی میں اینٹوں کی سولنگ لگوا کر اس پر اپنے نام کی افتتاح کی تختی کیسے لگوا لیتے ہیں ؟ اس سارے کام پر صرف اور صرف میری اور آپ کی جیب سے وصول کئے گئے ٹیکس کے پیسے لگتے ہیں۔ اس میں خود اس کونسلر نے کبھی ایک ٹکے کا ٹیکس نہیں ادا کیا ہوتا، یہی کام ہمارے وزیر مشیر کرتے ہیں، کسی وزیر مشیر نے چار روپے سے زیادہ ٹیکس ادا نہیں کیا ہوتا اور عوام کے پیسوں سے بنائے جانے والے پراجیکٹس کے افتتاحی موقع پر اپنی، وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کی تصاویر والے بڑے بڑے اشتہار اپنی وزارت کے خرچے پر چھپواتے ہیں۔ اس پراجیکٹ پر اپنے نام کی سنگ مرمر کی ''پھٹیاں‘‘ لگواتے ہیں، آخر یہ کیا ہو رہا ہے ؟ 
دنیا کا کافی حصہ گھوم پھر کر دیکھ چکا ہوں،بدقسمتی سے پورے یورپ میں ، امریکہ میں اور کینیڈا یا آسٹریلیا وغیرہ میں کسی یونیورسٹی کا نام ایسا نہیں دیکھا جو کسی وزیر اعلیٰ نے اپنے سابق وزیر اعظم بھائی کے نام پر رکھا ہو۔ پیسہ سرکار کا یعنی آپ کے اور میرے ٹیکس سے اکٹھا کیا ہوا ہو اور وزیر اعلیٰ اپنے سابق وزیر اعظم بھائی کے نام سے اس پیسے سے یونیورسٹی بنا دیں جبکہ اس یونیورسٹی کے قیام میں سابق وزیر اعظم کا ٹکے کا حصہ بھی نہ ہو، کسی گلی یا سڑک کے کنارے پر کبھی کوئی پتھر کی سل لگی نہیں دیکھی جس میں اس گلی یا سڑک کے افتتاح کا کریڈٹ کسی گورنر، وزیر اعلیٰ ، صدر یا وزیر اعظم کو دیا گیا ہو، مغرب میں یہ سارا کریڈٹ حکمرانوں کو نہیں قومی ہیروز کو دیا جاتا ہے۔ لیور پول کا ہوائی اڈہ لیور پول کے رہائشی اور دنیائے موسیقی میں مصروف ترین گروپ ''بیٹ لیس‘‘ کے مرکزی گلوکار جان لینن کے نام پر ہے۔ برطانیہ کے کسی وزیر اعظم کسی وزیر یا میئر کے نام پر نہیں ہے۔
دنیا کا تیسرا یا چوتھا مصروف ترین ایئر پورٹ شکاگو بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہے۔ وہ دوسری جنگ عظیم کے امریکی ایئر فورس کے ہیرو ''اوہیئر‘‘ کے نام پر ہے۔ لاس اینجلس کا ہوائی اڈہ لاس اینجلس کے پہلے سیاہ فام میئر ''ٹام بریڈلی‘‘ ،جو 1973ء سے 1993ء تک لگاتار بیس سال تک لاس اینجلس کا میئر منتخب ہوا، کے نام پر ہے۔ لاس اینجلس انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے نام کو اس کے نام سے معنون کرنے کے پیچھے کئی وجوہات تھیں۔ ٹام بریڈلی لاس اینجلس کا پہلا افریقی امریکن یعنی سیاہ فام میئر تھا۔ وہ لگاتار پانچ بار لاس اینجلس کا میئر منتخب ہو جو اب تک اس شہر کیلئے ریکارڈ مدت ہے۔ وہ 1993ء میں محض اس لئے مستعفی ہو گیا کہ اس کی ریٹنگ 1992ء میں شہر میں ہونے والے خونریز ہنگاموں کے بعد‘ جنہیں ''روڈنی کنگ رائٹس‘‘ کے نام پر یاد کیا جاتا ہے، کم ہونا شروع ہو گئی تھی۔ اپنی ریٹنگ کے کم ہونے پر وہ میئر شپ سے مستعفی ہوگیا۔ 
مجھے برطانیہ میں کوئی سڑک ایسی نظر نہیں آئی جس کی نکڑ پر کسی کونسلر نے افتتاحی ''پھٹی‘‘ لگائی ہو اور اس پر اس کا نام جلی حروف میں لکھا ہو۔ کسی وزیر کا نام کسی پراجیکٹ کی تکمیل والی سنگ مرمر کی تختی پر نظر نہیں آیا۔ اور کسی وزیر اعظم کی تصویر کسی موٹروے کی تکمیل والے دن سرکاری خرچے پر چھپی نظر نہیں آئی۔ ادھر عالم یہ ہے کہ ابھی تک مسائل کا شکار اور اپنی اصل لاگت سے کسی گنا زیادہ خرچ کرنے کے بعد بھی پیداوار سے جزوی طور پر محروم نندی پور پاور پلانٹ کی افتتاحی تقریب پر کروڑوں روپے کا خرچہ ہوا۔ لاکھوں روپے کے اشتہار چھپے، ان اشتہاریوں پر میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی تصویریں چھپیں، مبارکبادی کے پیغامات پر مختلف سرکاری محکموں نے جو اشتہار چھپوائے وہ علیحدہ ہیں اور نتیجہ یہ نکلا کہ اڑتیس ارب روپے کے تخمینے والا یہ پراجیکٹ اسی ارب روپے خر چ ہونے کے باوجود چار دن بھی اپنی پیداواری استعداد یعنی 425 میگاواٹ پیدا نہیں کر سکا اور سرکار نے ہمارے خرچے پر کمپنی کی مشہوری پر کروڑوں روپے اڑا دیئے۔
بابا رحمتے نے جو کیا ہے وہ ٹھیک کیا ہے لیکن احمد ندیم سید کا سوال بڑا مناسب ہے، پہلے تو یہ بتادوں کہ احمد ندیم سید کون ہے ؟ یہ میرا ایم بی اے کلاس فیلو ہے، ہم دونوں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں اکٹھے پڑھتے رہے ہیں۔ ہمارا آپس میں ملنا تو کم ہوتا ہے لیکن ملنے کے علاوہ والا رابطہ ٹھیک ہے۔ احمد ندیم سید نے سوال کیا ہے کہ کیا صرف پنجاب کے حوالے سے ہی نوٹس ہونا چاہیے؟ بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان ان کا دائرہ کار پورا پاکستان ہے۔ اس میں خیبر پختونخوا بھی آتا ہے ، بلوچستان بھی اور سندھ بھی، کیا وزیر اعلیٰ کی تصویریں صرف پنجاب کے اخباروں میں چھپ رہی ہیں اور کیا صرف خادم اعلیٰ کی تصویریں ہی ہمارے خرچے پر اخبارات کی زینت بن رہی ہیں؟
یہ کام سندھ میں بھی ہو رہا ہے اور خیبر پختونخوا میں بھی دھوم دھڑکے سے جاری ہے۔ اپنے خادم اعلیٰ تو پھر پنجاب کے منتخب عوام نمائندے ہیں‘ یہ عمران خان خیبر پختونخوا حکومت میں کس مرتبے پر فائز ہیں اور مرحوم ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو سندھ میں کس سرکاری عہدے پر فائز ہیں کہ ان کی تصویر ہر سرکاری اشتہار میں ہمارے خرچے پر چھپ رہی ہے ؟ اورہاں! یہ بلاول بھٹو زرداری کے پاس کون سا حکومتی پورٹ فولیو ہے کہ ان کی تصاویر بھی دھڑا دھڑ چھپ رہی ہیں ؟
باب رحمتے سے درخواست ہے کہ وہ اپنے اختیارات کا دائرۂ کار آئین کے مطابق پورے پاکستان پر پھیلائیں اور خیبر پختونخوا میں ''ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے خرچے پر چھپنے والے اشتہار پر قبلہ عمران خان کی تصویر پر بھی ایکشن لیں اور سندھ حکومت کی طرف سے چھپنے والے تقریباً ہر اشتہار پر ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی تصویر جس کا سائز عموماً وزیر اعلیٰ سندھ سائیں مراد علی شاہ کی تصویر کے سائز سے کئی گنا بڑا ہوتا ہے، پر بھی زور دکھائیں۔ پراجیکٹ آج لگ رہا ہے اور اس پر اڑتیس سال پہلے اور دس سال پہلے اس دنیا سے رخصت ہو جانے والی شخصیات کی تصویریں، جو ایک سیاسی پارٹی سے منسلک تھیں، کس حساب سے چھپ رہی ہیں؟
بابا رحمتے سے درخواست ہے کہ یہ ہمارے ٹیکس کے پیسوں کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضیاع اور سندھ میں اصراف پر بھی نوٹس لیں اور سب کو الگ لاٹھی سے ہانکتے ہوئے تصویروں والے اشتہاروں کی رقم پہلے سے ادا کرنے کا حکم جاری فرمائیں، جناب کی عین نوازش ہوگی۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved